By using this site, you agree to the Privacy Policy and Terms of Us
Accept
NewsG24UrduNewsG24UrduNewsG24Urdu
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • اتصل
  • مقالات
  • شكوى
  • يعلن
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
Reading: انورؔ جلالپوری: نثر و نظم کا گنگا جمنی کارواں
Share
Notification Show More
Font ResizerAa
NewsG24UrduNewsG24Urdu
Font ResizerAa
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Have an existing account? Sign In
Follow US
NewsG24Urdu > Blog > ادبیات > انورؔ جلالپوری: نثر و نظم کا گنگا جمنی کارواں
ادبیات

انورؔ جلالپوری: نثر و نظم کا گنگا جمنی کارواں

Last updated: جولائی 18, 2025 12:05 صبح
newsg24urdu 7 دن ago
SHARE

✍️ ابوشحمہ انصاری سعادت گنج، بارہ بنکی

6 جولائی 1947ء کو قصبہ جلال پور، ضلع امبیڈکر نگر میں جنم لینے والے انوار احمد، دنیا میں انورؔ جلالپوری کے نام سے پہچانے گئے۔ وہ محض شاعر یا ناظم نہیں بلکہ اردو ادب، تعلیم، ترجمہ، تہذیبی ہم آہنگی، اور فکری رہنمائی کے ہمہ جہت نمائندے تھے۔ ان کی ذات میں وہ تمام جوہر موجود تھے جو ایک سچے انسان، صاحبِ علم معلم، سنجیدہ مترجم اور باشعور قلمکار میں ہونے چاہئیں۔ وہ محض شخص نہیں، پوری تہذیبی روایت کا استعارہ تھے۔

انورؔ جلالپوری کی نثر پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے کسی خوش الحان سازندے کی انگلیاں ساز پر چل رہی ہوں۔ ان کی کتاب "روشنائی کے سفیر” کے جملے دل کو چیرتے نہیں، چھوتے ہیں۔ ان کی تحریریں نثر کی حدود سے نکل کر نظم کی لطافتوں سے ہم آغوش ہو جاتی ہیں۔ وہ محض لکھتے نہیں، لفظوں کو نبضِ دل سے جوڑ دیتے ہیں۔

ان کی تحریری فکر کی بنیاد میں علامہ اقبال اور مولانا آزاد جیسے عبقری اذہان کی روشنی ہے۔ اقبال پر لکھے گئے ان کے مضامین، جیسے "اقبال کی عبقریت” اور "اقبال انسانی عظمت کا پیامبر”، صرف تشریحات نہیں، ایک فکری سفر ہیں۔ وہ قاری کو دعوتِ غور و فکر دیتے ہیں، جیسے کہنا چاہتے ہوں کہ:

 جو سوچے، اس کی سوچ کا معیار ہونا چاہیے

- Advertisement -
Ad imageAd image

فقط محسوس کر لینا ہی کافی تو نہیں ہوتا

مشاعرے صرف شاعری کی محفل نہیں، وہ ایک تہذیبی تہوار ہوتے ہیں، اور انورؔ جلالپوری نے اس تہوار کو وقار بخشا۔ ان کی نظامت کا کمال یہ تھا کہ وہ شور کو ترتیب اور سنّاٹے کو سماعت عطا کر دیتے۔ ان کی موجودگی میں محفلیں صرف مشاعرہ نہیں، تہذیبی سنگم بن جاتی تھیں۔

 تم پیار کی سوغات لیے گھر سے تو نکلو

رستے میں تمہیں کوئی بھی دشمن نہ ملے گا

یہ اشعار محض دلکش ترکیبیں نہیں، بلکہ دلوں کو جوڑنے کا فلسفہ ہیں۔ ان کے اشعار میں محبت، انسانیت، رواداری اور فکر کی آمیزش ہے۔ انورؔ جلالپوری صرف لکھتے نہیں، زندگیاں جوڑتے تھے۔

- Advertisement -

ان کی علمی و فکری عظمت کا سب سے بڑا مظہر ان کا منظوم ترجمہ ہے۔ بھگوت گیتا جیسے گہرے، پیچیدہ اور فلسفیانہ متن کو اردو کے شعری سانچے میں ڈھال دینا صرف زبان دانی نہیں بلکہ تہذیبی شعور کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ ان کی یہ کاوشیں اس بات کی دلیل ہیں کہ وہ صرف اردو کے نہیں، ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے بھی نمائندہ تھے۔

 دوستو! عیار دنیا کی حفاظت کے لیے

آبِ زم زم ہو تو گنگا جل بھی ہونا چاہیے

- Advertisement -

ایسا شعر صرف وہی شخص لکھ سکتا ہے جس نے مذہب کو نفرت کا ذریعہ نہیں، محبت کا راستہ بنایا ہو۔ انورؔ جلالپوری کی شاعری کا مزاج وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت کی جھلک پیش کرتا ہے۔

غزل کے میدان میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ ان کے مجموعے "کھارے پانیوں کا سلسلہ”، "پیار کی سوغات” اور "خوشبو کی رشتےداری” صرف شاعری نہیں، زندگی کی کتاب کے ورق ہیں۔ ان کے اشعار میں کہیں کرب کی پرچھائیں ہیں، کہیں عشق کی چمک، کہیں شکست کی سچائی، تو کہیں امید کی مدھم سی روشنی۔

 نہ جانے کیوں ادھوری ہی مجھے تصویر جچتی ہے

میں کاغذ ہاتھ میں لے کر فقط چہرہ بناتا ہوں

یہ چہرہ دراصل وہ سماج ہے جو مکمل ہو کر بھی ادھورا لگتا ہے۔ ان کے اشعار میں وہ صداقت ہے جو آئینے کی طرح سیدھی، لیکن نرم ہے۔ وہ طنز بھی کرتے ہیں تو ریشمی لفظوں میں، وہ احتجاج بھی کرتے ہیں تو تخلیقی لہجے میں۔

 کوئی ہارا، کوئی جیتا، خبر کس کو ہے

لوگ تو صرف تماشے کے لیے آئے تھے

انورؔ جلالپوری کا سب سے بڑا وصف یہی تھا کہ وہ لفظوں کو زبان سے زیادہ دل سے بولتے تھے۔ ان کی شاعری میں دل کی دھڑکنیں بھی سنائی دیتی ہیں اور روح کی صدا بھی۔

ان کی دینی وابستگی بھی اتنی ہی مستحکم تھی جتنی ان کی تہذیبی سوچ۔ ان کی کتاب "راہرو سے رہنما تک” میں خلفائے راشدین کی منظوم سیرت، "توشۂ آخرت” میں پارۂ عم کا منظوم ترجمہ، اور "ضربِ لا الہ” میں ان کے فکری افکار کی جھلک ملتی ہے۔ وہ مذہب کو قید نہیں، کشادگی سمجھتے تھے۔

 میں اپنے ساتھ رکھتا ہوں سدا اخلاق کا پارس

اسی پتھر سے مٹی چھو کے میں سونا بناتا ہوں

ایسا کہنا ان کی فکر کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ عالمِ دین نہ تھے مگر دین کی روح کو بخوبی جانتے تھے۔

ان کی زبان پر فقط اردو کا اجارہ نہیں تھا۔ ہندی، فارسی، عربی، سنسکرت اور انگریزی سب پر عبور رکھتے تھے۔ لیکن انہوں نے زبانوں کو فخر کا جھنڈا نہیں، تعلقات کا پل بنایا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو زبان کی سرحدیں مٹا کر دلوں کو آباد کرتے ہیں۔

2 جنوری 2018 کو جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو صرف ایک شاعر خاموش نہ ہوا، بلکہ ایک پوری تہذیب جیسے خاموش ہو گئی۔ مشاعروں میں اب بھی جب ان کا ذکر ہوتا ہے، سامعین کے چہرے پر اداسی، لیکن آنکھوں میں احترام ہوتا ہے۔

 میں جا رہا ہوں میرا انتظار مت کرنا

میرے لیے کبھی دل سوگوار مت کرنا

انورؔ جلالپوری نے جو کچھ کہا، وہ دل سے کہا۔ جو کچھ لکھا، وہ ضمیر سے لکھا۔ وہ اپنے اشعار سے صرف سماج کی تصویر نہیں بناتے، بلکہ اسے آئینہ دکھاتے تھے۔

 ہم کاشی کعبہ کے راہی ہم کیا جانیں جھگڑا بابا

اپنے دل میں سب کی الفت، اپنا سب سے رشتہ بابا

ان کی یہی سوچ ہمیں سکھاتی ہے کہ ادیب محض لکھنے والا نہیں ہوتا، وہ معاشرے کا نباض ہوتا ہے۔ انورؔ جلالپوری بلاشبہ اردو کے ایسے نباض تھے جن کا دل ہر مذہب، ہر زبان، ہر طبقے کے لیے دھڑکتا تھا۔

اردو ادب کو ان پر ہمیشہ فخر رہے گا۔ وہ محض ایک شخص نہیں تھے، بلکہ ایک ایسا کارواں تھے جو لفظوں کو لے کر چل پڑا تھا انسانوں کو جوڑنے، دلوں کو سینچنے، اور تہذیبوں کو قریب لانے کے لیے ۔ اور جو اب بھی روشنی بانٹ رہا ہے۔

0Like
0Dislike
50% LikesVS
50% Dislikes

You Might Also Like

بزم عزیز کا سالانہ طرحی مسالمہ، شہدائے کربلا کو منظوم خراج

ڈیجیٹل میڈیا اور اردو زبان و ادب: امکانات، خدشات اور فکری جہتیں

اردو شاعری پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا کامیاب انعقاد

سعادت گنج میں "بزمِ ایوانِ غزل” کے زیرِ اہتمام عظیم الشان محفلِ مسالمہ منعقد

سلیم تابش: سادگی، سچائی اور شعور کا شاعر

TAGGED:ادبانور جلال پوریشاعر انور جلال پوری
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp LinkedIn Telegram Email Copy Link Print
Previous Article خودی کو سمجھا نہیں، احساس زیاں بھی جاتا رہا خودی کو سمجھا نہیں، احساس زیاں بھی جاتا رہااز
Next Article کویندر گپتا کی بطور لیفٹیننٹ گورنر لداخ تقرری پر خوشی کا اظہار کویندر گپتا کی بطور لیفٹیننٹ گورنر لداخ تقرری پر خوشی کا اظہار
Leave a review

Leave a review جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Please select a rating!

تنظیم بریلوی علمائے اہلِ سنت کے زیرِ اہتمام عرس تاج الاولیاء منعقد
عرس شعیب الاولیاء کے موقع پر دعوتِ اسلامی کا عظیم الشان کارنامہ
کویندر گپتا کی بطور لیفٹیننٹ گورنر لداخ تقرری پر خوشی کا اظہار
انورؔ جلالپوری: نثر و نظم کا گنگا جمنی کارواں
خودی کو سمجھا نہیں، احساس زیاں بھی جاتا رہااز

Advertise

ہمارا موبائل اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کریں

NewsG24بھارت میں پروپیگنڈہ خبروں کے خلاف ایک مہم ہے، جو انصاف اور سچائی پر یقین رکھتی ہے، آپ کی محبت اور پیار ہماری طاقت ہے!
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
  • About Us
  • TERMS AND CONDITIONS
  • Refund policy
  • سپورٹ کریں
  • Privacy Policy
  • پیام شعیب الاولیاء
  • Contact us
Welcome Back!

Sign in to your account

Lost your password?