شفیق فیضی
اسلام کا اتحادی پہلو انتہائی وسیع اور جامع ہے، یہاں تک کہ پوری دنیا کے اقوام و ملل کو اس میں شامل کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لئے اسلام اور اہل اسلام کو لیڈنگ رول میں ہونا لازمی ہے۔ معاملہ بریلی سانحہ سے متعلق ہو یا کرہ ارضی کے کسی بھی حصے سے ہو، ہر مسئلے کا حل اسلام کے اتحادی پہلو سے نکالا جاسکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے امت مسلمہ کے سربرآوردہ اور صاحب اثر ورسوخ طبقہ کے منصوبوں میں اسلامی عروج و ارتقاء کے لئے کوئی جگہ مختص نہیں ہے۔
مذہبی اعتبار سے ملت اسلامیہ ہند کھوکھلی ہوچکی ہے، علماء کرام جن کے سر امت کے قیادت کی ذمہ داری ہے، انہوں نے حقیقی مسائل کے بجائے مصنوعی چیلنجیز پیدا کر لئے ہیں، جس سے عوام کو تاثر دیا جاسکے کہ علماء کرام دین کے تعلق سے انتہائی سنجیدہ اور متحرک ہیں، لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ جن مسائل کو لے کر علماء، عوام کے ذہنوں کا برین واش کر رہے ہیں، وہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہیں
قادیانیت:
علماء کرام کا ایک بہت بڑا طبقہ، بشمول تمام مسلک و مشرب، بروقت قادیانیت کو لے کر پورے سال جلسے جلوس اور تحریکیں چلا رہا ہے، لیکن درست صورتحال یہ ہے کہ قادیانیت اسلام کے لئے کوئی مسئلہ نہیں، ہاں اسلام قادیانیت کے لئے ایک بہت بڑا چیلنجز ضرور ہے، قادیانیت کیا اسلام پوری دنیا کے لئے چیلنج ہے، شایدیہی وجہ ہےکہ پوری دنیا مسلمان اور اسلام کے خلاف مورچہ بند ہے۔
ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے یہ خود ساختہ اور مصنوعی چیلینجز مسئلہ ہوں، لیکن اس کی وجہ بھی کہیں نہ کہیں ہم خود ہیں، ہم نے اسلامی عقائد کی ترویج و اشاعت سے زیادہ قادیانیت کی تردید پر توجہ دی ہے، اور یہ بات ہمارے علماء کرام بھی جانتے ہیں کہ دنیا میں جس چیز کی مخالفت ہونے لگے، اس کی اہمیت اور اس پر عوام کا تجسس بڑھ جاتا ہے، حقیقی اسلام سے نابلد انسان جب ایسے فتنوں کے بارے میں سنتایا جانتا ہے، تو اس سے صرف اس لئے متاثر ہوجاتا ہے کیونکہ کہی جانے والی بات انتہائی شاندار اور دلچسپ انداز میں کہی گئی ہوتی ہے، اور حقیقی اسلام کا اس کو علم بھی نہیں ہوتا۔ لہذا الفاظ کی تاثیر سادہ لوح دلوں کو مسخر کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے، جس کا علاج اس کا رد نہیں بلکہ اسلام کی صحیح معلومات فراہم کرنا ہے۔
اسی طرح شکیلیت، ختم نبوت اور مسلکی اختلافات، چونکہ ہر مسلک ایک دوسرے کو گمراہ مانتا ہے تو اس کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ مذکورہ تمام وہ مسائل، جن کو علماء کرام حل کرنے کے نام پر خود کو متحرک اور سرگرم دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی حیثیت حقیقت میں دھیان بھٹکانے سے زیادہ نہیں ہے، سچ میں ایسا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔
دراصل یہ وہ فرضی اور مصنوعی مسائل ہیں جن کو علماء کرام خود کو محفوظ ژون میں رکھنے کے لئے گڑھتے ہیں، ورنہ حقیقت میں یہ کوئی مسئلہ نہیں ہیں، ہوسکتا ہے کسی کو یہ تمام مسائل بھی اہم لگتے ہوں، لیکن پھر بھی ان کی حیثیت اتنی نہیں ہوسکتی کہ حقیقی مسائل سے صرف نظر کر لیا جائے۔
ایک مسلمان کے لئے ختم نبوت کوئی مسئلہ نہیں، نبوت کا دروازہ ایک بار بند ہوگیا تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو دوبارہ کھولنے کی طاقت نہیں رکھتی، پھر بھی اگر داعیان نبوت پیدا ہوتے ہیں، تو اسلام انہیں کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ ممکن ہے کچھ احباب میری اس رائے سے اتفاق نہ کریں، لیکن سچائی یہی ہے اگر ہم نے حقیقی اسلام سے دنیا کو روشناس کرایا ہوتا تو آج یہ نوبت نہیں آتی۔
دفاع کمزور ہوتا ہے یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے لیکن اس کے باوجود مسلمان تحفظ ناموس رسالت، تحفظ عصمت حسن و معاویہ، تحفظ عظمت صحابہ اور تحفظ عقائد کانفرنس پر لاکھوں اور کروڑوں روپئے ہر سال خرچ کرتے ہیں لیکن نتیجہ ! مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!
نظریات مذہبی ہوں یا غیر مذہبی، ان کا فروغ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ اس کی ترویج و اشاعت کس انداز میں کی جارہی ہے، آیا انداز عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے یا نہیں، ساتھ ہی یہ نقطہ سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے کہ تبلیغ کر کون رہا ہے؟ اگر نظریات کی ترسیل کا کام غلامانہ ذہنیت کےتابع ہے تو ایسے نظریات اپنوں کے درمیان ہی دم توڑ دیتے ہیں، آزادی کے بعد بھارت میں مسلمانوں کا اسلامی تبلیغ وترسیل کا انداز غلامانہ طرز کی ایک زندہ مثال ہے، آج اگر بھارت میں اسلام پھیل رہا ہے، تو اس میں مسلمانوں کا رول صفر ہے، مسلمان علماء صرف انہیں کو اسلام کی دعوت دے رہے ہیں جو پہلے مسلمان ہیں۔ غیرمسلموں کو اسلام سے روشناس کرانے کا بروقت پوری دنیا میں مسلمانوں کے پاس کوئی منظم طریقہ یا پلیٹ فارم نہیں ہے۔
دنیا میں کسی کا نظام یا نظریہ حیات صرف فاتح یا حصے دار کی حیثیت سے قابل قبول ہوتا ہے، مفتوح اقوام ہمیشہ تابعداری پر مجبور ہوتی ہیں، بھارت کے کسی بھی کونے پر نظر ڈال کر دیکھ لیں، بر وقت کہیں بھی مسلمان فاتح یا حصے دار کی پوزیشن میں نہیں ملے گا، حالانکہ یہ ایک تاریخی تلخ حقیقت ہے کہ بھارت میں مسلمان فاتح ہوتے ہوئے بھی مفتوح بن گیا ہے، موت اور گوبر کھانے والی قوم ان پر حکومت کر رہی ہے، مزید شرم کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود مسلمانوں کو ذلت کا احساس نہیں ہے۔
صحیح سمت میں کام نہ کرنے کا خمیازہ اس شکل میں بھگتنا پڑتا ہے کہ کام تو ہوتا نہیں البتہ جان کے لالےالگ سے پڑجاتے ہیں، بریلی سانحہ یا بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے سب کی ذمہ داری ہماری اپنی ہے، ہم نے آج تک مثبت طریق کار سے کام کیا ہی نہیں، جس بریلی کو مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنا مرکز مانتا ہے، دن کے اجالے میں حکومت اس کی مرکزیت پر بلڈوزر چلارہی ہے، مسلم نوجوانوں کو سرعام غیرقانونی طریقوں سے ذلیل کیا جارہا ہے، لیکن مجال ہے کہ ملک کی دوسری خانقاہیں آگے آکر اپنے مرکز کا دفاع کریں۔
فی الحال سانحہ بریلی پر تمام علماء اور خانقاہیں اپنے جنت نما ایئر کنڈیشن کمروں میں دبک کر حالات کے معمول پر آنے کا انتظار کر رہے ہیں، جیسے ہی حالات نارمل ہوں گے، برساتی مینڈکوں کی طرح پھر مذہبی اسٹیجوں سے چیخنے اور چلانے کا دور شروع ہو گا، فلک شگاف نعروں سے باطل کے قلعے مسمار کئے جائیں گے، عوام کی واہ واہی سے اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے جھوٹے معرکے سر کئے جائیں گے۔ مفتی اعظم ، شہنشاہ خطابت، قاضی القضاۃ سے نیچے کسی کا لقب نہیں ہوگا، کوئی فاتح اڑیسہ، تو کوئی قاطع نجدیت کہلائے گا، لیکن آج مرکز کے خون کی ضرورت پر سب خاموش ہیں ، بھیانک سناٹہ ہے۔
بریلی سانحہ آخری نہیں:
اللہ نے ایک نظام بنا دیا ہے جو قوم کام کرے گی اس کو ترقی ملے گی، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ صحیح سمت میں محنت کرنے والا غیرمسلم ہے یا مسلمان! نظام ہستی کی ڈور اسی کے ہاتھ میں ہوگی، جو اللہ کے طے کردہ اصولوں پر کام کرے گا، اگر خیر امت ہوتے ہوئے بھی ہم بے راہروی کا مظاہرہ کریں گے، تو سانحہ بریلی کیا؟ ہمارے اوپر فرعون، شداد، نمرود یا مودی اور یوگی کا مسلط کیا جانا بھی بعید نہیں، بس! تھوڑے دنوں تک اور جلسے جلوس اور مزاروں پر چادریں چڑھوا لو! عنقریب تم اس لائق بھی نہیں بچوگے، سب کی چوڑیاں ٹائٹ ہوں گی بس تھوڑا سا انتظار کیجئے۔





