تحریر: ابوشحمہ انصاری سعادت گنج،بارہ بنکی
دنیا آج جس رفتار سے ترقی کر رہی ہے، وہ ہم سب کے لیے ایک کھلی دعوتِ فکر ہے۔ ہر قوم، ہر معاشرہ اور ہر فرد اپنے لیے بہتر مستقبل کی تعمیر میں سرگرم ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو بھی اپنے اجتماعی رویے اور کردار پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیا ہم واقعی اس ترقی کے سفر میں صرف تماشائی بنے ہوئے ہیں؟ کیا ہم محض تابعداری کو اپنی شناخت بنائے بیٹھے ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو یہ طرزِ فکر بدلنے کا وقت ہے۔ ہمیں اب تابعدار نہیں بلکہ ساجھے دار بننے کی ضرورت ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان جب جاگے، انہوں نے دنیا کو علم، حکمت، انصاف اور تہذیب کا سبق دیا۔ بغداد، قرطبہ، سمرقند اور دہلی کے تعلیمی و ثقافتی مراکز نے وہ علمی سرمایہ مہیا کیا۔ جس نے یورپ کے تاریک دور کو روشنی عطا کی۔ مگر بدقسمتی سے آج کا مسلمان اپنی ماضی کی عظمت کا صرف راوی ہے، وارث نہیں۔ وہ سکندر بننے کی بجائے صرف سکندر کی کہانیاں سناتا ہے۔ موجودہ دور میں اگر مسلمانوں کو اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنی ہے تو انہیں ہر شعبۂ زندگی میں فعال اور مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔
ساجھیداری کا مطلب ہے ترقی کے عمل میں عملی شرکت۔ یہ کوئی سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک فکری اور عملی تبدیلی کی دعوت ہے۔ مسلمان اگر تعلیم، معیشت، سیاست، میڈیا، سائنس، ٹیکنالوجی، اور ادب میں اپنی شرکت یقینی نہیں بناتے۔ تو وہ اپنی حالت زار پر جتنا بھی ماتم کریں، نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔ شکوہ کرنے والی قومیں کبھی قیادت نہیں کرتیں۔ قیادت اُن کے حصے میں آتی ہے جو عمل پر یقین رکھتی ہیں۔ جو اپنے حالات کو خود بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اور جو دوسروں پر انحصار کے بجائے خود اعتمادی کی راہ اپناتی ہیں۔
آج ہمیں اس فکری غلامی سے باہر نکلنا ہوگا۔ جس نے ہمیں اپنی طاقت کا احساس دلانا بند کر دیا ہے۔ تابعداری کا مفہوم یہی ہے کہ ہم اپنی راہیں خود متعین کرنے کے بجائے دوسروں کے فیصلوں کے محتاج بن جائیں۔ اس کے برعکس ساجھیداری ہمیں یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم ترقی کے نظام میں شراکت دار بنیں۔ نہ صرف اپنے لیے بلکہ پورے ملک اور معاشرے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں۔
اسلام ہمیں محض عبادت گزار بننے کی دعوت نہیں دیتا، بلکہ ایک باشعور، ذمہ دار اور سرگرم شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا پیغام دیتا ہے۔ قرآن بار بار تدبر، تفکر، علم حاصل کرنے اور عمل صالح کی تاکید کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں جو معاشرہ قائم کیا وہ ایک ماڈل سوسائٹی تھی۔ جہاں ساجھے داری کی اعلیٰ مثالیں قائم کی گئیں۔ وہاں فیصلہ سازی میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی شریک تھے۔ اور ہر فرد کو برابری کا درجہ حاصل تھا۔
ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں مسلمان ایک بڑی آبادی کا حصہ ہیں۔ لیکن اگر وہ محض اپنی اقلیت ہونے کی دہائی دیتے رہیں۔ صرف تحفظات و رعایتوں پر انحصار کریں گے، تو وہ اپنے حق کی آواز بھی کھو بیٹھیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو ہر میدان میں اس قابل بنائیں کہ ان کی شمولیت کو نظرانداز کرنا ممکن نہ ہو۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہم تعلیمی میدان میں ترقی کریں، معیشت میں خود کفیل بنیں، اور سیاسی بصیرت پیدا کریں۔
ہمارے نوجوانوں کو شکایتوں اور محرومیوں کے بجائے مواقع اور صلاحیتوں کی بات سکھانی ہوگی۔ انہیں مظلومیت کی نفسیات سے نکال کر قائدانہ کردار کی طرف لانا ہوگا۔ ہمیں انہیں علم، ہنر، کردار، اور خوداعتمادی سے آراستہ کرنا ہوگا تاکہ وہ نہ صرف اپنی تقدیر بدل سکیں بلکہ قوم کی رہنمائی بھی کر سکیں۔
ساجھیداری صرف مانگنے کا نام نہیں بلکہ دینے، سیکھنے، سکھانے، اور ساتھ چلنے کا عمل ہے۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم خود کو وقت کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ نہ کریں۔ جدید تعلیم، مہارت، اخلاق، اتحاد، اور بصیرت ہمارا ہتھیار بنیں، تو ہم ہر میدان میں نمایاں ہو سکتے ہیں۔
اگر ہم نے اب بھی وقت کو نہ پہچانا،اور تابعداری کہ جگہ ساجھیداری کو رول ماڈل نہیں بنایا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ ہمیں تابعداری کی زنجیروں کو توڑ کر ساجھیداری کی شاہراہ پر قدم رکھنا ہوگا۔ یہ صرف ہماری نہیں، ہمارے ملک کی بھی ضرورت ہے۔ ایک باشعور، تعلیم یافتہ، اور ترقی پسند مسلم سوسائٹی ہندوستان کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اور یہی ہماری بقاء کی ضمانت ہے۔
یاد رکھیے، زمانہ اُن ہی کا ہوتا ہے جو زمانے کے ساتھ چلنا جانتے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم صرف تماشائی نہ بنیں، بلکہ منظرنامے کا حصہ بنیں۔ ہم اپنے عزم، علم، عمل اور اخلاص سے ثابت کریں کہ ہم تابعدار نہیں، ساجھے دار ہیں۔