بارہ بنکی(ابوشحمہ انصاری) مقامی ادبی تنظیم "بزمِ مدنی” کے زیرِ اہتمام ایک عظیم الشان مشاعرہ استاد شاعر مائل چوکھنڈوی کی یاد میں منعقد ہوا، جس کی صدارت عاصی چوکھنڈوی نے کی۔ اس یادگاری و تعزیتی مشاعرے میں ذکی طارق بارہ بنکوی نے بطور مہمانِ خصوصی اور عرفان بارہ بنکوی نے بطور مہمانِ ذی وقار شرکت کی، جب کہ نظامت کے فرائض ممتاز شاعر راشد ظہور نے نہایت خوبصورتی سے انجام دیے۔
مشاعرے سے قبل ذکی طارق بارہ بنکوی نے "اردو زبان میں اختصار” کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہااردو کی سب سے بڑی خوبی اس کی تہذیب اور اختصار ہے، ایک شعر میں کہی گئی بات کئی صفحات کے مقالے پر بھاری پڑتی ہے۔ ہمیں اس زبان کو صرف بولنا نہیں، برتنا بھی سیکھنا ہوگا۔
محفل کا آغاز اسد بارہ بنکوی کی دلنشین نعتِ پاک سے ہوا۔ اس کے بعد عاصی چوکھنڈوی نے استادِ محترم مائل چوکھنڈوی کی شخصیت اور شاعری پر پُراثر گفتگو کی اور ان کے ساتھ گزارے چالیس برسوں کی یادوں کو ایک غمگین مگر ادبی شان سے بیان کیا۔
پھر باقاعدہ مشاعرے کی شروعات ہوئی، جو دیر رات تک کامیابی اور جذبات کے تاثر کے ساتھ جاری رہا۔ ذیل میں منتخب اشعار قارئین کے ذوق کی نذر ہیں:
اس سے بڑھ کر بد نصیبی اور کیا ہوگی بھلا
دھوپ میں بیٹا کھڑا ہے ماں کا سایہ چھوڑ کر
عاصی چوکھنڈوی
اٹھا لیا ہے جو اس نے بڑھ کر
ہمارا گرنا اچھال سا ہے
ذکی طارق بارہ بنکوی
در پہ دستک ہوئی یوں لگا
شامِ غم کی سحر ہو گئی
عرفان بارہ بنکوی
میں نے سیکھا ہے سبق اس سے حیا داری کا
جس سے خود رب کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں
اثر سیدنپوری
میں تو رہتا ہوں بے خبر خود سے
جب وہ میرے قریب رہتے ہیں
راشد ظہور
سب بھٹکتے ہیں ابھی تک آستاں در آستاں
میری پیشانی کو تیرا سنگھ در اچھا لگا
مشتاق بزمی
تجھے اپنا کے ماں کو چھوڑ تو دیں
مگر قدموں میں جنت ہے کریں کیا
آفتاب جامی
تم حسینوں سے کبھی دل نہ لگانا دلکش
کیا پتہ کب یہ کرا دیں تمہیں کالا پانی
دلکش چوکھنڈوی
جہاں سے روشنی ملتی ہے چاند سورج کو
مرا چراغ بھی جلتا اسی دیار سے ہے
وکیل چوکھنڈوی
کٹ گیا ہے سر یہ میرا اس کا کوئی غم نہیں
جان دیدی مسجدِ اقصٰی جو تیری آن پر
مصباح رحمانی
تنگئ قبر بھی خیال میں رکھ
اتنا اونچا نہ گھر بنائے جا
راشد رفیق
جس میں اسیر تھا میں وہ زنجیر کیا ہوئی
آخر تمہاری زلفِ گرہ گیر کیا ہوئی
سحر ایوبی
کالے کوّے کے جیسا وہ کالا ہے پر
بولتا ہے ہمیں اک پری چاہئے
چٹک چوکھنڈوی
اے مری جانِ غزل تیری محبت کی قسم
منتظر تیرا میں رہتا ہوں مگر شام کے بعد
قمر سکندر پوری
بھوکا رہا تمہارا پڑوسی تمام رات
کیسے تمہارے حلق سے لقمہ اتر گیا
خالد بانسوی
کچھ سمجھ میں مرے نہیں آتا
خود سے کیسا ہے فاصلہ مجھ میں
ارشد بارہ بنکوی
تب تک حسین اور یہ دلکش نظارے ہیں
جب تک کہ والدین یہ گھر میں ہمارے ہیں
عاصم اقدس رامپوری
دور اپنا کبھی جب آئیگا
تم بچو گے نہیں بچانے سے
ماہر بارہ بنکوی
ماں نے سلایا جس طرح شفقت سے گود میں
پھر اس کے بعد ایسے سلایا نہیں گیا
السعود رامپوری
شام سے پہلے جو پہنچوں نہ میں گھر کو اپنے
میری ماں کو عجب ہو جاتا ہے ڈر شام کے بعد
ابوزر انصاری
ان شعراء کے علاوہ اقبال بانسوی اور نعیم سکندر پوری نے بھی اپنا کلام پیش کیا اور خوب داد و تحسین حاصل کی۔
مشاعرے کے اختتام پر "بزمِ مدنی” کے جنرل سکریٹری راشد رفیق نے تمام شعراء و سامعین کا شکریہ ادا کیا اور اعلان کیا کہ اگلا ماہانہ طرحی مشاعرہ 25 جون کو بعد نمازِ عشاء درج ذیل مصرع پر ہوگا:
"دل سے تمہاری یاد بھلانا محال ہے”
قافیہ: بھلانا، بتانا، نبھانا
ردیف: محال ہے