جامعہ محمودیہ اشرف العلوم میں منعقد جلسے سے مولانا اکرم جامعی کا خطاب، طلباء نے تقریری صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا
کانپور(محمد عثمان قریشی) کل ہند سنی علماء و مشائخ بورڈ و مجلس تحفظ ختم نبوت کانپور کے زیر اہتمام منائے جارہے یومِ حسن و معاویہؓ کے موقع پر جامعہ محمودیہ اشرف العلوم اشرف آباد جاجمؤ میں ناظم جامعہ مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی کی زیر نگرانی جلسہ کا انعقاد کیا گیا۔
اس موقع پر جامعہ کے موقر استاذ مولانا محمد اکرم جامعی نے خصوصی خطاب فرمایا، جس میں صحابہ کرام اور اہلِ بیت عظام کے مقام و مرتبہ، ان کے باہمی محبت و احترام، اور سیدنا حضرت حسن و امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین ہونے والی عظیم صلح کو اجاگر کیا گیا۔
مولانا محمد اکرم جامعی نے اپنے خطاب میں کہا کہ صحابہ کرام وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے براہِ راست نبی کریم ﷺ کی صحبت پائی اور دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں اپنی جان و مال کی قربانیاں دیں۔ آپ نے حدیثِ نبوی ﷺ (میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں،
جس کی بھی پیروی کرو گے، ہدایت پاؤ گے) کا حوالہ دے کر ان کی فضیلت کو واضح کیا۔اہلِ بیت کے مقام پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا نے فرمایا کہ اہلِ بیت اطہار سے محبت ایمان کا حصہ ہے اور نبی کریم ﷺ نے بارہا اپنی اہلِ بیت کی محبت کو اپنی امت پر لازم قرار دیا۔ آپ نے حدیثِ نبوی ﷺ (یا اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما) کو ذکر کر کے صحابہ و اہلِ بیت کی باہمی محبت اور احترام کا ذکر کیا۔
مولانا محمد اکرم جامعی نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو تفصیل سے بیان کیا۔ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺ کے پیارے نواسے، جنتی نوجوانوں کے سردار اور صبر و حکمت کی علامت قرار دیا۔
آپ نے فرمایا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے امت کے اتحاد کے لیے اپنی خلافت کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں چھوڑ کر ایک عظیم مثال قائم کی۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مولانا نے فرمایا کہ آپ ایک مدبر سیاستدان، بہترین منتظم اور نبی کریم ﷺ کے جلیل القدر صحابی تھے، آپؓ پر خود نبی اور صحابہؓ نے اعتماد کیا۔ حضرت عمرؓ نے آپ کو شام کا گورنر منتخب کیا۔
حضرت حسنؓ نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرکے تفرقہ بازوں کو منھ توڑ جواب دیا۔ آپ کی حکمرانی میں اسلامی ریاست کو استحکام ملا اور فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا۔ مولانا نے اس صلح کو امت مسلمہ کے لیے ایک پیغام قرار دیا کہ اختلافات کو نظرانداز کر کے اتحاد و بھائی چارے کو ترجیح دی جائے۔مولانا نے سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت حسن اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کا یہ عظیم عمل ہمیں سکھاتا ہے کہ ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر امت کے وسیع تر مفاد میں قربانی دی جائے۔
اگر آج ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلیں تو امت مسلمہ کے انتشار کو ختم کر کے دوبارہ عروج حاصل کیا جا سکتا ہے۔
مولانا نے اپنے خطاب کا اختتام اس بات پر کیا کہ امت مسلمہ کے تمام مسالک اور گروہوں کو صحابہ کرام اور اہلِ بیت اطہار سے محبت کے مشترکہ عقیدے پر متحد ہونا چاہیے۔ انہوں نے فرقہ واریت اور تفرقہ بازی کو امت کے زوال کی بڑی وجہ قرار دیا اور کہا کہ اگر امت حضرت حسن و معاویہ رضی اللہ عنہما کی صلح سے سبق لے تو عالم اسلام ایک بار پھر ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
جلسے کے دوران یومِ جمہوریہ کی مناسبت سے جامعہ میں تقریری مقابلے کا بھی اہتمام کیا گیا، جس میں طلبہ نے اپنی تقریری صلاحیتوں کا شاندار مظاہرہ کیا۔ مختلف موضوعات پر طلبہ نے پرجوش انداز میں تقاریر کیں اور سامعین سے داد وصول کی۔ مقابلے کے اختتام پر پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو خصوصی انعامات سے نوازا گیا۔ ان انعامات کی تقسیم نے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی اور ان کے شوق کو مزید بڑھایا۔
[…] پرست تحریکوں، تنظیموں اور جماعتوں کا انسداد فرما کر احقاق حق و ابطال باطل کا عظیم فریضہ انجام دیا ہے۔ اس کم عمری میں […]