از قلم: محمد قمرانجم قادری فیضی
اس گلشنِ ارضی ہندوستان کو جنت نشاں بنانے اور یہاں کے باشندوں کو امن و آشتی، پیار و محبت، اخوت و بھائی چارگی، اتحاد و اتفاق کا سبق پڑھانے میں خانقاہوں کو آباد کرنے والے اولیاء اللہ کا بڑا حصہ ہے جنہوں نے غمخواری، دل داری، یگانگت، ہم آہنگی، انسانیت نوازی، غریب پروری کے ذریعہ اپنے حلقہ مریدین کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ترغیب دی اور خود تاحیات ان اصولوں پر عمل پیرا رہے ۔ ان اولیاء اللہ کے انہیں فیوض و برکات اور مخلصانہ کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ صدیوں بعد بھی، رنگ و نسل، ذات پات، قوم و ملت، ملکی سرحدیں اور مذہب سے قطع نظر عوام کا جم غفیر ان کے آستانہ عالیہ پر در عقیدت پیش کرنے کو اپنے لئے باعث خیر و برکت سمجھتا ہے۔ انہیں باصفا اور باکمال سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی شیخ المشائخ قطب العالم عاشق اعلی حضرت ممتاز الصوفیاء
حضرت سیدنا شاہ یار علی شعیب الاولیاء قدس سرہ السامی بانی دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف ضلع سدھارتھ نگر کی ذات گرامی ہے۔ جن کے علوم و معارف اور سلوک کا ہر طرف روحانی ایمانی فیضان کا چشمہ آج تک جاری و ساری ہے۔
لکھنے کو تو حضرت شاہ یار علی لقد رضی المولی تعالی عنہ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آگے بھی لکھا جاتا رہے گا۔ حتی کہ آپ کے مبارک نام پر کئی یونیورسٹیز اور مدارس و جامعات میں "شعیب الاولیاء سیمنار” بھی منعقد ہو چکا ہے اس کے علاوہ آپ کی حیات و خدمات پر اب تک تقریباً چار پانچ کتابیں معرض وجود میں آچکی ہیں۔ نیز آپ کے ہی مبارک و مقدس نام سے دینی ادبی علمی قد آور شخصیات کو "شعیب الاولیاء ایوارڈ "سے بھی نوازا جا چکا ہے ۔ نیز آپ کے پاکیزہ نام سے ملک ہندوستان میں کئی مدارس و جامعات کا قیام عمل میں آچکا ہے اور آگے بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور وہاں سے قال اللہ تعالیٰ و قال الرسول کی نغمہ سنج صدائیں کانوں میں رس گھول رہی ہیں۔
پیش نظر کتاب "سیرت شعیب الاولیاء "کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ایسے مواد شامل کئے گئے ہیں جو دیگر کتابوں میں قارئین نے اب تک پڑھا نہیں ہوگا اور سنا بھی نہیں ہوگا ،بڑی ہی عمدہ سلیقے سے اور عرق ریزی و جانفشانی سے کتاب کو ترتیب وتہذیب سے آراستہ و پیراستہ کیا گیا ہے۔ آپ کے حلیہ و سراپا قد و قامت سے ایک اقتباس ملاحظہ کریں!
رنگ گندمی دل کے جذبۂ آدمیت کا عکاس، گول چہرہ دیباچۂ علم و عرفان ، قد و قامت درمیانہ "خَیرالامور اوسطھا” کا نمونہ، سر مبارک بڑا سیادت کا آئینہ دار جس پر علم و فضل اور شیخ المشائخ قطب الاولیاء اور ممتاز الصوفیاء کی خوبصورت دستار، گھنی اور خوبصورت داڑھی وجاہت مؤمن کی علامت ،کشادہ پیشانی سے اخلاق حسنہ کا جلوہ نمودار اور جس پر "تفقه فی الدین” کی تحریر سعادت آثار،گول آنکھیں گریۂ صبح گاہی کی غماز، بڑے بڑے کان”قال اللّٰه و قال الرسول” سننے کے لئے، الحیاء شعبۃ من الایمان” کی سرخی سے رخسار گلنار، پتلے پتلے ہونٹ جن پر تسبیح و تہلیل اور شریعت کی گفتار، اونچی ناک اہل سنت کی آبرو، گردن اونچی صرف بارگاہِ خداوندی میں تسلیم و رضا کی خاطر جھکنے کے لئے، سخاوت کے ہاتھ جس میں شریعت کا قلمِ بہار آثار پتلے پتلے ناخون جن سے علم و حکمت کی گرہیں کھولی جائیں جسم مبارک پر جبۂ عالی جس کا دامن علمائے اہلسنت کی علمی پناہ گاہ ، قدم میمون جب چلے تو پیچھے پیچھے تشنگان علم وفن کا کارواں چلے اور جہاں ٹھہر جائے وہاں علم و فن کا شہر آباد ہو جائے آج براؤں نانکار جو براؤں شریف کے نام سے ملک گیر شہرت کا حامل ہوچکا ہے یہ آپ کے ہی آمد مبارکہ کا سبب ہے۔
حضور شیخ المشائخ سیدنا شاہ یار علی لقد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دینی تبلیغی دعوتی اصلاحی تعمیری فکری نظری خدمات کا دائرہ بہت وسیع و عریض ہے جس میں نمایاں طور پر دارالعلوم فیض الرسول کا قیام اور سربراہی نیز درجنوں مساجد و مکاتب کی تعمیر و سرپرستی،مسلکی رہنمائی کے لئے دارالافتاء کا قیام ، فیض الرسول شعبۂ نشر و اشاعت قائم کیا۔ بیواؤں کی شادی، حاجت مندوں کی حاجت روائی،پریشاں حالوں کی مدد، اور خفیہ طور پر ہر مستحق پر صدقہ و خیرات کرنا آپ کا عظیم شیوہ تھا۔
حضور شیخ المشائخ سیدنا شاہ یار علی لقد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی
مسلک اعلیٰ حضرت سے وابستگی بھی عشق کی حد سے آگے تک تھی
آپ کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی اور مسلک اعلی حضرت پر سختی سے پابند تھے، خانقاہ فیض الرسول کا موقف کھلے لفظوں میں بیان کرتے ہوئے فرماتے "وہی مرید سچا مرید ہے جو مسلک اعلی حضرت سے وابستہ ہے مسلک اعلیٰ پر گامزن ہے۔ اور تا حیات اپنے خلفاء مریدین معتقدین کو مسلک اعلی حضرت پر گامزن رہنے کی سختی کے ساتھ تاکید فرماتے تھے ۔
ایسی تحریر جو دل کو چھولے وہ ادب ہے، ادب ہمارے احساسات جمال کی تشفی کرتا ہے۔ ادب کا بنیادی مقصد ہے کسی شی کو دیکھنے میں حسن کی تلاش کرنے ہیں۔ ادب کوئی ایسی شی نہیں جو ہر کوئی ایک لکیر کے حساب سے کھینچے اور یہ کہیں کہ اس کو ادب کہتے ہیں۔ ادب کو ہر کسی نے اپنے مطالعے مشاہدے اور تجربے کے بنیاد سے ایک یا دو لائنوں میں بیان کرنے کی کوشش کی ہیں۔ جس طرح اگر ادب کے حوالے یہ کہوں تو بھی غلط نہ ہو گا۔ ایسی خوبصورت تحریر جو متاثر کرے، وہ ادبی تحریر کہلائے گی، اس میں زبان کا خوبصورت استعمال جذبات و احساسات اور مشاہدات کو پیش کیا جائے ۔
انسان خواہ کسی بھی خطے کا ہو وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو اس کے احساسات و جذبات مشترکہ ہیں کچھ یا زیادہ، غم و نشاط ضروری ہو گا۔ ادب کسی بھی زبان میں ہو ادب کہلاتا ہے۔ ادب کے ساتھ جب بے ادبی سے پیش آیا جائے تو ادب بھی ایسے لوگوں کو اپنے دائرے میں جگہ دینا مناسب نہیں سمجھتا۔
پیش نظر کتاب "سیرت شعیب الاولیاء ” کا ضخامت 188/ صفحات سے زیادہ ہے ۔بہترین و دیدہ زیب سر ورق، لاجواب تزئین کاری سے پُر مطالعے کے ڈیسک پر حاضر ہے
پوری کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد ماحصل یہ ہے کہ
دعائیہ کلمات میں پیر طریقت مصدر تجلیات واحدی مظہر تجلیات طیبی و طاہری اولاد رسول عرف حضرت سہیل ملت میر سید محمد سہیل میاں قادری چشتی واحدی مدظلہ العالی والنورانی سجادی نشین خانقاہ عالیہ واحدیہ طیبیہ بلگرام شریف کے ہیں۔اور
تاثراتی کلمات میں خلیفہ طاہر ملت مصنف کتب کثیرہ علامہ مفتی محمد اسرار احمد فیضی واحدی ناظم اعلی جامعہ امام اعظم ابوحنیفہ نسواں عربی کالج علی پور بازار ضلع گونڈہ، مفکر قوم وملت خلیفہ تاجدار بلگرام مشہور نوجوان عالم دین علامہ محمد عارف القادری واحدی مرکزی (بی اے، ایم اے) بانی مرکز مہناج الصالحات ادھم سنگھ نگر اتراکھنڈ، مشہور عالم دین مصنف محقق ادیب شاعر علامہ مفتی کمال احمد نظامی علیمی مدظلہ العالی استاذ و مفتی دارالعلوم علیمیہ جمداشاہی بستی، اولاد علی مرتضی حضرت سید احمد حسن علوی مدظلہ العالی، مشہور و معروف صحافی علامہ محمد قمر انجم قادری فیضی ایڈیٹر مجلہ پیام شعیب الاولیاء براؤں شریف ضلع سدھارتھ نگر ،
معروف و مشہور قلمکار و مزاحیہ کالم نگار ڈاکٹر محمد قائم الاعظمی علیگ برجمن گنج، جیسی عظیم دینی ادبی علمی شخصیات کی تحریریں شامل کتاب ہیں۔
صاحبزادہ عالی وقار محب گرامی قدر علامہ حافظ و قاری محمد افسر علوی قادری چشتی مدظلہ العالی
ایک شاندار مبلغ، بهترین مربی اور عالی ظرف مہمان نواز ہیں۔ مزاج میں نرمی، کلام میں شیرینی اور اخلاق میں پاکیزگی آپ کا طرہ امتیاز ہے۔ عوام اور گردو نواح کے علاقے میں مبلغ مقرر اور پیر طریقت کی حیثیت سے جانے پہنچانے جاتے ہیں، نو جوان علما میں ایک منفرد اور ممتاز صلاحیت کے حامل ہیں۔
آج کے اس بھاگم بھاگ زندگی میں کون سے پیر صاحب کے پاس وقت ہے جو ایں دشوار گذار و پر پیچ راستوں سے چل سکیں؟ مگر صاحبزادہ سید محمد افسر علوی صاحب قبلہ مجلہ پیام شعیب الاولیاء کے لئے کافی تگ و دو کر رہے ہیں، اور اس کے علاوہ یہ بات ناقابل تردید ہے کہ اس میدان میں کتنی محنتیں مشقتیں کتنی نیندیں قربان کرنی پڑتی ہیں یہ وہی جانتے ہیں جو اس میدان سے گزر چکے ہیں ۔
پھر بھی آپ سفر و حضر ،درس وتدریس، تقریر نیز گھر کی زمہ داریوں سے وقت نکال کر مجلہ پیام شعیب الاولیاء کے لئے جس طرح جد وجہد کرتے رہتے ہیں یہ آپ کا ہی طرہ امتیاز ہے ۔ سلسلہ بسلسلہ قلمکاروں سے منتخب موضوعات پر مضامین لکھوانا، پھر مضامین کے لئے مسیج کرنا، وقت مقررہ تک ملے ہوئے تحریروں سے موضوع کے موافق مضامین کا انتخاب بڑا کٹھن اور دشوار گداز مرحلہ ہوتا ہے بعدہ حالات حاضرہ پر اپنا اداریہ ترتیب دینا بڑا جہد مسلسل والا کام ہے ۔
اللہ تعالیٰ اس کتاب کو مقبول ترین بنائے، اور مصنف صاحب کو حاسدین کی حسد سے محفوظ و مامون فرمائے، واضح ہوکہ اس کتاب کا رسم اجراء انشاء اللہ عزو جل عرس حضور چشتی میاں علیہ الرحمہ براؤں شریف میں علماء مشائخ کے ہاتھوں سے ہوگا ۔