By using this site, you agree to the Privacy Policy and Terms of Us
Accept
NewsG24UrduNewsG24UrduNewsG24Urdu
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • اتصل
  • مقالات
  • شكوى
  • يعلن
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
Reading: کامیاب تجارت کیسے کریں؟ کامیاب تجارت کے رہنما اصول
Share
Notification Show More
Font ResizerAa
NewsG24UrduNewsG24Urdu
Font ResizerAa
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Have an existing account? Sign In
Follow US
NewsG24Urdu > Blog > اقتصاديات > کامیاب تجارت کیسے کریں؟ کامیاب تجارت کے رہنما اصول
اقتصادياتمضامین

کامیاب تجارت کیسے کریں؟ کامیاب تجارت کے رہنما اصول

Last updated: جنوری 28, 2025 9:19 صبح
mohdshafiquefaizi 4 مہینے ago
کامیاب تجارت کیسے کریں?
کامیاب تجارت کیسے کریں؟ کامیاب تجارت کے رہنما اصول
SHARE


محمد رابع نورانی بدری: استاذ ومفتی دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف

کامیاب تجارت کیسے کرین اس کے رہنما اصول کیا ہیں۔ اس مضمون میں ہم ایک تفصیلی جائزہ پیش کریں گے۔ اس درمیان ہماری پوری کوشش ہوگی کہ یہ مکمل اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جامع مضمون ہو۔

مشمولات
محمد رابع نورانی بدری: استاذ ومفتی دار العلوم فیض الرسول براؤں شریفتجارت:اسلامی نظریہ تجارتکامیاب تجارت ایک تحقیق:اسوۂ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ:1۔ اعالج: میں معالجہ کرتا تھا:2۔ وائمی :3۔ ولا از دري ربحاً:4۔ ولا اشتری شیخا :5۔ واجعل الراس راسین :کامیاب تجارت کے رہنما اصول:پہلا زینہ:دوسرا زینہ:محنت پر انحصار کرنا:واقعہ کے اہم نکات یہ ہیں:ٹھیلے والے کا واقعہایک ناکارہ کی روداد فتح و ظفر:حاصل واقعہ :ایک عہدے کے تین امید وار:

تجارت:

منافع حاصل کرنے کی نیت سے مال کی خرید و فروخت کرنا ”تجارت“ ہے۔
تجارت ایک ایسا شعبہ ہے جس نے انسانی ترقی معاشرتی استحکام اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ دنیا کے ہر خطے اور تہذیب میں قدیم زمانے سے موجود ہے۔ اور انسانی زندگی کے لئے ضروری اشیاء کو فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ تجارت کے بغیر معاشی ترقی اور انسانی فلاح ممکن نہیں ہے۔


ہمارے مقدس دین، دین اسلام میں تجارت کی ایک اہمیت ہے۔ اسلام نے تجارت کو نہ صرف جائز قرار دیا۔ بلکہ اس کو روزگار کا ایک معتبر اور بابرکت ذریعہ بھی قرار دیا ہے۔ قرآن کریم و حدیث شریف میں تجارت کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ مسلمانوں کو اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ وہ دیانت داری عدل اور انصاف کے ساتھ تجارت کریں۔ معاملاتِ زندگی میں ”کامیاب تجارت“ انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ شریعت نے جہاں دیگر شعبوں کے لیے قوانین بنائے ہیں۔ وہیں ”تجارت“ کے اصول بھی بتائے ہیں۔ جو جی میں آئے کیے جانا مسلمان تاجر کا شیوہ نہیں۔

اسلامی نظریہ تجارت

اسلامی تعلیمات کے مطابق اگرقدر کفایت سے زائد اس لیے کماتا ہے۔ کہ فقراء و مساکین کی خبر گیری کرسکے گا۔ یا اپنے قریبی رشتہ داروں کی مدد کرے گا یہ مستحب ہے۔ اور یہ نفل عبادت سے افضل ہے۔ (فتاوی ہندیہ ج/5/ص/349٫348)

- Advertisement -
Ad imageAd image

یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی کثیر تعداد ”تجارت“ کو ذریعہ معاش بناتی ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور اساطین امت رحمہم اللّٰہ تعالیٰ نے بھی اس شعبے کو نوازا ہے۔ ان کی ایک بڑی تعداد نے کامیاب تجارت کی۔ جیسے حضرت سَیِّدُنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔ حضرت سَیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ۔ حضرت سَیِّدُنا عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور امامِ اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ۔

کامیاب تجارت ایک تحقیق:

اب کامیاب تجارت کے بارے میں کچھ حاصل مطالعہ اور چشم کشا حقائق اور معلومات پیش کرتاہوں ملاحظہ کریں۔

  • کامیاب تجارت اس کاروباری عمل کو کہتے ہیں جو نہ صرف مالی منافع فراہم کرے۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ طویل مدتی ترقی، استحکام، اور گاہکوں کے اطمینان کو بھی یقینی بنائے۔
  • تجارت کا بنیادی مقصد مالی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ جب کاروبار مستقل بنیادوں پر منافع کمائے تو اسے کامیاب سمجھا جاتا ہے۔

اسوۂ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ:

حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کامیاب تجارت کے حوالے سے بھی بڑا نام ہے۔ آپ اپنے زمانے کےکامیاب اور نمایاں ترین تجار میں سے تھے۔ جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ گئے تو آپ کے پاس بس ایک تلوار تھی ۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ آپ کا شمار مدینہ منورہ کے مالدار ترین لوگوں میں ہونے لگ گیا ۔ آپ سے جب آپ کے دولتمند ہونے کا راز پوچھا گیا

تو آپ نے جواب دیا :

كنت أعالج و انمى ولا ازدري ربحاً ولا أشتري شيخاً وأجعل الرأس رأسين "

- Advertisement -

اس جواب میں آپ کے دولتمند ہونے پانچ راز بیان کیے گئے ہیں

آپ کے فرمان کا ترجمہ اور تشریح کچھ اس طرح بنے گی :

1۔ اعالج: میں معالجہ کرتا تھا:

یعنی اپنی تجارت پر خود کھڑا ہوتا تھا۔ اور در پیش آنے والے مسائل کو بذات خود حل کرتا۔ یعنی دوسروں پر اتنا بھروسہ نہیں کرتا تھا۔ کیونکہ دوسرا جتنا بھی پاک طینت ہو جائے اصل شخص کی مصلحتوں کا ویسا حریص نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ وہ خود ہو سکتاہے۔ یہ تاجر کیلئے بھی ایک موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنے گاہکوں کو اور انہیں در پیش آنے والے مسائل کو اور ان کی شکایات کو خود سمجھے۔ اور انہیں بہتر سے بہتر خدمات پیش کرے۔

- Advertisement -

اپنی تجارت کے معاملات میں خود دلچسپی لینا۔ کاروبار کے ہر پہلو پر نظر رکھنا اور خود مسائل حل کرنا۔ کاروباری کامیابی کی بنیاد ہے۔

2۔ وائمی :

اور افزائش کیلئے لگن کے ساتھ کام کرتا تھا یعنی سرمایہ کاری کو رکنے نہیں دیتا تھا۔ مستقل ترقی اور سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرتاتھا تاکہ تجارت پھلتی پھولتی رہے ۔

3۔ ولا از دري ربحاً:

یعنی چھوٹے سے چھوٹے منافع کو بھی حقارت سے نہیں دیکھتا تھا۔ اور اس کا مقصد اور ہدف گاہک کو راغب کرنا ہوتا ہے۔ تاکہ کام چلتا رہے اور گاہک کا دل جیتنا ہی کاروبار کی بنیاد اور اساس ہوتی ہے۔ کاروبار کے تسلسل کے لیے چھوٹے منافع کو بھی ایک اہمیت ہے۔

4۔ ولا اشتری شیخا :

اور میں پرانی چیزیں نہیں خرید تا تھا ۔ یہ ایسا کاروباری راز ہے جسے ہر تاجر کو سمجھنا چاہیے۔ تجارت متروک اور غیر موزوں چیزوں کی نہیں جدید وقت کی ضرورت اور زمانے سے ہم آہنگ چیزوں میں کرنی چاہئیے۔ تاکہ گاہکوں کی توجہ حاصل رہے اور وہ تسلسل کے ساتھ آتے اور خریدتے رہیں ۔

5۔ واجعل الراس راسین :

اور میں اپنی سرمایہ کاری کئی چیزوں میں کرتا تھا۔ یہ ایک انتہائی قابل غور نکتہ ہے۔ سارا مال ایک ہی کام میں نہیں مگر کئی چیزوں میں تقسیم کر کے لگانا چاہیے۔ تاکہ اگر کسی ایک سرمایہ کاری پر کوئی بحران آجائے تو کمائی کا کوئی دوسرا امتبادل راستہ کھلا رہے۔ کسی ایک شعبے میں نقصان کی صورت میں دوسرے ذرائع سے تحفظ حاصل رہے۔

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان کردہ یہ اصول ہر دور میں کامیاب تجارت کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

کامیاب تجارت کے رہنما اصول:

اب آئیے کامیاب تجارت کے اسباب و عوامل اور رہنما اصول ایک نظر میں ملاحظہ کریں۔ ہم اسے کچھ تفصیل کے ساتھ پیش کرتے ہیں

  1. مسلسل محنت اور توجہ: دن رات کی محنت کامیابی کا پہلا زینہ ہے۔ زیادہ تر لوگ سستی کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں، لیکن مستقل محنت انسان کو آگے لے جاتی ہے۔
  2. ایمانداری: کامیابی کے لیے ایمانداری ضروری ہے۔ جو وعدوں کی پابندی، جھوٹ سے نفرت، زبان پر قائم رہنا۔ اور غلطیوں کا اعتراف کرنا سکھاتی ہے۔
  3. سچائی دیانتداری: اپنے کاروبار میں منافع کے بجائے گاہک کی بھلائی اور اطمینان کو ترجیح دینا اور مخلوق کی خدمت کی نیت کامیابی کی ضمانت ہیں
  4. قانونی اور اخلاقی پہلوؤں کی پاسداری: کامیاب تجارت کے تمام پہلوؤں میں دیانتداری کے تقاضوں کی تکمیل ضروری ہے۔
  5. مضبوط ارادہ اور اصولوں پر عمل: مضبوط ارادہ اور اصولوں پر عمل بھی کامیابی کی طرف لے جانے والا ایک راستہ ہے۔
  6. اعلی معیار اور صارفین کا اطمینان: تجارت کی کامیابی کا انحصار اعلیٰ معیار کی مصنوعات یا خدمات فراہم کرنے پر ہوتا ہے۔ معیار کے ساتھ مستقل مزاجی کاروبار کی شہرت کو مضبوط کرتی ہے۔
  7. گاہکوں کی ضروریات کو سمجھنا: ان کی ضروریات کو پورا کرنا۔ انھیں اعلی معیار کا سامان فراہم کرنا۔ انھیں اپنی پسند سے انتخاب کی سہولت دینا۔ ان کا اعتماد جیتنا۔ معمولی منافع کو بھی قبول کرتے ہوئے گاہک کو مطمئن کرنا۔ اور کاروبار میں شفافیت کامیابی کی علامت ہے۔
  8. خوش اخلاقی: یہ سچ ہے کہ خوش کوش جانے والے گاہک کاروبار کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ آپ گاہک سے جتنا میٹھا بولیں گے۔ اتنا ہی گاہک بنا لیں گے۔ ‏اگر آپ نے ایک گاہک بنایا ہے تو سمجھ لیں کہ آپ نے 10 گاہک بنائے ہیں۔ ‏اگر آپ غصے میں دکان سے ایک گاہک واپس کر دیں۔ تو سمجھ لیں کہ آپ 10 گاہک کھو دیں گے۔ گاہک کے کہنے سے گاہک آتے بھی ہیں اور ان کے منفی تاثر سے گاہک بدکتے بھی ہیں۔
  9. معلومات، مشاہدہ، اور پریکٹس: کسی بھی میدان کو سر کرنے کے لیے معلومات، مشاہدہ، اور پریکٹس کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
  10. موثر اور فعال ٹیم ورک:موثر اور فعال ٹیم ورک۔ اور کارآمد ہیومن ریسورس (Effective human resource) کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ اور اسی طرح تجربہ کار افراد سے رہنمائی حاصل کرنا بھی لازمی ہے۔
  11. کاروبار کی مستقل اور مکمل نگرانی: اپنی کامیاب تجارت کے معاملات میں خود دلچسپی لینا۔ کاروبار کے ہر پہلو پر نظر رکھنا اور خود مسائل حل کرنا۔کاروبار کے کامیابی کی بنیاد ہے۔ کیونکہ دوسرا جتنا بھی پاک طینت ہو جائے۔ اصل شخص کی مصلحتوں کا ویسا حریص نہیں ہو سکتا جیساکہ وہ خود ہو سکتاہے۔ یہ تاجر کیلئے بھی ایک موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنے گاہکوں کو اور انہیں در پیش آنے والے مسائل کو ان کی شکایات کو خود سمجھے اور انہیں بہتر سے بہتر خدمات پیش کرے۔
  12. وقت کے ساتھ ہم آہنگی: جدید رجحانات کو اپنانا۔ بدلتے تقاضوں کے مطابق تجارت کرنا۔ پرانی یا غیر موزوں چیزوں سے اجتناب کرتے ہوئے جدید اور وقت کی ضرورت کے مطابق اشیاء میں تجارت کرنا بھی ضروری ہے۔ تاکہ گاہکوں کی توجہ حاصل رہے اور وہ تسلسل کے ساتھ آتے اور خریدتے رہیں۔
  13. متنوع سرمایہ کاری: سرمایہ کو مختلف شعبوں میں تقسیم کرنا بھی ضروری ہے۔ تاکہ اگر کسی ایک سرمایہ کاری پر کوئی بحران آجائے تو کمائی کا کوئی دوسرا متبادل راستہ کھلا رہے۔ اور کسی ایک شعبے میں نقصان کی صورت میں دوسرے ذرائع سے تحفظ حاصل رہے۔
  14. پلاننگ: کاروبار کی ترقی کے لیے مسلسل سوچنا اس کے لئے آسان مواقع کو اپنانا اور نئی مارکیٹوں یا مواقع تک رسائی حاصل کرنا سرمایہ کاری کے لئے نئی زمینیں تلاش کرنا بھی ضروری ہے
  15. نئے منصوبوں کو شامل کرنا: اختراعی فکر اورمضبوط کاروباری حکمت عملی تیار کرنا۔ یہ بھی ایک کامیاب تجارت کے لئے اہم عنصر ہے۔
  16. صاف ستھرا طریقہ ادائیگی: کامیاب تجارت کا اہم عنصر یہ بھی ہے۔ کہ کاروبار نقد لین دین پر مشتمل ہو۔ اگر تجارت شراکت پر مبنی ہو تو پارٹنرز اور اس کاروبار منسلک ملازمین امانت دار ہوں۔

بہر حال کامیاب تجارت وہی ہے۔ جو نہ صرف منافع کما سکے بلکہ اپنی ساکھ، معیار، اور گاہکوں کے اعتماد کو برقرار رکھے۔ اور طویل مدتی ترقی کے مواقع پیدا کرے۔

کاروبار واقعات کی روشنی میں:

آئیے اب کچھ واقعات کے تناظر میں یہ دیکھیں کہ تجارت کس طرح کامیاب اور کاروبار کس طرح نفع بخش اور بار آور ہوتا ہے

محنت کش لکڑہارا:

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک گاؤں میں ایک محنت کش لکڑہارا رہتا تھا۔ وہ روزانہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر شہر میں بیچتاتھا۔ جس سے اس کا گزر بسر ہوتا تھا۔ اس کا ایک بیٹا تھا، ۔ وہ بہت ذہین تھا، کلاس میں بھی ہمیشہ اول آتا تھا۔ اس نے پانچویں جماعت تک اپنے گاؤں میں ہی تعلیم حاصل کی۔ مگر اب وہ شہر جا کر پڑھنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنی خواہش کا اظہار اپنے والد سے کیا تو وہ فوراً راضی ہوگئے۔ مگر گھر یلو حالات تنگ ہونے کے باعث اس کے والد بمشکل اس کا داخلہ کسی اچھے اسکول میں کروا سکے۔

اس نے جب شہری اسکولوں کا ماحول دیکھا تو حیران رہ گیا۔ ہر ایک کے پاس نت نئی چیزیں تھیں۔ وہ ان بچوں کو دیکھتا تو احساس کمتری کا شکار ہو جاتا۔ اور سوچتا کہ کیا وہ کبھی کامیاب انسان نہیں بن سکے گا۔ اسی سوچ اور کش مکش میں ایک دن وہ اپنے استاد کے پاس گیا۔ اور ان سے سوال کیا کہ، ’’ماسٹر صاحب کیا میں کبھی بڑا آدمی بن سکوں گا؟‘‘۔ اس کی بات سن کر ماسٹر صاحب نے قہقہہ لگا دیا۔ پھر اُسے جواب دیا

’’دنیا کا ہر شخص بڑا آدمی بن سکتا ہے۔ بس تین اصولوں پر عمل کرو۔ اس نے انتہائی تجسس سے پوچھا،۔ ’’کون سے اصول؟‘‘ ماسٹر صاحب نے اپنے بیگ سے چاک نکال کر بورڈ پر دائیں سے بائیں تین لکیریں لگائیں۔ پہلی لکیر پر محنت، دوسری پر ایمانداری اور تیسری پر ہنر لکھا۔ وہ چپ چاپ، غور سے ماسٹر صاحب کو دیکھ رہا تھا۔ ماسٹر صاحب لکھنے کے بعد اس کے پاس آئے اور کہاکہ ’’اگر ترقی کرنا چاہتے ہو تو ان تین زینوں پر چڑھنا ہوگا۔

پہلا زینہ:

پہلا زینہ محنت کا ہے۔ آپ کے حالات جیسے بھی ہیں۔ اگر آپ دن رات محنت کریں گے تو کامیاب ہو جائیں گے۔ مطلب اگر باقی لوگ کوئی کام آٹھ بجے شروع کرتے ہیں۔ تو آپ سات بجے سے شروع کر دیں۔ اسی طرح رات کو آخر میں کام سے لوٹیں، تو آپ کامیاب ہو جائیں گے۔ ہمارے ارد گرد موجود 90 فیصد لوگ سست ہیں، وہ محنت نہیں کرتے۔ لیکن جو محنت کرتے ہیں، وہ 90 فیصد سست لوگوں کی فہرست سے نکل کر 10 فیصد محنتی لوگوں کی فہرست میں آ جاتے ہیں۔

دوسرا زینہ:

  1. اگلا مرحلہ ایمانداری کا ہے۔ ایمانداری چار عادتوں کا پیکیج ہے۔
  2. وعدے کی پابندی،
  3. جھوٹ سے نفرت
  4. ، زبان پر قائم رہنا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنا۔ یعنی اگر آپ کاروبار کر رہے ہیں تو اپنی اشیاء بیچنے کے لیے کبھی جھوٹ نہ بولیں۔ جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کریں اور زبان سے اگر ایک بار بات نکل جائے۔ تو آپ اس پرہمیشہ قائم رہیں ‏اگر کبھی آپ سے کوئی غلطی ہو جائے۔ تو اس کا اعتراف کرکے سدھارنے کی کوشش کریں۔

محنت پر انحصار کرنا:

یہ ہمیشہ یاد رکھناکہ کامیابی کے لیے 80 فیصد محنت اور ایمانداری پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ صرف 20 فیصد ہنر پر۔ ہنر کو سب سے آخر میں اہمیت دی جاتی ہے۔ کیوںکہ ہمارے ارد گرد بہت سے ہنر مند افراد موجود ہیں۔ مگر سست اور بے ایمان ہونے کی وجہ سے انہیں کامیابی نصیب نہیں ہوتی۔ میں نے خود کئی ہنر مندوں کو بھوکے زندگی بسر کرتے دیکھا ہے۔ جبکہ کئی انسان ایسے بھی ہیں جن کے پاس کوئی ہنر نہیں۔ وہ صرف محنت اور ایمانداری کی بنیاد پر کامیاب بن گئے۔ تم ان تنیوں اصولوں کو اپنا کر آسمان کی بلندیوں کو چھو سکتے ہو۔‘‘

ماسٹر صاحب کی باتیں اس کے ذہن میں گھر کر گئیں۔ وہ پر عزم تھا کہ ان تینوں اصولوں پر عمل کر کے کام یاب انسان بنے گا اور کچھ ہی عرصے میں ایسا ہی ہوا یعنی وہ لڑکا ان اصولوں کو اپناتا ہے۔ محنت اور لگن سے کامیاب انسان بن جاتا ہے۔

اس واقعے میں استاد نے تین اصول بتائے ہیں: محنت، ایمانداری، اور ہنر۔ استاد سمجھاتے ہیں کہ ترقی کے لیے محنت اور ایمانداری سب سے زیادہ ضروری ہیں، جب کہ ان کے مقابلے میں ہنر کی اہمیت کم ہے۔

واقعہ کے اہم نکات یہ ہیں:

  • محنت کی اہمیت: دن رات کی محنت کامیاب تجارت کا پہلا زینہ ہے۔ زیادہ تر لوگ سستی کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں، لیکن مستقل محنت انسان کو آگے لے جاتی ہے۔
  • ایمانداری کا کردار: کامیابی کے لیے ایمانداری ضروری ہے، جو وعدوں کی پابندی، جھوٹ سے نفرت، زبان پر قائم رہنا، اور غلطیوں کا اعتراف کرنا سکھاتی ہے۔
  • ہنر کا مقام: ہنر کا کردار محنت اور ایمانداری کے بعد آتا ہے۔ محنتی اور ایماندار لوگ اکثر ہنر مند لیکن سست افراد سے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔
  • عزم و ارادہ کی قیمت: کہانی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ مضبوط ارادہ اور اصولوں پر عمل کامیاب تجارت کا راستہ ہے۔

کامیاب تجارت کا ایک دوسرا واقعہ:

ایک غیر معروف علاقے میں چھوٹی سی سڑک پر ایک برگر بنانے والا تھا . سر شام جو اس کے پاس گاہکوں کی بھیڑ لگتی تو نصف شب تک چلتی۔ تا وقتیکہ وہ دکان بڑھا کر گھر جاتا۔ معیار کااثر تھا یا کوئی نادیدہ سبب، برگر کے طلب گاروں کی سواریوں کی یہ لمبی قطاریں سڑک کے اطراف یوں لگی ہوتیں۔ کہ ٹریفک کے بہاؤ میں ہی رکاوٹ بن جاتی۔

بہت بار وہاں سے گذرتے جی میں خیال آتا کہ کبھی ہم بھی دیکھیں۔ کہ ان کی کامیابی کا راز کیا ہے۔ ارد گرد سڑک پر موجود دیگر دکانوں پر اکا دکا گاہک ہی ہوتے ہیں اور یہاں قطاریں لگی ہوتی ہیں

ایک روز پھر ہم ٹھہر ہی گئے۔ دور گلی میں گاڑی کھڑی کر کے دکان پر پہنچے۔ تو علم ہوا کہ ایک کاؤنٹر پر رقم جمع کروا کر ٹوکن لیا جاتا ہے۔ پھر کوئی آدھ گھنٹہ انتظار کے بعد برگر نصیب ہوتا ہے۔ رقم لینے والا مالک کا بیٹا تھا۔ اور مالک دکان کے اندر ہی ایک چھوٹی سی میز کے پیچھے گھومنے

والی کرسی پر بیٹھا تھا فرسٹ ہینڈ نالج حاصل کرنے کے مرض کہنہ کے ہاتھوں مجبور ہم مالک کے پاس چلے گئے۔ تعارف کروانے کے بعد براہ راست پوچھا کہ صاحب ارد گرد والے سب مکھیاں مار رہے ہیں۔ آپ کا راز کیا ہے ؟

مشکوک نظروں سے دیکھ کر بولا:

کیوں باؤجی آپ بھی برگر کی دکان بناناچاہتے ہیں؟

میں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ نہیں مجھے ایسا نہیں کرنا ہے

اللہ کریم کا بڑا کرم ہے۔ اس نے فکرہوس سے بے نیاز کر رکھا ہے۔ پندرہ منٹ کی گفتگو کے بعد اس نے جس راز سے پردہ اٹھایا۔ یقین کریں کہ بڑے سے بڑا معاشی ماہر بھی شاید وہاں تک رہنمائی نہیں کرسکتا … کہنے لگا :

بھائی راز کوئی نہیں۔ جو سو روپے کا سامان گاہک کو دیتا ہوں اس پر ستر روپے خرچ کر دیتا ہوں۔ اور تیس منافع رکھ لیتا ہوں۔ جبکہ دوسرے برگر والے ستر اپنی جیب میں ڈالتے ہیں اور تیس کا مال گاہک کو تھما دیتے ہیں۔ کاروبار کی ترقی کا یہ آفاقی اصول آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ اور واقعی جب ہم نے برگر کھایا تو اس کی مقدار اور معیار دوسرے بنانے والوں سے دوگنا ہی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ آدھ ، پون گھنٹہ بھی انتظار کرتے تھے

استاد صاحب نے ایک روز کلاس پوچھاتھا کہ کاروبار کیوں کرتے ہیں؟ سب نے بیک زبان کہا آمدنی کے لیے ، روزگار کےلئے۔

استاذ صاحب کہنے لگے : ہاں سب یہی سمجھتے ہیں اور یہی کرتے ہیں۔ مگر ترقی انہیں ہی نصیب ہوتی ہے جو کاروبار مخلوق کی بھلائی کے لیےکرتے ہیں

تب ہمیں استاد صاحب کی بات سمجھ نہیں آئی تھی ۔ لیکن اس روز اس برگر والے نے پریکٹیکل کر کے سمجھا دیا۔ مولائے کریم نے ترقی اور آسودگی کھینچنے میں، جمع کرنے میں ، ہڑپ کرنے میں نہیں۔ بلکہ بانٹنے میں تقسیم کرنے میں رکھی ہے

اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ معیار اور سچائی دیانتداری اپنے کاروبار میں منافع کے بجائے گاہک کی بھلائی اور اطمینان کو ترجیح اور مخلوق کی خدمت کی نیت کامیابی کی ضمانت ہیں۔

ٹھیلے والے کا واقعہ

ایک شخص کا بیان ہے کہ میں ایک ٹھیلے والےسے روزانہ فروٹ لیتا تھا۔ ریٹ مناسب تھا اور سب سے بڑی چیز یہ تھی کہ جاتے ہی شاپر پکڑا دیتا۔ کہ اپنی مرضی سے چن کے شاپر میں ڈال لیں۔ ریٹ پہلے پوچھ لیتا تھا اور پھر فروٹ لیتا تھا ۔ کئی ماہ اس سے فروٹ لیتارہا۔

پچھلے دنوں اس کے ٹھیلے پر گیا تو وہاں کوئی اور شخص کھڑا تھا ۔ میں نے اس سے نام لے کر پرانے دکاندار کا پوچھا۔ تو اس نے کہا کہ وہ کہیں کام سے گیا ہے بس آتا ہی ہوگا۔ آپ کو کیا لینا ہے ۔ آپ بتائیں میں نے دو تین پھلوں کا ریٹ پوچھا اور پھر شاپر لے کر ڈالنے لگا۔ تو اس نے خود بھی فروٹ اٹھا کر میرے شاپر میں ڈالنے شروع کر دیے ۔ میں نے شاپر اسے دے دیاکہ پھر آپ ہی فروٹ ڈال لیں

اس نے تول کر مجھے دیے تو میں نے شاپر میں سے فروٹ نکال کر دیکھے۔ تو کئی خراب بھی تھے۔ میں نے وہیں شاپر رکھا اور کہا کہ کل جب وہ آجائے گا۔ تو اس سے آپ کی شکایت بھی کرونگا۔ اور اسی سے لے لونگا ۔ پھر ایک دوسری ریڑھی والے سے لیے اور آگیا ۔

اگلے دن پھر وہی تھا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ پہلے والا شخص اپنا اڈا بیچ کر چلا گیا ہے۔ اور ایک بڑے اور مین روڈ پر اس نے بڑی دکان بنالی ہے ۔ اور یہ شخص جھوٹ بول رہا تھا کہ وہ کہیں کام سے گیا ہے اور واپس آجائےگا۔

جب اڈا والا کوئی بڑی دکان لے لیتا ہے۔ تو یہ اڈا یعنی چلتی ہوئی دکان کسی اورکو بیچ دیتا ہے۔ لوگ خرید بھی لیتے ہیں کیونکہ اس سے پرانے گاہک آتے رہتے ہیں تو شروع سے ہی چل پڑتی ہے ۔ لیکن اس سلسلے میں اکثرجھوٹ بولا جاتا ہے کہ وہ پرانے والا دکاندار واپس آرہا ہے۔ یا کہیں کام سے گیا ہے ۔ جس کام کی بنیاد ہی جھوٹ ہو اس میں برکت کیسے پڑ سکتی ہے ؟

اگر ایسی اڈے والی دکان چلانی ہو تو چاہیے کہ وہ اڈا خریدنے والااس اڈا والے کے پاس کچھ دن رہے اور کاروبار سیکھے ۔ اگر اس کی دکان واقعی چل رہی ہے ، گاہک آرہے ہیں تو کس وجہ سے آ رہے ہیں ؟ اگر کوئی اچھی چیز ملے تو اسے جاری رکھے ۔

گاہک ایک بار تو اس کی وجہ سے اس نئے دکان والے کے پاس آئے گا۔ لیکن اس گاہک کو اپنے پاس کوالٹی ، اخلاق ، قیمت وغیرہ سے ہی رکھا جاسکے گا ۔ پھر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ مارکیٹ میں ایسا کیا ہے۔ جو گاہک کو نہیں مل رہا کہ اس کی وجہ سے یہاں آئے ۔ اگر یہاں بھی وہی چلن ہوگا جو مارکیٹ میں سب کر رہے تو پھر کوئی یہاں کیوں آئے گا؟

جسے یہ بات سمجھ آجائے وہ کامیاب تجارت کا ماہر ہے۔ اور جسے نہ آئے وہ یہی کہہ رہا ہوتا کہ گاہک ہی نہیں ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کامیابی دیانتداری، معیار، اور گاہک کی ضروریات کو سمجھنے سےاور اسے اپنی پسند سے انتخاب کی سہولت سے حاصل ہوتی ہے۔

ایک ناکارہ کی روداد فتح و ظفر:

یہ واقعہ بھی میں نے پڑھا ہے۔ معمولی ترمیم کے ساتھ ان کا بیان پیش ہے۔

کالج میں میرے ساتھ ایک بے وقوف قسم کا لڑکا ہوتا تھا۔ ہم سب نالائق تھے مگر وہ نالائقی میں ہمارا بھی استاد تھا۔ پورے کالج کی متفقہ رائے تھی کہ اس کا کامیاب ہونا مشکل ہے۔ لیکن وقت نے ہمیں غلط ثابت کر دیا۔ اور یہ بے وقوف عملی زندگی میں ہم سب سے آگے نکل گیا اور کھرب پتی ہو گیا۔

میں نے ایک دن اس سے اس کامیابی کی وجہ پوچھی تو اس کا جواب تھا۔ کالج سے نکلنے کے بعد میں نے یونیورسٹیاں تلاش کرنا شروع کیں لیکن کسی یونیورسٹی نے مجھے لفٹ نہ دی۔ میں نے مایوس ہو کر اعلیٰ تعلیم کا ارادہ ترک کر دیا۔ اور گاؤں واپس آ کر حرام خوری کا لطف اٹھانے لگا۔ میں نے دو سال کچھ نہیں کیا۔ لیکن پھر خاندان اور گاؤں والوں کا دباؤ بڑھ گیا تو میں نے کچھ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

آپ یقین نہیں کرو گے مگر مجھے بزنس دنیا کا آسان ترین کام محسوس ہوتا تھا’۔ مجھے لگتا تھا میں یہ کام آسانی سے کر جاؤں گا چناںچہ میں نے آڑھت کا کام شروع کر دیا۔ چار پیسے اکٹھے ہوئے تو جنرل سپلائر بن گیا’ میں نے اس کے بعد ٹھیکے داری اسٹارٹ کر دی۔ اس سے پیسے اکٹھے ہوئے تو چھوٹی سی فیکٹری لگالی۔ وہ کامیاب ہو گئی تو جرمنی سے ٹیکسٹائل یونٹس امپورٹ کر کے اپنے شہر میں بیچنا شروع کر دیے۔ اور یوں آہستہ آہستہ آگے بڑھتا چلا گیا۔

میں نے اس سے پوچھا بزنس ایک خالص ٹیکنیکل کام ہوتا ہے۔ جبکہ تم تو نالائق تھے۔ تم نے بزنس کی تکنیکس کہاں سے سیکھیں؟ اس کا جواب حیران کن تھا’۔ اس کا کہنا تھا بزنس اسپورٹس کی طرح ٹیم ورک ہوتا ہے۔ اگر تم کیپٹن یا کوچ کی طرح اچھی ٹیم بنالو تو تم کام یاب ہو جاؤ گے

میں نے شروع میں ہی سیکھ لیا تھا۔ مجھے کارآمد ملازم چاہئے۔ لہٰذا میں کارآمد اور باصلاحیت لوگ جمع کرتا رہا اور یہ لوگ مجھے کما کر دیتے رہے۔ میں نے کہا کہ ہمیں سمجھاؤ اس نے کہا کہ مثلاً فرض کرو۔ تمہیں کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ چاہیے اور تمہارا پورا بزنس اس پر ڈیپینڈ کرتا ہو تو تم کیا کرو گے؟۔ کیا تم پرانا یا سستا کمپیوٹر خریدو گے؟۔

میں نے فوراً جواب دیا” میں اگر افورڈ کر سکتا ہوں تو میں بیسٹ لوں گا”۔ اس کا جواب تھا’ بزنس میں ہیومین ریسورس کے لیے بھی یہی اپروچ ہونی چاہیے۔ یہ لوگ آپ کو کما کر دیتے ہیں۔ آپ اگر افورڈ کر سکتے ہو تو مارکیٹ سے سب سے بہترین شخص چوز کرو۔ وہ تمہیں کما کر دے گا اور اس سے تمہارے بزنس میں اضافہ ہو گا۔ میں نے کارآمد’ لائق اور تجربہ کار لوگوں کا انتخاب کیا اور یوں میں کام یاب ہوتا چلا گیا۔

میں نے اس سے پوچھا کہ "تمہیں کیسے پتا چلاکہ تم بزنس کر سکتے ہو؟”۔ اس کا جواب تھا” دنیا میں چار چیزیں انتہائی آسان ہیں۔ کامیابی’ بزنس’ پرسنیلٹی اور اسمارٹ نیس۔ یہ چاروں کام دنیا میں سب سے آسان ہیں۔ لیکن لوگ انھیں مشکل سمجھتے ہیں۔ جبکہ مشکل کام ناکام رہنا’ ملازمت کرنا’ مستقل بیمار رہنا اور جسمانی طور پر بھدا ہونا ہوتا ہے۔ مگر دنیا کے 95 فیصد لوگ یہ مشکل کام آسانی سے کرتے ہیں۔ آپ کو میری بات عجیب محسوس ہو گی لیکن آپ میرے ایک سوال کا جواب دیں۔ اگر ایک کام دنیا کے ہر حصے میں لاکھوں کروڑوں لوگ روزانہ کر رہے ہوں۔ تو وہ کام آسان ہو گا یا مشکل؟ یقینا آپ کا جواب ہو گا ”آسان ہو گا” اور دنیا میں روزانہ لاکھوں کروڑوں لوگ کامیاب ہوتے ہیں۔

لاکھوں کروڑوں لوگ کاروبار کرتے ہیں’۔ لاکھوں کروڑوں لوگ بیماریوں کا مقابلہ کر کے صحت یاب بھی ہوتے ہیں۔ اور لاکھوں لوگ اپنا وزن کم کر کے اسمارٹ بھی ہو رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ جو کام دنیا بھر میں روزانہ ہو رہے ہیں تو پھر وہ مشکل کیسے ہو سکتے ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے بزنس چھوڑ کر ملازمت میں آنے والے لوگوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ لوگ کاروبار میں ناکام ہو کر ملازمت کرتے ہیں۔ لیکن یہ بہت جلد جاب چھوڑ کر واپس کاروبار شروع کردیتے ہیں اور کامیاب ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں کوئی شخص بیمار بھی نہیں ہونا چاہتا۔ ہر شخص صحت کے معاملے میں محتاط ہوتا ہے۔ بیمار شخص سے گھر والے بھی پرہیز کرتے ہیں۔

ناکام لوگ بھی پورے شہر، پورے محلے کے لیے نشان عبرت ہوتے ہیں۔ موٹا جسم لے کر پھرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ لیکن دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو یہ مشکل کام آسانی کے ساتھ کرتے نظر آتے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو موٹاپے کے ساتھ گزارہ کر رہے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو ناکام ہیں اور کامیابی کے لیے کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ کتنے لوگ بیمار ہیں اور یہ بیماری سے چھٹکارے کے لیے کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ اور کتنے لوگ ہیں جو بزنس کا آپشن ہوتے ہوئے بھی ملازمت کر رہے ہیں؟ آپ کو اپنے دائیں بائیں بے شمار ایسے لوگ نظر آئیں گے۔

اب اگلا سوال ہے کہ اگر کامیابی’ بزنس، صحت اور اسمارٹ نیس آسان ہے تو پھر ہم لوگ یہ آسان کام کیسے کر سکتے ہیں؟

اس کا جواب بھی بہت آسان ہے۔ فرض کریں آپ ڈرائیونگ سیکھنا چاہتے ہیں تو آپ یہ کیسے سیکھیں گے؟ آپ ڈرائیونگ کے بارے میں معلومات لیں گے۔ ڈرائیوروں اور گاڑی کا مشاہدہ کریں گے۔ ڈرائیونگ ٹیچر کا بندوبست کریں گے اور آخر میں پریکٹس کریں گے۔ یوں آپ ایک دو ماہ میں اچھے ڈرائیور بن جائیں گے۔ کامیابی کے لیے بھی یہی فارمولا ہے۔ آپ پہلے فیلڈ کا تعین کریں۔ فرض کریں آپ کامیاب صحافی بننا چاہتے ہیں۔ لہٰذا آپ کو شروع میں صحافت کے بارے میں مکمل معلومات جمع کرنا ہوں گی۔ اس کے بعد آپ کو کامیاب صحافیوں کا تعین کر کے ان کا مشاہدہ کرنا ہو گا۔ اور پھر اس کے بعد کسی ایک کو اپنا استاد بنانا ہو گا۔ آخر میں پریکٹس آپ کو پرفیکٹ بنائے گی۔

آپ جتنی پریکٹس کرتے جائیں گے آپ اتنے ہی پرفیکٹ ہوتے جائیں گے۔ اب آپ فرض کریں آپ بزنس مین بننا چاہتے ہیں تو فارمولا وہی ہے۔ آپ پہلے بزنس کا تعین کریں۔ پھر اس کے بارے میں تمام معلومات اکٹھی کریں۔ اس فیلڈ کے کامیاب لوگوں کا مشاہدہ کریں۔ کسی ایک کو اپنا استاد بنائیں اور اس سے ڈرائیونگ کی طرح بزنس سیکھنا شروع کر دیں۔ آخر میں پریکٹس آپ کو بہتر سے بہتر بناتی چلی جائے گی۔

اسی طرح فرض کریں آپ کو شوگر کا مرض ہے۔ توآپ کو سب سے پہلے اس مرض کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہوں گی۔ یہ کیوں ہوتی ہے شوگر کس طرح کے کھانے سے بڑھ جاتی ہے۔ اور کون کونسی خوراک اس میں مفید ہے؟

اس کے بعد ان مریضوں کو دیکھیں جو شوگر کے باوجود شان دار اور صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ ان کا مشاہدہ کریں۔ اس کے بعد ان میں سے کسی ایک کو اپنا استاد بنالیں۔ اس سے ایڈوائس لیں اور اس ایڈوائس پر عمل کرتے جائیں۔ آپ کی شوگر کنٹرول ہوتی چلی جائے گی

بعینہ اسی طرح اگر آپ کا وزن زیادہ ہے یا آپ کا جسم موٹا ہے۔ تو آپ پہلے موٹاپے کے بارے میں معلومات اکٹھی کریں۔ اس کے بعد ایسے لوگوں کو تلاش کریں جنھوں نے موٹاپے سے جان چھڑا لی ہے۔ ان لوگوں کے معمولات کا مشاہدہ کریں’ ڈیٹا جمع کریں۔ ان میں سے کسی کو اپنا استاد بنالیں۔ اور آخر میں وزن کم کرنے کے طریقوں میں سے کسی ایک کی پریکٹس شروع کردیں۔ آپ کچھ دنوں میں اسمارٹ ہو جائیں گے۔

آپ یہ یاد رکھیں کہ دنیا بھر میں لاکھوں لوگ روزانہ اپنا وزن کم کر رہے ہیں۔ یہ اسمارٹ ہو رہے ہیں۔ لاکھوں لوگ روزانہ بیماریوں کو شکست دے کر صحتیاب ہو رہے ہیں۔ بہت سے لوگ ملازمتیں چھوڑ کر بزنس اسٹارٹ کرتے ہیں۔ اورخوش حال ہوتے ہیں اور لاکھوں لوگ ناکامی سے کامیابی کی طرف سفر کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ کام مشکل نہیں ہیں” وہ خاموش ہو گیا۔

میں نے پوچھا ”اور استاد کہاں سے ملیں گے؟” اس کا جواب تھا ‘انٹرنیٹ استعمال کریں۔ آپ گوگل پر جائیں سوشل میڈیا سے کام لیں اور وہاں کمال دیکھیں۔ آپ کے سامنے سیکڑوں مثالیں آجائیں گی۔ آپ ان میں سے دو تین لوگوں کا انتخاب کرلیں۔ آپ ان کی کتابیں پڑھیں۔ ان کے انٹرویوز دیکھنا شروع کر دیں یا ان سے متعلق دوسرے لوگوں کی رائے سن لیں۔ آپ کو پورا فارمولا مل جائے گا۔

آپ اس کے بعد پریکٹس شروع کر دیں اور پھر عجوبہ دیکھیں۔ البتہ اس سلسلے میں احتیاط ضرور ملحوظ رکھیں۔ سوشل میڈیا نے کامیابی’ کاروبار’ صحت اور اسمارٹ نیس کو بہت آسان کر دیا ہے۔ میں جس جم میں جاتا ہوں وہاں ایک خاتون ایکسرسائز کرتی ہیں۔ انھیں چند سال قبل پھیپھڑوں کا کینسر ہو گیا تھا اور یہ بستر کے ساتھ لگ گئی تھیں۔ لیکن پھر انھوں نے یوٹیوب پر پھیپھڑوں کے کینسر کو شکست دینے والے لوگوں کی وڈیوز دیکھنا شروع کردیں۔

ان کی ٹپس ڈائری میں لکھیں۔ ایکسرسائز اسٹارٹ کی اورپھر انھوں نے نہ صرف دو سال میں کینسر کو شکست دے دی۔ اب یہ اب ہم سب سے زیادہ ایکسرسائز کرتی ہیں۔ اگر یہ کرسکتی ہیں تو باقی لوگ کیوں نہیں کرتے؟ میرا خیال ہے زیادہ تر لوگ آسان کاموں کو مشکل سمجھ بیٹھے ہیں۔

حاصل واقعہ :

  1. .کسی بھی میدان کو سر کرنے کے لیے معلومات، مشاہدہ، اور پریکٹس ضروری ہے۔
  2. ٹیم ورک اور کارآمد ہیومن ریسورس بزنس میں کامیابی کے لیے بہترین اور باصلاحیت افراد کی ٹیم بنانا اہم ہے۔ یہ ٹیم سرمایہ ہے اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں۔
  3. بزنس کو کھیل کی طرح سمجھیں، جہاں کیپٹن اور ٹیم کی کارکردگی مل کر نتائج لاتی ہے۔
  4. آسان مواقع کو اپنانااور تجربہ کار افراد سے رہنمائی حاصل کریں، خواہ وہ سوشل میڈیا، کتابوں، یا انٹرویوز سے ہو۔

ایک عہدے کے تین امید وار:

میں نے ایک واقعہ پڑھا ہے کہ ایک بڑی کمپنی میں سیلز مینجر کی سیٹ کے تین امیدوار تھے۔ چونکہ تینوں کی قابلیت یکساں تھی تو کمپنی نے کہا میدان میں اپنی قابلیت دکھاؤ۔ جو کامیاب ہوگا یہ سیٹ اُس کی ہوگی۔ ان کو لکڑی کی بنی کنگھیاں دی گئیں اور کہا جاو پہاڑوں میں رہنے والے بھکشوؤں کو کنگھیاں بیچ کر آو۔ یہ ایک مذاق ہی تھا کیونکہ بھکشوا اپنا سر ہی نہیں داڑھی مونچھ اور بھوئیں تک مونڈتے ہیں

پہلا اُمید وار واپس آیا وہ مایوس تھا۔ اس نے ایک ہی کنگھی فروخت کی تھی۔ اس نے کہا بھکشو تو مجھ سے لڑنے لڑانے کو تیار ہو گئے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے تم ہمارا مذاق اڑانے آئے ہو۔ بڑی مشکل سے ایک کنگھی میں فروخت کر سکا۔ وہ بھی ایک بھکشو کو خارش تھی۔ میں نے اس سے کہا ہاتھوں کے بجائے کنگھی سے اچھی طرح یہ کھجا سکتے ہو

دوسر ا کافی خوش تھا۔ اس نے دس کنگھیاں فروخت کی تھیں۔ اُس نے کہا میں نے بھکشوؤں سے کہا تم لوگوں کے پاس جو لوگ آتے ہیں۔ پہاڑی ہوائیں ان کے بال بکھیر دیتی ہیں ، انکا حلیہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ تم لوگ ان کیلئے چند کنگھیاں رکھ لو تو یہاں آنے والوں کا بھلا ہو گا۔

تیسر ا شخص وہاں ان لوگوں کے سردار کے پاس گیا۔ اس نے اس سے کہا اتنے بلند پہاڑوں پر یہ جگہ آباد کر کے بیٹھ گئے ہو۔ دور دور سے لوگ مشکل سفر کر کے یہاں آتے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ ان کو اس سفر کی کوئی یادگار دی جائے۔ وہ اسے روز دیکھیں، مثلاً میرے پاس یہ لکڑی کی کنگھیاں ہیں۔ کنگھی انسان روزانہ استعمال کرتا ہے ، وہ روزانہ آپ کو یاد کرے گا۔ بڑے بھکشو کو آئیڈیا پسند آیا ، اس نے ایک ہزار کنگھیاں خرید لیں۔

اس واقعے سے یہ سمجھ میں آیا کہ کامیابی محض قابلیت پر منحصر نہیں ہوتی۔ بلکہ اختراعی سوچ، گاہک کے جذبات اور اس کی ضرورت سمجھنے اور مسئلے کا منفرد حل پیش کرنے کی صلاحیت پر بھی منحصر ہے۔

تیسرا اُمیدوار اس لئے کامیاب ہوا کیونکہ اس نے صورتحال کو ایک منفرد زاویے سے دیکھا۔ اختراعی فکر سے کام لیا اور اس جگہ آنے والوں میں کچھ تقسیم کرنے کے پہلو کو مدِنظر رکھا۔

دنیا میں ایک اچھے آئیڈیا والے کی قدر ہوتی ہے۔ ایک دوکاندار اور آئیڈیا والے میں بڑا فرق ہوتا ہے جو آئیڈیا نہیں رکھتے وہ صرف دکاندار ہوتے ہیں۔ صرف ضروریات پوری کرتے ہیں۔ صرف ضرورت مند ہی ان کے پاس آتے ہیں۔ جن کے پاس آئیڈیا ہوتا ہے۔ وہ مواقع پیدا کرتے ہیں اور گاہک کو راغب کرتے ہیں۔ یہی تاجر بنتے ہیں۔ اور جن کے پاس نہ صرف آئیڈیا بلکہ ایک پلاننگ بھی ہوتی ہے۔ایسے لوگ برانڈ بنتے ہیں۔ جو منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی پہچان بناتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں دکاندار اور تاجر دونوں موجود ہیں۔ بس صرف پلاننگ کا میدان مکمل نہ سہی لیکن کچھ حد تک خالی نظر آرہا ہے۔ اسی لئے ضرورت ہے کہ ہم کامیاب تجارت کے لئے منصوبہ بندی کریں۔ ایک سسٹم اور پلاننگ کے تحت کام کریں جہاں مواقع نہ ہو وہاں بھی مواقع پیدا کرلیں۔ جیسا کہ اوپر مذکور واقعہ میں تیسرے شخص نے کیا۔

دوکاندار تاجر اور برانڈ تینوں کی طرف مذکورہ بالا واقعہ میں بھر پور اشارہ ہے۔ یہی فرق ان کا صحیح مقام اور حقیقی وزن طے کرتاہے۔

چونکہ انسان خطا اور نسیان سے مرکب ہے۔ اس لئے خطا سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ممکن ہے کہ کسی لفظ کلمہ یا جملہ میں کوئی شرعی غلطی ہوگئی ہو۔ اس لئےراقم الحروف توبہ و انابت الی اللہ تعالیٰ پراس تحریر کو مکمل کرتا ہے۔ اس میں اگر کوئی ایسا لفظ فقرہ یا جملہ آگیا ہو۔ جو شرع شریف کی گرفت کی حدود میں ہو۔ شریعت مطہرہ کے خلاف ہو تو میں ایسے ہر لفظ و فقرہ اور جملہ سے توبہ کرتا ہوں۔ اوراس سے برأت اور بیزاری کا اظہار کرتاہوں۔

استغفر الله من كل ذنب أذنبته عمدا أو خطأ سرا أوعلانية واتوب اليه وأشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله و رضيت بالله ربا وبالاسلام دينا وبمحمد صلى الله تعالى عليه وسلم نبيا ورسولا

1Like
0Dislike
100% LikesVS
0% Dislikes

You Might Also Like

مخلص نہیں کوئی بھی اردو زبان کا؟

نفرتی ایجنڈے پر مجرمانہ خاموشی، مسلمانوں کی جان اتنی سستی کیوں؟

گرمی کی شدت: فطرت کا بپھرا ہوا انتباہ

ٹائٹن کے نئے اسٹور میں برانڈڈ آئی وئیر ہیں دستیاب

معاشرتی ترقی کے تقاضے، اور بھارتی مسلمان

TAGGED:اسلامی تجارتاسلامی تجارت کے اصولاسلامی نظریہ تجارتتجارت کے اصولکامیاب تجارت
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp LinkedIn Telegram Email Copy Link Print
Previous Article مدرسہ رزاقیہ بانس منڈی میں پرچم کشائی
Next Article معراج مصطفےٰ کے پروقار موقع پررقم کی ایک نئی تاریخ معراج مصطفےٰ کے پروقار موقع پررقم کی ایک نئی تاریخ
Leave a review

Leave a review جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Please select a rating!

محمد ذیشان اور ابوشحمہ انصاری نے دی عیدالاضحی کی مبارکباد
بزمِ مدنی کے زیرِ اہتمام یادِ مائل میں سجی چراغوں جیسی شعری شام
مصنف و ادیب مفتی شعیب رضا نظامی فیضی کو "امام احمد رضا ایوارڈ” تفویض
قربانی خلوص و تقویٰ کا مظہر: مولانا شان محمد جامعی
مخلص نہیں کوئی بھی اردو زبان کا؟

Advertise

ہمارا موبائل اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کریں

NewsG24بھارت میں پروپیگنڈہ خبروں کے خلاف ایک مہم ہے، جو انصاف اور سچائی پر یقین رکھتی ہے، آپ کی محبت اور پیار ہماری طاقت ہے!
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
  • About Us
  • TERMS AND CONDITIONS
  • Refund policy
  • سپورٹ کریں
  • Privacy Policy
  • پیام شعیب الاولیاء
  • Contact us
Welcome Back!

Sign in to your account

Lost your password?