تحریر: ابوشحمہ انصاری سعادت گنج، بارہ بنکی
بھارتی سیاست میں کچھ نام ایسے ہیں۔ جو اپنی خدمات، جدوجہد اور معاشرے کے لیے اپنی بے لوث قربانیوں کی بدولت ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر پی ایل پونیا بھی ایسے ہی ایک شخصیت ہیں۔ جنہوں نے انتظامی خدمات سے لے کر سیاست تک، ہر قدم سماجی انصاف اور مساوات کے فروغ کے لیے وقف کیا۔ 23 جنوری 2025 کو وہ 80 برس کے ہوگئے ہیں۔ اس موقع پر ان کی زندگی، جدوجہد اور کارناموں کو یاد کرنا نہ صرف ان کی خدمات کا اعتراف ہے۔ بلکہ نئی نسل کے لیے ایک درس اور تحریک بھی ہے۔
جائے پیدائش:
ڈاکٹر پی ایل پونیا 23 جنوری 1945 کو پنجاب (موجودہ ہریانہ) کے ضلع جھجر میں پیدا ہوئے۔ ان کا ابتدائی دور جدوجہد سے بھرا ہوا تھا۔ لیکن تعلیم کے تئیں ان کے غیر متزلزل عزم نے انہیں آگے بڑھنے کی طاقت دی۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی، چندی گڑھ سے ماسٹرز (ایم․ اے․) کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں لکھنؤ یونیورسٹی سے پی․ ایچ․ ڈی․ کی سند حاصل کی۔ ان کی تعلیمی زندگی یہ ثابت کرتی ہے کہ تعلیم صرف ذاتی ترقی کا ذریعہ نہیں۔ بلکہ معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے بھی ایک مؤثر وسیلہ ہے۔
انتظامی خدمات:
ڈاکٹر پونیا کی غیر معمولی صلاحیتوں اور قائدانہ خوبیوں کی وجہ سے انہیں 1970 میں بھارتی انتظامی خدمات (IAS) میں منتخب کیا گیا۔ بطور اعلیٰ سرکاری افسر انہوں نے کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ 1982 سے 1985 تک وہ علی گڑھ کے ضلع مجسٹریٹ کے طور پر تعینات رہے۔ اس دوران ان کی کارکردگی قابلِ ستائش رہی۔ انہوں نے مختلف اضلاع میں انتظامی امور سنبھالتے ہوئے نہ صرف قانون و امن و امان کو مستحکم کیا۔ بلکہ ترقیاتی کاموں میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔
نمایاں خدمات:
ان کی شناخت ایک حساس اور عوام دوست افسر کے طور پر ہوئی۔ ان کے کیے گئے کاموں نے پسماندہ طبقات کو انصاف دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ انتظامیہ میں رہتے ہوئے بھی دلتوں، پسماندہ طبقات اور کمزور برادریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہے۔ ان کے دور میں تعلیم، صحت اور سماجی بہبود سے متعلق کئی منصوبوں کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا گیا۔
ریٹائرمنٹ:
سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد، ڈاکٹر پونیا نے سیاست کے ذریعے سماجی خدمت کو اپنی زندگی کا مشن بنایا۔ 2009 میں وہ بھارتی نیشنل کانگریس کے ٹکٹ پر بارہ بنکی لوک سبھا نشست سے رکنِ پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ ان کی کامیابی نہ صرف ان کی مقبولیت کا ثبوت تھی۔ بلکہ عوام کے ان پر اعتماد کی بھی علامت تھی۔
راجیہ سبھا سانسد:
2014 میں انہیں اترپردیش سے راجیہ سبھا کے رکن کے طور پر منتخب کیا گیا۔ 2020 تک وہ اس منصب پر فائز رہے۔ ایک رکنِ پارلیمنٹ کی حیثیت سے انہوں نے سماجی انصاف، دلتوں کے حقوق، تعلیم اور صحت جیسے اہم امور کو پارلیمنٹ میں اٹھایا۔ ان کی نظریہ بالکل واضح تھا۔ سماج کے کمزور طبقات کو مساوی مواقع اور انصاف فراہم کرنا۔
این سی سی چیئرمین:
2010 سے 2017 تک، ڈاکٹر پونیا نے قومی کمیشن برائے درج فہرست ذات (NCSC) کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس اہم عہدے پر فائز رہتے ہوئے انہوں نے درج فہرست ذاتوں (دلتوں) کے حقوق کے تحفظ اور ان کے بااختیار بنانے کے لیے کئی مؤثر اقدامات کیے۔ انہوں نے دلتوں پر ہونے والے مظالم کے معاملات کی جانچ کرکے انصاف کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ان کی قیادت میں کمیشن نے متعدد معاملات میں فوری کارروائی کی۔ حکومت سے یہ یقینی بنانے کا مطالبہ کیا کہ درج فہرست ذاتوں کو آئینی حقوق کا مکمل فائدہ ملے۔ ان کی پالیسیاں اور فیصلے سماجی ہم آہنگی اور مساوات کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوئے۔
ڈاکٹر پی ایل پونیا کی پوری زندگی سماجی انصاف کے لیے جدوجہد اور محروم طبقات کو ان کا حق دلانے کی ایک مثال ہے۔ وہ بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے نظریات سے گہرے متاثر رہے۔ اپنے سیاسی و انتظامی سفر میں ہمیشہ انہی اصولوں پر کاربند رہے۔
وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ دلتوں اور پسماندہ طبقات کو تعلیم، روزگار اور سماجی وقار حاصل ہونا چاہیے۔ انہوں نے اپنی طرزِ عمل سے یہ ثابت کیا کہ اگر اخلاص اور خلوص کے ساتھ کام کیا جائے۔ تو کسی بھی سماج کے کمزور طبقات کو مرکزی دھارے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
تعلیمی اصلاح:
ڈاکٹر پونیا کی زندگی جدوجہد، کامیابی اور سماجی خدمت کا حسین امتزاج ہے۔ ان کی انتظامی مہارت، سیاسی بصیرت اور سماجی خدمت کے تئیں لگن نے انہیں بھارتی سیاست میں ایک منفرد مقام عطا کیا ہے۔ وہ نہ صرف ایک ماہر منتظم اور مؤثر سیاستدان ہیں بلکہ وہ سماجی تبدیلی کے ایک بڑے محرک بھی ہیں۔
آج جب ملک سماجی مساوات اور انصاف کی راہ پر گامزن ہے۔ تو ڈاکٹر پی․ ایل․ پونیا جیسی شخصیات کا کردار اور بھی زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ صرف عہدے اور شہرت ہی اہم نہیں بلکہ معاشرے کے تئیں ہماری ذمہ داری اور خدمات ہی ہماری اصل پہچان بنتی ہیں۔