By using this site, you agree to the Privacy Policy and Terms of Us
Accept
NewsG24UrduNewsG24UrduNewsG24Urdu
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • اتصل
  • مقالات
  • شكوى
  • يعلن
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
Reading: آزادی کا حقیقی تصور: آر ایس ایس کی فکر اور ہندوستانی جمہوریت پر اثرات
Share
Notification Show More
Font ResizerAa
NewsG24UrduNewsG24Urdu
Font ResizerAa
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Have an existing account? Sign In
Follow US
NewsG24Urdu > Blog > آج کل > آزادی کا حقیقی تصور: آر ایس ایس کی فکر اور ہندوستانی جمہوریت پر اثرات
آج کل

آزادی کا حقیقی تصور: آر ایس ایس کی فکر اور ہندوستانی جمہوریت پر اثرات

Last updated: اگست 14, 2025 7:08 صبح
newsg24urdu 1 ہفتہ ago
آزادی کا حقیقی تصور: آر ایس ایس کی فکر اور ہندوستانی جمہوریت پر اثرات
آزادی کا حقیقی تصور: آر ایس ایس کی فکر اور ہندوستانی جمہوریت پر اثرات
SHARE

از: شاہ خالد مصباحی

آزادی کا حقیقی تصور دو لمحوں کی خوشی کا نام نہیں، یہ زندگی بھر کی نعمت ہے۔ ایسی نعمت جس میں دل و دماغ کھل کر اپنے آپ کو آزاد محسوس کرے، ہاتھ پاؤں اپنی مرضی کے مطابق حرکت کریں، اور زبان و بیان اپنی مطلوب و مقصود کا اظہار کر سکیں۔ آزادی کا مطلب نہ قید خانہ ہے، نہ ایسا کھلا آسمان جہاں کوئی قانون یا ضابطہ نہ ہو؛ بلکہ آزادی کا مفہوم یہ ہے کہ خوف و ہراس کا سایہ ذہنوں پر نہ منڈلائے، اور کوئی قوت انسان کے احساس، شعور اور خودی کو مسخر نہ کر سکے۔

آزادیِ وطن صرف اس وقت مکمل کہی جا سکتی ہے جب فرد سیاسی خودمختاری کے ساتھ ساتھ فکری، روحانی، اور تہذیبی اعتبار سے بھی خود مختار ہو۔ اگر کچھ جائز کہنے یا لکھنے پر حکومت کی تلوار اور جیل و عدالت کے بے لگام جبر کا سامنا کرنا پڑے، تو یہ آزادی کے نام پر ایک نیا استبداد ہے۔ حقیقی آزادی وہ ہے جو انسان کو اپنے ایمان، تہذیب، تمدن اور خودی کے شعور کے ساتھ جینے کا حق دے۔

ہندوستان کی تحریکِ آزادی کا خواب ایک ایسے ملک کا تھا جہاں ہر مذہب، زبان، اور ثقافت کے لوگ برابری اور عزت کے ساتھ رہیں۔ لیکن آج، آزادی کے 77 سال بعد بھی، ذہنی غلامی کا ایک نیا روپ ہمارے سامنے ہے۔ یہ وہ غلامی ہے جو خاص طور پر پڑھے لکھے طبقے میں پائی جاتی ہے،  وہی طبقہ جو آزادی کی معنویت سمجھ سکتا ہے، مگر نوکری، ترقی، اور عہدوں کے لالچ میں اپنے فکری و نظریاتی اختیارات اسے دستبردار ہو جاتا ہے۔

یہ رویہ کوئی نیا نہیں۔ برصغیر کی تاریخ ایسے کرداروں سے بھری ہے جنہوں نے ذاتی مفاد کے لیے قوم کو بیچا۔ سنہ 1757ء کی جنگِ پلاسی میں نواب سراج الدولہ کے سپہ سالار میر جعفر نے انگریزوں سے سازباز کر کے بنگال کو ان کے حوالے کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کی آزادی صدیوں کے لیے چھن گئی، اور خود میر جعفر کو بھی ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہ ملا — "نا خدا ہی ملا، نہ وصالِ صنم”۔ ہندوستان کا اتنا بڑا نقصان صرف ایک شخص کی لالچ کی بنیاد پر ہوا تھا، لیکن آج ، ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا۔

- Advertisement -
Ad imageAd image

آج تعلیم جیسے اہم شعبے کو ایک خاص نظریے کے تابع کرنے کی منظم کوشش جاری ہے۔ کسی اعلیٰ یونیورسٹی میں عہدہ حاصل کرنے کے لیے اہلیت و صلاحیت کے بجائے سنگھ پریوار سے وفاداری کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی  یہ سب ادارے جو کبھی آزادیِ فکر اور جمہوری اقدار کے مرکز تھے، اب وہاں سنگھ کے مقرر کردہ وفادار بیٹھے ہیں جو طلبہ و اساتذہ کی فکری آزادی کو سلب کرنے میں سرگرم ہیں۔ طلبا کو کیمپس کے اندرون انہیں  آزادی کی آواز اٹھانے پر سزائیں عائد کی جاتی ہیں ۔ یہ وہ جگہیں تھیں  جہاں سے ہندوستانیوں کو سیاسی و سماجی ، مذہبی و ثقافتی آزادی اور ان کی حقوق  سے روشناس کرایا جاتا تھا، لیکن آج یونیورسٹیوں کا کیمپس بھی انہیں مقردہ کردہ سنگھی افراد کی وجہ سے اتنا متاثر ہے کہ یہ جو چاہیں کریں اگر کوئی طلبہ یا استاد آواز بلند کرتے ہیں تو ان کو بالفور ان کی آواز کو پست کرنے کے لیے  سزا دی جاتی ہے، گر چہ اعتراض جا بجا ہوں۔

کوئی طلبہ حکومت یا اس سے متعلقہ اداروں کے  کسی بھی پالیسی پر بحث و تمحیص نہیں کرسکتا اور نا ہی اس کے خلاف کوئی آواز بلند کرسکتا ہے، چاروں سمت آج تعریف گو بنانے کا عمل جاری ہے۔‌

25 جون 2025  کو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں "ون نیشن، ون الیکشن” پر ہونے والا پروگرام اس کی تازہ مثال ہے۔ وہاں موجود تمام مقررین نے اس منصوبے کو بغیر تنقیدی جائزے کے فائدہ مند قرار دیا، صرف اس لیے کہ یہ مودی حکومت کی پالیسی ہے۔ نہ کوئی سوال و جواب، نہ اختلاف کی گنجائش۔  گویا علمی مباحثے کی روایت کو سرے سے ختم کر دینا۔ اور آج کی اعلی یونیورسٹیاں جو سنگھ کی فکر سے متاثر افراد کی سرپرستی میں چل رہی ہیں یہ ان کے منصوبوں میں سے ہے کہ اس جمہوریت میں رہنے والے ہر سچے، مخص فرد کی آواز بیباکانہ کو دبا دیا جائے اور ان پر حکومتی ایجنسیوں کا ساتھ لے کر خوب ظلم و ستم کیا جائے ۔ 

آج سنگھ پریوار کا نظریہ ہندوستانی ماحول پر اتنا اثر انداز ہے کہ صرف تعلیم کا شعبہ ہی متاثر نہیں بلکہ ہندوستان کے ہر شعبے ان کی غلط پالیسیوں اور غلط بیانی بازیوں کی وجہ سے متاثر ہیں ، آج ہم جمہوریت کا جشن منارہے ہیں، ترنگا پرچم کو اپنا نشان علامت بتا رہے لیکن اسی فکر سے جڑے وزیر اعظم نریندر مودی جو ان سب منصوبوں کو زیر عمل لا رہے ہیں۔

 یہ تنظیم ان چیزوں کا انکار کرتی ہے اور اس تنظیم کے ممبران بھگوا جھنڈا ہی کو ہندوستانی پرچم کے طور پر تسلیم کرتے ہیں ۔ اس تنظیم کا  طویل منصوبہ ہے کہ اس جمہوری وطن کو ہندو راشٹر بنایا جائے، وطن کے مختلف مواقع پر سنگھی افراد کی ذریعے سے اس کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے، اور گاندھی، نہرو جیسے آزادی کے متوالوں کی تصویروں کی بھی بے حرمتی کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔ یہاں تک  ہی نہیں بلکہ مختلف پروگرام جو آج آن ریکارڈز ہیں ان میں اسلام اور مسلمانوں کو بیرون مذہب اور ودیشی بتاکر ان پر ظلم و تعدی کرنے کا بباغ دہل اعلان کیا جاتا ہے ۔

- Advertisement -

گاؤ کشی کے نام پر مسلم نوجوانوں کو مارا پیٹا جاتا ہے اور مسلم بزرگوں کی داڑھیوں کو نوچا جاتا ہے اور اسی تنظیم کے ممبران اس طرح کی زہر افشانی کرکے مسلم بستیوں ، مقابر، مساجد اور خانقاہوں کا نشانہ بناتے ہیں ۔ جہاں آج جمہوری وطن کا جشن پورا ملک منا رہا ہے وہیں پر خاص طبقہ کے ساتھ بے جا تفریق برتی جارہی ہے اور ان پر سب و شتم  کیا جارہا ہے اور عرض کہ  ان کے برابر کے شہری حقوق سے انکار کا تصور بھی آر ایس ایس جیسی تنظیموں کے ذریعہ مسلسل پیش کیا جارہا ہے۔

اس آزاد وطن میں جہاں سبھی افراد کو اپنے مذہب و شناخت کے ساتھ رہنے کا حق ہے اور جمہوری وطن میں جہاں سوشلسٹ اس کا خاکہ ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا، کتنی خوبصورت بات ہے، لیکن معاملہ دگرگوں ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے زیر دست بھارتی جنتا پارٹی اسی ملک میں اسی سرزمین پر مذہب کو اپنا حمایتی بناکر قوانین و ضوابط بناتی ہے اور اسی کے اعتبار سے حکومت کے ممبران اپنے ایجنڈے کو ترتیب دیتے ہیں۔ آج ہندوستانی مسلمانوں کو جہاں اپنے باپ داداؤں کی تاریخ مسخ کردینے کا خطرہ ہے، وہیں پر آج اس حکومت کے قہر کے سبب ان کے وجود پر بھی خطرہ منڈلا رہا ہے۔

آزادی کا حقیقی تصور ہر زاوئیے سے ہر مقام سے جڑی ہوئی ہے لیکن آج  وطن ہند کی ایک بڑی آبادی کیسے اس جمہوری وطن کی آزادی کا جشن منائے؟ جہاں پر  انہیں فکری ، شعوری ، سیاسی، ثقافتی ، شناختی اور وطنی آزادی سے  مفلوج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

- Advertisement -

ہم مسلمان آج اسی جمہوری وطن میں اپنے وجود پر خطرہ منڈلاتے ہوئے شب و روز دیکھ رہے ہیں، تعلیمی نصاب میں تبدیلی اور تاریخ کی ازسرنو تعبیر صرف اس وجہ سے کی جاری ہے کہ ادب و تعلیم کے میدانوں سے مسلمانوں کے کرداروں کے چھپایا جاسکے ۔ این سی آر ٹی جیسے تعلیمی ادارے مغل حکمرانوں، جنہوں نے تقریباً آٹھ سو سال تک اس سرزمین پر حکومت کیں، ان کی شناخت کی بنیاد پر ان کے ساتھ ادبی اور تاریخی تفریق کی جارہی ہے۔ یہ منصوبہ صرف یہی تک ہی نہیں شہریت ترمیمی قانون جیسے اقدامات جو اسی حکومت اور سنگھ پریوار کے زیر اثر کئے جا رہے ہیں، جس کے تحت ہر روز آسام و بنگال کے مسلم‌ باشندوں کو مہاجر کیمپوں میں ڈالا جارہا ہے ، ان کو بے گھر کیا جارہا ہے ان کو مارا پیٹا جارہا ہے اور وطن چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ آج کی جمہوریت اور آزادیِ وطن پر حد افسوس تو یہ ہے؛ اسی قانون میں یہ ترمیم کی جاتی ہے کہ ہندوستان کے سارے مذاہب کے ماننے والوں  کو ہندوستانی قرار دیا جائے گا اور دستاویزات کی عدم فراہمی پر ان کو ہندوستانی بھی تسلیم کر لیا جائے گا سوائے مسلمانوں کے۔

آج ہندوستان کے لوگوں پر فریضہ بن گیا ہے کہ وہ جشن آزادی کو  محض سیاسی خودمختاری کے حاصل ہونے کی طور پر نا منائیں  بلکہ اس جشن کو جشن بیداری کے طور پر منائیں جس میں غلامی کی ساری شقوں کی توبیخ کی جائے۔ کیوں کہ

  غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں، نہ تدبیریں

جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

                                                     (اقبال)

آج ہندوستان میں سب سے بڑا معرکہ فکری اور نظریاتی آزادی کا ہے۔ سنگھ پریوار اور مودی ازم نے جمہوریت کے اس جوہر کو نشانہ بنایا ہے جس پر یہ ملک قائم ہوا تھا۔ یونیورسٹیوں سے لے کر میڈیا تک، ہر جگہ ایک ایسی فضا پیدا کی جا رہی ہے جہاں تنقید جرم اور وفاداری انعام ہے۔

لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہ غلامی وقتی ہے۔ جس کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہندوستان کی مٹی میں وہی بیج بویا گیا ہے جو شہداء کے خون سے سیراب ہے

:

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

آزادی کا حقیقی تصور اسی دن مکمل ہوگی جب ہر شہری، خاص کر تعلیم یافتہ طبقہ، اپنی خودی اور شعور کو کسی بھی طاقت کے آگے بیچنے سے انکار کر دے۔ 

ستم گر اور ظالم نظام کے سامنے سینۂ سپر ہوجائیں ۔ یہی آزادی کا حقیقی تصور ہے، اور یہی ہندوستان کی جمہوریت اور تہذیب کا تحفظ بھی۔

1Like
0Dislike
100% LikesVS
0% Dislikes

You Might Also Like

عرس انجم العلماء کا عظیم الشان انعقاد, خصوصی ضمیمہ کا رسم اجراء

درگاہ کمیٹی نے تعلیمی ادارے اور اسپتال کے قیام کا کیا اعلان

تزک و احتشام کے ساتھ شہر میں منایا گیا جشن اعلیٰ حضرت

عدل و انصاف اور محبت کے داعی تھے مخدوم شاہ: محمد ھاشم اشرفی

حضرت علامہ سید احمد انجم عثمانی: حیات و خدمات

TAGGED:جشن آزادیجنگ آزادیجنگ آزادی اور علماءیوم آزادی
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp LinkedIn Telegram Email Copy Link Print
Previous Article ہمیں فخر ہے کہ ہم ہندوستانی ہیں: مولانا محمد ہاشم اشرفی
Next Article وہ آزادی جو خون سے لکھی گئی وہ آزادی جو خون سے لکھی گئی
Leave a review

Leave a review جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Please select a rating!

عرس انجم العلماء کا عظیم الشان انعقاد, خصوصی ضمیمہ کا رسم اجراء
درگاہ کمیٹی نے تعلیمی ادارے اور اسپتال کے قیام کا کیا اعلان
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ڈاکٹر عمار رضوی کی اہم ملاقات
بھارت میں امت کو لاحق خطرات: آئینہ سامنے رکھ دوں تو پسینہ آجائے
فروغ رضویات میں علامہ ضیاء المصطفے قادری امجدی گھوسوی کا تابندہ کردار

Advertise

ہمارا موبائل اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کریں

NewsG24بھارت میں پروپیگنڈہ خبروں کے خلاف ایک مہم ہے، جو انصاف اور سچائی پر یقین رکھتی ہے، آپ کی محبت اور پیار ہماری طاقت ہے!
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
  • About Us
  • TERMS AND CONDITIONS
  • Refund policy
  • سپورٹ کریں
  • Privacy Policy
  • پیام شعیب الاولیاء
  • Contact us
Welcome Back!

Sign in to your account

Lost your password?