عزتِ نفس کا تحفظ، سماج کی اصل ترقی ہے
✍️آصف جمیل امجدی
مسلم سماج کے مختلف پہلوؤں میں ہمیں ایسی کئی روایات اور رویے ملتے ہیں جو دینِ اسلام کی تعلیمات اور انسانی اخلاقیات سے مکمل طور پر متصادم ہیں۔ ان میں ایک نہایت افسوسناک اور شرمناک عمل یہ ہے کہ شادی بیاہ یا دیگر تقریبات کے بچے ہوئے کھانے مدارس کے طلبہ و طالبات کو بغیر دعوت دیے بھیج دیے جاتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف ان بچوں کی عزتِ نفس کو پامال کرتا ہے بلکہ ہمارے سماج کے اجتماعی اخلاقی دیوالیہ پن کی بھی عکاسی کرتا ہے۔
مدارس کے بچوں کا مقام اور ہماری ذمہ داری:
مدارس کے بچے وہ منور چراغ ہیں جو دینِ اسلام کے علم اور شعور کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ یہ بچے اپنی زندگیاں قرآن و حدیث کے علم کے لیے وقف کرتے ہیں اور انہی کی بدولت ہماری مساجد، مدارس، اور دینی روایات قائم ہیں۔ ان بچوں کا مقام اور ان کی خدمات کسی بھی دوسرے طبقے سے کم نہیں، بلکہ زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا غیر مساوی یا تحقیر آمیز رویہ رکھنا دینی اور اخلاقی اعتبار سے قابلِ مذمت ہے۔
شادی بیاہ کے بچے ہوئے کھانے بھیجنے کا المیہ:
شادی بیاہ یا دیگر تقریبات میں بچ جانے والے کھانے کو مدارس کے بچوں کے لیے بھیج دینا ہمارے معاشرتی رویے کا ایک المناک پہلو ہے۔ اس عمل کے پیچھے چھپی سوچ یہ ہے کہ یہ بچے چونکہ یتیم یا بے سہارا ہیں، اس لیے انہیں جو کچھ دیا جائے وہ قبول کرلیں گے۔ یہ رویہ ان بچوں کی عزتِ نفس کو نہ صرف مجروح کرتا ہے بلکہ انہیں معاشرے کا غیر اہم طبقہ قرار دیتا ہے۔
اسلام ہمیں ضیافت اور مہمان نوازی کی تعلیم دیتا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حکم دیتا ہے کہ کسی کی عزتِ نفس کو پامال نہ کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔”
یہ حدیث ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ دوسروں کے ساتھ وہی رویہ اختیار کریں جو ہم اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔ کیا ہم اپنے بچوں کے لیے ایسے کھانے کو پسند کریں گے جو کسی تقریب میں بچ گیا ہو؟ اگر نہیں، تو مدارس کے بچوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں؟
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اکثر لوگ اس عمل کو صدقہ یا نیکی سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ عمل نیکی نہیں بلکہ ان بچوں کی عزتِ نفس پر ایک حملہ ہے۔ صدقہ و خیرات کے اصول یہ ہیں کہ دینے والے کو لینے والے کی عزتِ نفس کا پورا خیال رکھنا چاہیے اور دینے کا طریقہ ایسا ہونا چاہیے کہ لینے والے کو احساسِ کمتری نہ ہو۔
ہمیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور اپنے سماج میں اس غیر منصفانہ رویے کو ختم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ:
- مدارس کے بچوں کو تقریب میں باقاعدہ مدعو کیا جائے اور ان کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آیا جائے۔
- شادی بیاہ کے بچے ہوئے کھانے کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ایسے افراد یا اداروں کو دیا جائے جو اس کو عزت کے ساتھ تقسیم کریں۔
- عوامی شعور بیدار کیا جائے کہ مدارس کے بچے ہماری ذمہ داری ہیں اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا غیر مساوی رویہ ناقابل قبول ہے۔
- علماء اور دینی رہنما اس موضوع پر آواز بلند کریں اور لوگوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق راہ دکھائیں۔
مدارس کے بچے ہمارے دین کے محافظ ہیں اور ان کی عزتِ نفس کی حفاظت کرنا ہمارا دینی و اخلاقی فرض ہے۔ شادی بیاہ کے بچے ہوئے کھانے ان کے لیے بھیج کر ہم ان کے دلوں میں احساسِ کمتری پیدا کرتے ہیں اور اپنے معاشرتی رویے کی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس عمل کو ختم کریں اور اپنے رویے میں حقیقی اسلامی روح کو شامل کریں۔