جمعیۃ بلڈنگ رجبی روڈمیں منعقد تعزیتی نشست سے شرکاء کا اظہار خیال، مولانا کے اوصاف حمیدہ کو اپنانے کا عزم
کانپور (محمد عثمان قریشی) شہر کے بزرگ عالم دین، سینکڑوں علماء کے استاذ، مدرسہ جامع العلوم پٹکاپور کے سابق استاذ حدیث و فقہ، مرکزی عیدگاہ کے امام و خطیب اور کل ہند اسلامک علمی اکیڈمی کانپور کے سرپرست مولانا محمد شکیل صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات حسرت آیات پر اسلامک علمی اکیڈمی، حق ایجوکیشن اور جمعیۃ علماء شہر کانپور کی جانب سے جمعیۃ بلڈنگ رجبی روڈ میں تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا۔
نشست کا آغاز حق ایجوکیشن کے شعبہ حفظ کے طالب علم حافظ عبیداللہ سلمہ کی تلاوت سے ہوا، سیکنڈ ائیر کے طالب علم مولانا عبدالواحد قاسمی نے نعت پاک کا نذرانہ پیش کیا۔ مفتی محمد معاذ قاسمی نے مولانا مرحوم کا اجمالی تعارف پیش کیا جس میں مولانا کی ولادت، تربیت، تعلیم، تدریسی و دیگر دینی خدمات کو وفات تک بیان کیا گیا۔
کل ہند اسلامک علمی اکیڈمی کے صدر مفتی اقبال احمد قاسمی نے کہا کہ مولانا محمد شکیل صاحب قاسمیؒ اکابرین کی تربیت یافتہ تھے۔ مفتی اعظم ہند مفتی محمود حسن گنگوہیؒ، مولانا شاہ ابرارالحقؒ اور مولانا قاری سید صدیق احمد باندویؒ کے ساتھ آپؒ کا خصوصی تعلق تھا۔ آپ علیہ الرحمہ اکابر و اسلاف کی یادگار تھے۔ بحیثیت مدرس اور مصلح و مربی آپؒ نہایت کامیاب شخصیت کے مالک تھے۔ آپؒ کے دروس نہایت محققانہ اور عام فہم ہوا کرتے تھے۔ آپؒ کا طرزِ اصلاح نہایت مشفقانہ و مخلصانہ ہوا کرتا تھا۔ درسگاہ میں اوقات کی پابندی، طلبہ کے ساتھ ہمدردی و صلہ رحمی اور ضرورت مندوں کی خبر گیری آپؒ کا خاص وصف تھا۔
مفتی عبدالرشید قاسمی نے کہا کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے 35/ سالہ تدریسی زندگی میں کبھی چھڑی نہیں رکھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ ایسا رعب دیا تھا کہ طلباء سب سے پہلے آپؒ کا سبق یاد کرتے تھے۔ سنجیدگی اور متانت کا عالم یہ تھا کبھی قہقہہ لگاکر نہیں ہنستے، بلکہ جب خوش ہوتے یا کوئی مزاحیہ بات ہوتی تو مسکرایا کرتے تھے۔ آپؒ کی طرزِ زندگی کو دیکھ کر مولانا مبین الحق قاسمیؒ آپؒ کو جبرئیل امین کہا کرتے تھے۔ پیچیدہ مسائل کو عام فہم انداز پیش کرنے کا خاص ملکہ آپ کو حاصل تھا۔ حج و عمرہ کے تعلق سے جو کتاب آپ نے مرتب فرمائی وہ اس کا ایک نمونہ ہے۔
مدرسہ جامع العلوم پٹکاپور کے مہتمم محی الدین خسرو تاج نے کہا کہ مولانا علیہ الرحمہ کا جانا ہم سب کیلئے بہت تکلیف دہ اور خسارہ کے سبب ہے۔ آپ نے مدرسہ جامع العلوم کی خوب خدمت فرمائی۔ 2012ء میں بعض ذاتی اعذار کی بناء پر جب جامع العلوم سے مستعفی ہوگئے تب بھی مسلسل حالات دریافت کرکے دعاؤں سے نوازتے رہتے۔
جمعیۃ علماء اترپردیش کے نائب صدر مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے کہا کہ مولانا نے کے اندر وہ تمام صفات بدرجہ اتم نظر آتی ہیں جو ایک عالم، مبلغ اور مصلح کے اندر ہونی چاہئے۔ علمی رسوخ، مطالعہ کا ذوق، فقہی مسائل پر گہری نظر، معاشرہ کی اصلاح کی فکر، اپنے شاگردوں اور متعلقین سے بے لوث محبت اور شفقت ایسی صفات ہیں جن میں مولانا کا ثانی نظر نہیں آتا۔ شہر کے سرپرست بزرگوں کی کڑی کے مولانا آخری فرد تھے۔ ہمیں چاہئے کہ اب جو اکابر ہمارے درمیان موجود ہیں ہم ان کی قدر کریں۔
جمعیۃ علماء شہر کانپور کے صدر ڈاکٹر حلیم اللہ خان نے کہا کہ عیدین کے موقع پر مولاناؒ کی امامت میں دوگانہ ادا کرنے کا شرف حاصل ہوتا رہا ہے۔ مولانا کے جانے سے شہر یتیم ہوگیا ہے۔
کل ہند اسلامک علمی اکیڈمی کے جنرل سکریٹری مولانا خلیل احمد مظاہری نے کہا کہ مدرسہ جامع العلوم میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہوئے مولانا سے بھرپور استفادہ کا موقع ملا۔ خالی گھنٹوں میں حضرت مفتی منظور احمد صاحب مظاہریؒ کے علاوہ مولاناؒ ہی واحد شخص تھے جن کو نگاہیں تلاش کرتی تھی اور اکثر کتب خانے میں ملاقات ہوجاتی تھی۔
مولانا نورالدین احمد قاسمی نے کہا کہ مولاناؒ کو سچی خراجِ عقیدت یہی ہے کہ مولانا کے اوصاف حمیدہ کو اختیار کیا جائے۔ مولانا محمد اکرم جامعی نے کہا کہ ہم نے مولانا سے اصول الشاشی پڑھی ہے، مولانا وقت کے بہت پابند تھے۔ مولانا انیس خاں قاسمی نے کہا کہ مولانا عوام الناس کے لئے آسانی فراہم کرنے کے قائل تھے۔
حق ایجوکیشن کے سابق ڈائریکٹر مولانا حفظ الرحمن قاسمی نے مولانا کی محبتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی مولانا کو مدعو کیا تو اپنے مزاج کے خلاف مولانا ہر مرتبہ تشریف لائے اور دعاؤں سے نوازا۔ مولانا سبحان الٰہی نے کہا کہ مولانا ہر موقع پر رہنمائی فرماتے اور غلطی پر محبت کے ساتھ متنبہ بھی کرتے تھے۔ مولانا اکرم الٰہی نے کہا کہ یہ میرے لئے سعادت کی بات ہے کہ مولانا کی حیات میں ہی مسجد چوک صرافہ میں دو قت کی امامت کی خدمت سپرد کردی گئی تھی اور مولانا نے ہر موقع پر تربیت فرمائی۔
مولانا شکیل قاسمیؒ کے فرزند حافظ محمد راغب نہایت جذباتی انداز میں اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے بتلایا کہ مدرسہ جامع العلوم نے تعلیم کے دوران میرا امتحان والد صاحبؒ کے پاس چلا گیا تو محض اسلئے مجھے کم نمبرات دئیے کہ کوئی یہ نہ کہے کہ اپنے بیٹے کو اچھے نمبر دے دئیے۔
اس کے علاوہ مولاناؒ کے برادرِ صغیر حافظ محمد جمیل،مولانا محمد انعام اللہ قاسمی، مولانا انصار احمد جامعی، مولانا احمد فراز ندوی، حافظ محمد یوسف اٹاوی، مولاناؒ کے برادرِ نسبتی حافظ قمرالزماں، مفتی عثمان قاسمی، شارق نواب وغیرہ نے بھی اپنے تأثرات کا اظہار کیا۔ نشست کی صدارت مولانا مرحوم کے برادرِ کبیر حافظ محمد شفیق نے فرمائی۔ نظامت کے فرائض مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے انجام دئیے۔ شرکاء میں قاضی شہر حافظ معمور احمد جامعی، الحاج ارشاد الٰہی، حافظ محمد ناصر اٹاوی، مولانا محمد شفیع مظاہری کے علاوہ مولانا کے جملہ برادران، صاحبزادگان و اہل خانہ سمیت 200/ سے زائد افراد شامل تھے۔ اخیر میں مولاناؒ کے لئے ایصالِ ثواب کیا گیا اور مفتی اقبال احمد قاسمی کی دعا پر نشست اختتام پذیر ہوئی۔