✍️ ابوشحمہ انصاری سعادت گنج، بارہ بنکی
6 جولائی 1947ء کو قصبہ جلال پور، ضلع امبیڈکر نگر میں جنم لینے والے انوار احمد، دنیا میں انورؔ جلالپوری کے نام سے پہچانے گئے۔ وہ محض شاعر یا ناظم نہیں بلکہ اردو ادب، تعلیم، ترجمہ، تہذیبی ہم آہنگی، اور فکری رہنمائی کے ہمہ جہت نمائندے تھے۔ ان کی ذات میں وہ تمام جوہر موجود تھے جو ایک سچے انسان، صاحبِ علم معلم، سنجیدہ مترجم اور باشعور قلمکار میں ہونے چاہئیں۔ وہ محض شخص نہیں، پوری تہذیبی روایت کا استعارہ تھے۔
انورؔ جلالپوری کی نثر پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے کسی خوش الحان سازندے کی انگلیاں ساز پر چل رہی ہوں۔ ان کی کتاب "روشنائی کے سفیر” کے جملے دل کو چیرتے نہیں، چھوتے ہیں۔ ان کی تحریریں نثر کی حدود سے نکل کر نظم کی لطافتوں سے ہم آغوش ہو جاتی ہیں۔ وہ محض لکھتے نہیں، لفظوں کو نبضِ دل سے جوڑ دیتے ہیں۔
ان کی تحریری فکر کی بنیاد میں علامہ اقبال اور مولانا آزاد جیسے عبقری اذہان کی روشنی ہے۔ اقبال پر لکھے گئے ان کے مضامین، جیسے "اقبال کی عبقریت” اور "اقبال انسانی عظمت کا پیامبر”، صرف تشریحات نہیں، ایک فکری سفر ہیں۔ وہ قاری کو دعوتِ غور و فکر دیتے ہیں، جیسے کہنا چاہتے ہوں کہ:
جو سوچے، اس کی سوچ کا معیار ہونا چاہیے
فقط محسوس کر لینا ہی کافی تو نہیں ہوتا
مشاعرے صرف شاعری کی محفل نہیں، وہ ایک تہذیبی تہوار ہوتے ہیں، اور انورؔ جلالپوری نے اس تہوار کو وقار بخشا۔ ان کی نظامت کا کمال یہ تھا کہ وہ شور کو ترتیب اور سنّاٹے کو سماعت عطا کر دیتے۔ ان کی موجودگی میں محفلیں صرف مشاعرہ نہیں، تہذیبی سنگم بن جاتی تھیں۔
تم پیار کی سوغات لیے گھر سے تو نکلو
رستے میں تمہیں کوئی بھی دشمن نہ ملے گا
یہ اشعار محض دلکش ترکیبیں نہیں، بلکہ دلوں کو جوڑنے کا فلسفہ ہیں۔ ان کے اشعار میں محبت، انسانیت، رواداری اور فکر کی آمیزش ہے۔ انورؔ جلالپوری صرف لکھتے نہیں، زندگیاں جوڑتے تھے۔
ان کی علمی و فکری عظمت کا سب سے بڑا مظہر ان کا منظوم ترجمہ ہے۔ بھگوت گیتا جیسے گہرے، پیچیدہ اور فلسفیانہ متن کو اردو کے شعری سانچے میں ڈھال دینا صرف زبان دانی نہیں بلکہ تہذیبی شعور کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ ان کی یہ کاوشیں اس بات کی دلیل ہیں کہ وہ صرف اردو کے نہیں، ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے بھی نمائندہ تھے۔
دوستو! عیار دنیا کی حفاظت کے لیے
آبِ زم زم ہو تو گنگا جل بھی ہونا چاہیے
ایسا شعر صرف وہی شخص لکھ سکتا ہے جس نے مذہب کو نفرت کا ذریعہ نہیں، محبت کا راستہ بنایا ہو۔ انورؔ جلالپوری کی شاعری کا مزاج وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت کی جھلک پیش کرتا ہے۔
غزل کے میدان میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ ان کے مجموعے "کھارے پانیوں کا سلسلہ”، "پیار کی سوغات” اور "خوشبو کی رشتےداری” صرف شاعری نہیں، زندگی کی کتاب کے ورق ہیں۔ ان کے اشعار میں کہیں کرب کی پرچھائیں ہیں، کہیں عشق کی چمک، کہیں شکست کی سچائی، تو کہیں امید کی مدھم سی روشنی۔
نہ جانے کیوں ادھوری ہی مجھے تصویر جچتی ہے
میں کاغذ ہاتھ میں لے کر فقط چہرہ بناتا ہوں
یہ چہرہ دراصل وہ سماج ہے جو مکمل ہو کر بھی ادھورا لگتا ہے۔ ان کے اشعار میں وہ صداقت ہے جو آئینے کی طرح سیدھی، لیکن نرم ہے۔ وہ طنز بھی کرتے ہیں تو ریشمی لفظوں میں، وہ احتجاج بھی کرتے ہیں تو تخلیقی لہجے میں۔
کوئی ہارا، کوئی جیتا، خبر کس کو ہے
لوگ تو صرف تماشے کے لیے آئے تھے
انورؔ جلالپوری کا سب سے بڑا وصف یہی تھا کہ وہ لفظوں کو زبان سے زیادہ دل سے بولتے تھے۔ ان کی شاعری میں دل کی دھڑکنیں بھی سنائی دیتی ہیں اور روح کی صدا بھی۔
ان کی دینی وابستگی بھی اتنی ہی مستحکم تھی جتنی ان کی تہذیبی سوچ۔ ان کی کتاب "راہرو سے رہنما تک” میں خلفائے راشدین کی منظوم سیرت، "توشۂ آخرت” میں پارۂ عم کا منظوم ترجمہ، اور "ضربِ لا الہ” میں ان کے فکری افکار کی جھلک ملتی ہے۔ وہ مذہب کو قید نہیں، کشادگی سمجھتے تھے۔
میں اپنے ساتھ رکھتا ہوں سدا اخلاق کا پارس
اسی پتھر سے مٹی چھو کے میں سونا بناتا ہوں
ایسا کہنا ان کی فکر کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ عالمِ دین نہ تھے مگر دین کی روح کو بخوبی جانتے تھے۔
ان کی زبان پر فقط اردو کا اجارہ نہیں تھا۔ ہندی، فارسی، عربی، سنسکرت اور انگریزی سب پر عبور رکھتے تھے۔ لیکن انہوں نے زبانوں کو فخر کا جھنڈا نہیں، تعلقات کا پل بنایا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو زبان کی سرحدیں مٹا کر دلوں کو آباد کرتے ہیں۔
2 جنوری 2018 کو جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو صرف ایک شاعر خاموش نہ ہوا، بلکہ ایک پوری تہذیب جیسے خاموش ہو گئی۔ مشاعروں میں اب بھی جب ان کا ذکر ہوتا ہے، سامعین کے چہرے پر اداسی، لیکن آنکھوں میں احترام ہوتا ہے۔
میں جا رہا ہوں میرا انتظار مت کرنا
میرے لیے کبھی دل سوگوار مت کرنا
انورؔ جلالپوری نے جو کچھ کہا، وہ دل سے کہا۔ جو کچھ لکھا، وہ ضمیر سے لکھا۔ وہ اپنے اشعار سے صرف سماج کی تصویر نہیں بناتے، بلکہ اسے آئینہ دکھاتے تھے۔
ہم کاشی کعبہ کے راہی ہم کیا جانیں جھگڑا بابا
اپنے دل میں سب کی الفت، اپنا سب سے رشتہ بابا
ان کی یہی سوچ ہمیں سکھاتی ہے کہ ادیب محض لکھنے والا نہیں ہوتا، وہ معاشرے کا نباض ہوتا ہے۔ انورؔ جلالپوری بلاشبہ اردو کے ایسے نباض تھے جن کا دل ہر مذہب، ہر زبان، ہر طبقے کے لیے دھڑکتا تھا۔
اردو ادب کو ان پر ہمیشہ فخر رہے گا۔ وہ محض ایک شخص نہیں تھے، بلکہ ایک ایسا کارواں تھے جو لفظوں کو لے کر چل پڑا تھا انسانوں کو جوڑنے، دلوں کو سینچنے، اور تہذیبوں کو قریب لانے کے لیے ۔ اور جو اب بھی روشنی بانٹ رہا ہے۔