از: عارف القادری واحدی ناٸب صدر : ایم ایس او آف انڈیا: بانی مرکز منہاج الصالحات ستارگنج اتراکھنڈ
ملک ہندوستان میں مسلمانوں پر 14 سالوں سے ہونے والے ظلم و ستم اور تشدد نے نہ صرف پوری امت مسلمہ کو بلکہ پوری عالمی اسلامی برادری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اس بربریت اور وحشت کے عالم میں سیاسی جماعتوں کے ارکان اور مسلم شخصیات اور امن کے علمبرداروں کی خاموشی قابل مذمت ہے اور قابل افسوس بھی۔ صرف ایک دو سیاسی لیڈروں کے علاوہ دوسرے سیاسی قائدین کا اس معاملے کے خلاف آواز بلند نہ کرنا اور ان مظلومین کے لئے جد وجہد نہ کرنا بے حد افسوسناک ہےتاہم سیاسی جماعتوں‘ تنظیموں اور سماجی اداروں کی جانب سے خاص کر یوپی کے مسلمانوں سے یکجہتی کے طور پر احتجاج و مظاہرے دیکھنے میں نہ آئے۔ اور نہ ہی ظلم و ستم کے شکار مسلمانوں کے لئے ہمدردی کے الفاظ اور ان کی معاشی مدد کے لئے اعلانات خبروں کی زینت بنے ہیں۔ یہ سب موجودہ حکومت عدلیہ قانون انتظامیہ سب کی مشترکہ سازش اور پلاننگ کے تحت ہو رہا ہے اور اس فعل شیطانی سے مسلمانوں پر مظالم کے حوالے سے بزدلانہ اور مجرمانہ رویہ نہ ترک کرنے کی قسم کھائی ہے ۔دوسری جانب شوشل میڈیا اور سماجی رابطوں نے سنبھل اور بہرائچ میں تشدد قتل و غارت گری آگ زنی کے واقعات کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے فیسں بک‘ ٹوئٹر‘ یوٹیوب اور دیگر سوشل ویب سائیٹس کے ذریعے بربریت اور مسلم کش کے واقعات وائرل ہوئے ہیں مگر ظلم و تشدد کا یہ سلسلہ نہ صرف رکا ہے بلکہ روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے جس کی بناء پر اب حکومت اور پولیس نے نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ سنبھل کا واقعہ ترک، پٹھان کا نیا اینگل تھا جس سے انتظامیہ اپنے آپ کو بچانا چاہتی ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیونکر ہوا۔جس میں گزشتہ چند سالوں سے مسلمانوں پر ظلم و ستم بند نہیں ہو رہا ہے۔سینکڑوں مسلمانوں کو کبھی ماب لنچنگ، گائے کشی، لو جہاد، این آر سی، اور نفرت کے نام پر بے دردی سے قتل کردیا گیا اور ہزاروں افراد کے گھروں پر بنا نوٹس دئے بلڈوز سے مسمار کر دیا گیا اور کئی نے وہیں تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔دراصل ابتدائی تہذیب کا گہوارہ سمجھا جانے والا اور گنگا جمنی تہذیب سے پہچانا جانے والا ملک ہندوستان اب اس کا شمار ان ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں پر سرکاری سرپرستی میں عدلیہ اور انتظامیہ کی قیادت میں گزشتہ 15 سالوں سے نہتے اور بے قصور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ 14 اکتوبر 2024 کا تازہ واقعہ اترپردیش کے بہرائچ ضلع کے مہراج گنج کا ہے اس کو بھی شرپسندوں کی نظر لگ گئی۔ وہ بہرائچ جو اب تک ایک پرامن ضلع کے طور پر جانا جاتا تھا، اب وہ بھی ایک حساس ضلع میں تبدیل ہو گیا ہے۔ شرپسند تنظیموں اور نفرت انگیز سیاست کے علمبرداروں کو وہاں کے ہندوؤں اور مسلمانوں کا شیر و شکر کے مانند گھل مل کر رہنا راس نہیں آیا۔ لہٰذا وہاں بھی وہی کھیل کھیلا گیا جو ایسے تمام امن پسند علاقوں میں گذشتہ 10 سالوں سے کھیلا جاتا رہا ہے۔ دراصل اس وقت ملکی سیاست کو جس رخ پر ڈال دیا گیا ہے وہ اسی صورت میں زندہ رہ سکتی ہے جب اسے نفرت و تشدد کی خوراک ملے مسلمانوں کا خون ملے۔ لہٰذا جب بھی وہ سیاست کمزور پڑتی نظر آتی ہے تو خاک و خون کی وارداتیں شروع کر دی جاتی ہیں۔اس سیاست کو اسی صورت میں تقویت ملتی ہے جب اس میں مذہب کی غلط طریقے سے آمیزش کی جائے۔ حالانکہ دنیاکے سیکولر لوگ کہتے ہیں کوئی بھی مذہب نفرت و دشمنی کی تعلیم نہیں دیتا۔ تمام مذاہب امن و شانتی اور پیار محبت کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن ہندوتوا کے نام سے ایک نیا مذہب پیدا کر دیا گیا ہےجس کا مقصد صرف دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت اور تشدد کا نشانہ بنانا اور ان پر مظالم ڈھاناہے۔ مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے کے لیے آسان طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ دھارمک جلوس نکالے جائیں۔ ان کو مسلم علاقوں سے گزارا جائے۔ اور ایسے علاقے سے گزارا جائے کہ راستے میں مسجد اور مدرسہ ضرور پڑے۔ مسجد کے سامنے پہنچ کر تیز آواز میں ڈی جے پر اشتعال انگیز گانے بجائے جائیں۔ اسلام اور مسلمانوں کو گالیاں دی جائیں۔ اگر وہ پھر بھی خاموش رہتے ہیں اور کوئی جواب نہیں دیتے ہیں تو مسجد کی چھت پر چڑھ کر اسلامی پرچم اتار کر ہندوتوا کا پرچم لہرایا جائے۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو کسی مسلمان کے مکان کی چھت پر چڑھ کر یہی حرکت کی جائے۔ اس کے باوجود اگر مسلمان صبر سے کام لیں تو کہیں سے ایک پتھر پھینک دیا جائے اور یہ افواہ اڑا دی جائے کہ مسلمانوں نے پتھراؤ کیا ہے۔ اور پھر طوفان بدتمیزی برپا کر دیا جائے۔یہی سب کچھ بہرائچ میں ہوا۔ جب درگا وسرجن جلوس مسجد کے سامنے پہنچا تو اشتعال انگیز گانے بجائے جانے لگے اور ایک ہندو نوجوان ایک مسلمان کے مکان کی چھت پر چڑھ گیا۔ اس نے وہاں اسلامی پرچم اتار کر ہندوتوا کا پرچم لہرایا۔ اس دوران اس کی زور آزمائی میں چھت کی ریلنگ ٹوٹ گئی۔ اسی دوران کسی نے گولی چلائی جو اس نوجوان کو لگی اور اس کی موت واقع ہو گئی۔ ابھی تک یہ ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ گولی کس نے چلائی لیکن مکان مالک عبد الحمید اور ان کے تین بیٹوں کو اس کا ملزم بنایا گیا اور انھیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ اس خبر کے پھیلتے ہی فطری طور پر غیر مسلموں میں اشتعال پھیل گیا اور معاملہ مزید بگڑ گیا۔ اگلے روز پورے علاقے میں طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا۔ مسلمانوں کی لاتعداد دکانوں اور مکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ لوٹ مار مچائی گئی۔ مقامی مسلمان خوف و دہشت کے عالم میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ وہ دوسرے محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔ گھروں میں عورتیں اور بچے بچے ہوئے تھے۔ پولیس ہمیشہ کی طرح پہلے خاموش تماشائی بنی رہی۔ اس نے شرپسندوں کو اپنی کارروائی کرنے کی کھلی چھوٹ دی اور اس کے بعد اس نے مسلمانوں کی اندھادھند گرفتاری شروع کر دی۔ متعدد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔اسی دوران میونسپلٹی کی جانب سے 23 مکانوں اور دکانوں پر غیر قانونی املاک کا نوٹس چسپاں کر دیا گیا اور انھیں تین دن کی مہلت دی گئی کہ وہ اس دوران اپنا سامان نکال لیں۔ ان ناجائز تعمیرات کو منہدم کیا جائے گا۔ اگر کسی نے انتظامیہ کے ساتھ تعاون نہیں کیا تو انہدام کا خرچ اسی سے وصول کیا جائے گا۔ لیکن مسلمانوں کا الزام ہے کہ اس کارروائی میں بھی امتیاز سے کام لیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی خبروں میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جن 23 مکانوں پر نوٹس چسپاں کیے گئے تھے ان میں سے صرف تین غیر مسلموں کے ہیں باقی سب مسلمانوں کے ہیں۔خبروں کے مطابق ایک ہی قطار میں درجنوں دکانیں ہیں لیکن بیچ بیچ میں غیر مسلموں کی دکانوں کو چھوڑ دیا گیا ہے اور صرف مسلمانوں کی دکانوں پر نوٹس چسپاں کیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی ایک مکان یا دکان کے بالکل برابر میں کوئی مکان یا دکان ہے تو پہلی دکان غیر قانونی اور دوسری قانونی کیسے ہو جائے گی۔ اس سے بالکل صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے تفریقی رویہ برتا جا رہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ نوٹس ایسے وقت چسپاں کیے گئے ہیں جب نہ تو متاثرین عدالت کا رخ کر سکیں اور نہ ہی اپنا سامان مکانوں اور دکانوں سے نکال سکیں۔ابھی بہرائچ کا زخم مندمل بھی نہیں ہو پایا تھا کہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد سروے میں تشدد اور قتل کا واقعہ نومبر 2024 میں پیش آیا تھا۔ اس واقعے میں مسجد کے سروے کے دوران تشدد کیا جس میں پولیس کی گولیوں سے 5 مسلم نوجوانوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد، علاقے میں تشدد اور عدم استحکام پھیل گیا تھا۔ حکومت اور انتظامیہ نے واقعے کی تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی اور جو مجرم نہیں تھے انہیں مجرم بنا کر گرفتار کرنے کے لیے کارروائی کی گئی تھی۔ اس واقعے نے علاقے میں مذہبی اور سماجی عدم استحکام کا باعث بنا اور لوگوں میں خوف اور بے چینی پھیل گئی۔ سنبھل کی شاہی جامع مسجد کا سروے کا معاملہ حال ہی میں سپریم کورٹ میں زیر التوا تھا۔ سپریم کورٹ نے ضلعی عدالت کی کارروائی پر روک لگا دی تھی اور مسلمانوں کی جانب سے درخواست گزاروں کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔ سنبھل میں شاہی جامع مسجد کے سروے کے موقع پر تشدد ہوا تھا، جس میں5 افراد ہلاک ہو گئے تھے یہ واقعہ ایک تنازع کا حصہ تھا جو مسجد کی تاریخ اور اس کی اصل حالت کے بارے میں تھا۔ مگر اب تو حیرت انگیز طور پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ سنبھل شاہی جامع مسجد کے بعد آستانہ خواجہ غریب نواز اجمیر شریف ، دہلی شاہی جامع مسجد، بدایوں جامع مسجد پر مندر ہونے کا دعوی کورٹ میں مقدمہ کیا گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں دیگر شہروں میں بھی ایسے سیکڑوں مقدمات سامنے آئیں گے ۔آخر میں سوال یہ ہے کہ مسلمانوں پر ظلم وستم اور تشدد قتل کب بند ہوگا اس کا سد باب کیسے ہوگا؟مسلمانوں کےتمام رہبر و رہنما قائدین اور ملت کے ٹھیکیداروں سے گذارش ہے کہ غور وفکر کریں اور اس کا لائحہ عمل تلاش ضرور کریں اور مسلمانوں کو ہوش مندی کے ساتھ سیاسی طاقت کو مضبوط کریں ورنہ روہنگیا اور فلسطین جیسی حالت ہماری بھی ہونے والی ہے۔
[…] ہے؟ سرکار ارشاد فرماتے ہیں نہیں۔ ۹ ویں دن جب حضرت سیدنا صہیب رومی رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ شریف پہنچے تو صحابہ کرام […]
[…] قیادت سب کی حفاظت، پیس پارٹی کا نیا نعرہ 5 دن ago بہرائچ سے سنبھل تک مسلمانوں پر ظلم وتشدد آخر کب تک ؟ […]
[…] ہے کہ انہوں نے جہنم کی تلاش کر لی ہے۔ خبروں کے مطابق اس تحقیق پر سائنسدان بھی اندر ہی اندر ہل […]