By using this site, you agree to the Privacy Policy and Terms of Us
Accept
NewsG24UrduNewsG24UrduNewsG24Urdu
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • اتصل
  • مقالات
  • شكوى
  • يعلن
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
Reading: اردو کی بے بسی،اپنی ہی زمین پر اجنبی زبان
Share
Notification Show More
Font ResizerAa
NewsG24UrduNewsG24Urdu
Font ResizerAa
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Have an existing account? Sign In
Follow US
NewsG24Urdu > Blog > مضامین > اردو کی بے بسی،اپنی ہی زمین پر اجنبی زبان
مضامین

اردو کی بے بسی،اپنی ہی زمین پر اجنبی زبان

Last updated: اکتوبر 25, 2025 12:46 شام
newsg24urdu 2 مہینے ago
SHARE

تحریر: ابوشحمہ انصاری سعادت گنج،بارہ بنکی

اردو… یہ زبان میرے دل کی دھڑکن ہے۔ یہی تو وہ بولی ہے جس میں ماں کی لوری ہے، باپ کی دعائیں ہیں، اور محبت کے وہ نازک احساس ہیں جنہیں لفظوں میں ڈھالنا آسان نہیں۔ کبھی یہی زبان ہماری شناخت تھی، ہماری پہچان تھی۔ بازاروں میں، گلیوں میں، محفلوں میں ہر طرف اردو کی مٹھاس بکھری ہوئی تھی۔ مگر آج یہی زبان اپنی ہی زمین پر اجنبی لگنے لگی ہے۔

یہ سوچ کر دل بھر آتا ہے کہ جس زبان نے صدیوں تک دلوں کو جوڑا، وہ آج بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ کبھی یہی زبان بادشاہوں کے درباروں میں عزت پاتی تھی، عالموں کے مدرسوں میں پڑھائی جاتی تھی، شاعروں کی محفلوں میں چمکتی تھی۔ اب وہی زبان اسکولوں میں “اختیاری مضمون” بنا دی گئی ہے، اور گھروں میں بچے اس سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

اردو کا زوال اچانک نہیں آیا۔ یہ خاموشی سے، آہستہ آہستہ، ہماری بے توجہی اور کمزوری سے پیدا ہوا ہے۔ ہم نے خود اپنی زبان سے فاصلہ بڑھایا۔ انگریزی بولنے والا "مہذب” سمجھا جانے لگا، اور اردو بولنے والا "پس ماندہ”۔ اسکولوں میں بچوں کو سکھایا گیا کہ کامیابی صرف انگریزی میں ہے۔ والدین نے بھی وہی سوچ اپنا لی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج کی نسل اردو پڑھ تو سکتی ہے، مگر محسوس نہیں کر سکتی۔

- Advertisement -
Ad imageAd image

اردو صرف لفظوں کا مجموعہ نہیں، یہ ایک تہذیب ہے۔ وہ تہذیب جو نرمی، لحاظ، اور محبت کا سبق دیتی ہے۔ یہ زبان نفرت نہیں سکھاتی، یہ دلوں کو قریب لاتی ہے۔ کبھی یہ زبان ہر مذہب اور ہر طبقے کی آواز تھی۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی،سب نے مل کر اس کے دامن کو وسیع کیا۔ لیکن آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اردو کو صرف ایک طبقے یا مذہب سے جوڑ دیا گیا ہے۔

یہ کیسا المیہ ہے کہ جو زبان گنگا جمنی تہذیب کی علامت تھی، آج خود فرقوں میں تقسیم کر دی گئی۔ زبان تو انسانوں کو جوڑنے کے لیے ہوتی ہے، مگر ہم نے اسے دیواروں کے پیچھے دھکیل دیا۔

دکانوں کے بورڈ اب انگریزی میں چمکتے ہیں، شادی کے کارڈ انگریزی میں چھپتے ہیں، اسکولوں کے نصاب سے اردو غائب ہوتی جا رہی ہے۔ کبھی یہی اردو خوشبو کی طرح زندگی میں رچی بسی تھی، اب اس کا نام بھی “اختیار” اور “شوق” تک محدود ہو گیا ہے۔ اخبارات کے صفحات سکڑ رہے ہیں، رسائل دم توڑ رہے ہیں، اور جو لوگ اردو کے لیے قلم اٹھاتے ہیں، ان کے قارئین کم ہوتے جا رہے ہیں۔

لیکن قصور صرف اداروں کا نہیں، ہمارا بھی ہے۔ ہم نے اپنی زبان سے وہ تعلق توڑ دیا جو کبھی روح کی طرح قائم تھا۔ آج کے والدین بچوں سے انگریزی میں بات کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ محبت کی زبان اپنی ہوتی ہے، مستعار نہیں۔ ایک بچہ “ممی، ڈیڈی” کہتا ہوا شاید پیارا لگے، مگر “امی، ابا” کہنے میں جو اپنائیت ہے، وہ کسی ترجمے میں نہیں ملتی۔زبانیں حکم سے نہیں، محبت سے زندہ رہتی ہیں۔

اگر ہم اپنی زبان سے پیار کریں تو کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی۔ لیکن اگر ہم نے بے اعتنائی برتی، تو کوئی قانون، کوئی ادارہ اسے بچا نہیں پائے گا۔

- Advertisement -

اردو کے ساتھ سچائی یہ ہے کہ یہ صرف شاعری کی زبان نہیں، زندگی کی زبان ہے۔ جب کوئی بچہ پہلی بار “امی” کہتا ہے، جب کوئی ماں دعا دیتی ہے، جب کوئی عاشق اپنے محبوب سے “تم” کہتا ہے۔ تو یہ سب اردو ہے۔ یہ وہ احساس ہے جسے دنیا کی کوئی اور زبان اس انداز میں بیان نہیں کر سکتی۔

ہم نے اردو کو صرف کتابوں، مشاعروں، یا تقریبات تک محدود کر دیا ہے۔ حالانکہ یہ زبان روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اردو پھر سے زندہ ہو، تو اسے اپنی بول چال میں واپس لانا ہوگا۔ گھروں میں اردو بولنا شروع کریں، بچوں کو اردو کہانیاں سنائیں، انہیں اردو کے شاعر اور ادیبوں سے روشناس کرائیں۔

اردو کے لیے کام کرنے والے افراد آج بھی ہیں۔ اساتذہ، ادیب، شاعر، صحافی، جو اس زبان کے چراغ کو بجھنے نہیں دیتے۔ لیکن ان چراغوں کو ہوا دینے کی ذمہ داری ہم سب کی ہے۔ اردو کی بقا حکومت کے ہاتھ میں نہیں، بولنے والوں کے جذبے میں ہے۔

- Advertisement -

ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اگر ہم اپنی زبان بھول جائیں تو اپنی پہچان کہاں بچی رہتی ہے؟ زبان صرف الفاظ نہیں، یہ ہماری تاریخ، ہماری تہذیب، اور ہمارے جذبات کی نمائندہ ہے۔ زبان کمزور ہوتی ہے تو قومیں بھی کمزور ہو جاتی ہیں۔

ہمیں اردو کو روزمرہ زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔ اسکولوں میں اردو کے مقابلے، تقریری پروگرام، مشاعرے، یہ سب دوبارہ زندہ کیے جائیں۔ اخبارات میں اردو ادب کی حوصلہ افزائی ہو، ٹی وی چینل اردو پروگرام پیش کریں، اور سوشل میڈیا پر اردو میں بات کرنے کو عام کیا جائے۔

ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ انگریزی سیکھنا بری بات نہیں، لیکن اپنی زبان سے منہ موڑ لینا المیہ ہے۔ جو قوم اپنی زبان سے محبت نہیں کرتی، وہ کبھی اپنے دل سے جڑی نہیں رہتی۔

اردو کے لفظ صرف زبان نہیں، احساس کی نرمی ہیں۔ جب کوئی “خیریت” پوچھتا ہے، تو اس میں فکر بھی ہے، محبت بھی۔ جب کوئی “جزاک اللہ” کہتا ہے تو یہ محض شکریہ نہیں، دعا ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس میں احترام بھی ہے اور رشتہ بھی۔

آج اردو کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ نہیں کہ اسے پڑھنے والے کم ہیں، بلکہ یہ کہ بولنے والے شرماتے ہیں۔ ہمیں اپنی زبان پر فخر کرنا ہوگا۔ اردو بولنا پسماندگی نہیں، تہذیب ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس نے میر، غالب، اقبال، اور فیض جیسے فکری ستون پیدا کیے۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم اردو کے لیے دل سے قدم بڑھائیں۔ اپنے گھروں میں اردو کی محفلیں سجائیں، بچوں کو اردو کتابیں دیں، انہیں سکھائیں کہ یہی ان کی جڑ ہے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے زبانیں مٹتی نہیں، مٹائی جاتی ہیں۔اور زندہ بھی تب ہی رہتی ہیں جب ان کے بولنے والے ان سے محبت کریں۔

آج اگر ہم نے اردو کو دل سے اپنایا، اسے روزمرہ میں شامل کیا، تو یقین جانیے یہ زبان دوبارہ اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ کیونکہ اردو کے لفظوں میں وہ طاقت ہے جو انسان کے دل تک راستہ بنا لیتی ہے۔

اردو ہماری روح ہے، ہماری شناخت ہے، ہمارا فخر ہے۔ اگر ہم نے اسے بچا لیا تو اپنی تہذیب کو بچا لیں گے، اپنی تاریخ کو بچا لیں گے۔

جب تک دل دھڑکتا ہے، جب تک محبت باقی ہے، تب تک اردو زندہ رہے گی۔یہ زبان مٹی کی خوشبو ہے۔اور مٹی کی خوشبو کبھی ختم نہیں ہوتی۔

0Like
0Dislike
50% LikesVS
50% Dislikes

You Might Also Like

اردو کا سچا خادم: سہیل ساحل

"ایک ابدی سوال کی بازگشت” مرزا غالب کا بدل کیوں پیدا نہیں ہوا؟

سیاست: عوامی شعور اور سماجی بیداری کا سفر

اردو ،ہندی ہندوستان کی مشترکہ تہذیب ہے: عمار رضوی

اللہ تمہیں کچھ کیوں نہیں دے رہا؟

TAGGED:اردواردو اور ہندیاردو ایک پہچان ہےاردو کی بے بسیاردو ہے جس کا نام
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp LinkedIn Telegram Email Copy Link Print
Previous Article جمعیۃ علماء ہند لوگوں کی امیدوں کا مرکز: امین الحق عبداللہ قاسمی
Next Article شمیم نکہت فکشن ایوارڈ: طارق چھتاری کے نام کا اعلان
Leave a review

Leave a review جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Please select a rating!

قلم ایک امانت ہے
مظاہرہ حسن قرأت و عظمت قرآن کانفرنس کی تیاریاں آخری مراحل میں
دکانداروں کے مسائل کا مستقل حل نکالا جائے
قومی بیداری کی ضرورت،SIR اور اوقاف کے اندراج میں تاخیر قوم کے لیے نقصان دہ
ادبی کینوس کے زیر اہتمام شعری نشست کا انعقاد

Advertise

ہمارا موبائل اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کریں

NewsG24بھارت میں پروپیگنڈہ خبروں کے خلاف ایک مہم ہے، جو انصاف اور سچائی پر یقین رکھتی ہے، آپ کی محبت اور پیار ہماری طاقت ہے!
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
  • About Us
  • TERMS AND CONDITIONS
  • Refund policy
  • سپورٹ کریں
  • Privacy Policy
  • پیام شعیب الاولیاء
  • Contact us
Welcome Back!

Sign in to your account

Lost your password?