کانپور (محمد عثمان قریشی) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ شریعت و طریقت کے سنگم تھے۔آپ کو تقریبا 50 سے زیادہ علوم و فنون پر مکمل مہارت حاصل تھی آپ نے صرف آٹھ برس کی عمر میں ہی عربی زبان میں کتاب "شرح ھدایة النحو” تحریر فرمائی۔
آپ نے اپنی زندگی میں ہزاروں کتابیں تصنیف فرماکر علم کا ایک بڑا ذخیرہ دیا ۔خاص طور پر قرآن پاک کا اردو میں ترجمہ کیا جس کا نام کنز الایمان ہے ۔اور فتاویٰ رضویہ آپ کے ہزاروں فتاوے کا مجموعہ ہے جو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے جسکی روشنی میں آج بھی علماءفتویٰ جاری کرتے ہیں
اس علمی ذخیرہ کو فقہ اسلامی کا انسائکلو پیڈیاکہا جاتا ہے ان خیالات کا اظہارالجامعةالاسلامیہ اشرف المدارس گدیانہ میں آل انڈیا غریب نواز کونسل کے زیر اہتمام منعقدہ جشن اعلیٰ حضرت میں حضرت مولانا محمد ہاشم اشرفی صاحب قبلہ امام عید گاہ گدیانہ و قومی صدر آل انڈیا غریب نواز کونسل نے کیامولانا اشرفی نے کہا کہ اعلیٰ حضرت نے بے شمار سائنسی موضوعات پر مضامین اور مقالے لکھے ہیں
آپ نے تخلیق انسانی،بایو ٹیکنالوجی،جینیٹکس،الٹرا ساﺅنڈ مشین کے اصول کی تشریح ،ٹیلی کمیونیکیشن کی وضاحت،فلوڈ ڈائنا مکس کی تشریح ،ٹوپو لوجی،میڈیکل فیزیو لوجی،میٹرا لوجی،زلزلوں کی وجوہات وغیرہ تفصیل سے بیان کی ہے آپ عربی ،اردو، فارسی زبان کے ماہر ادیب اور شاعر بھی تھے تینوں زبانوںمیں آپ نے بہت عمدہ اشعار کہے ہیں آپ نے اپنے اشعار میں نحو ،صرف ،کلام،منطق ،فقہ وغیرہ فنون کے علمی اصطلاحات کا استعمال کیا
آپ کا شعری مجموعہ حدائق بخشش اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے آپ سادات کرام کا حد درجہ ادب کرتے تھے ۔آپنے عشق رسول کی جو شمع ہمارے دلوں میں روشن کی ہے وہ رہتی دنیا تک کوئی نکال نہیں سکتا ۔مولانا اشرفی نے اپنے بیا ن میں کہا کہ
مجدددین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کی ولادت بریلی میں ،10شوال1272ھ بروز سنیچر بوقت ظہر مطابق 14جون 1856 عیسوی کو ہوئی4 برس کی عمر میں آپ نے قرآن مجید ناظرہ کیا اور ،6 برس کی عمر میں منبر پرمجمع کے سامنے تقریر کی ارود، عربی،فارسی پڑھنے کے بعد اپنے والد حضرت مولانا نقی علی خاں سے تمام علوم عقلیہ ونقلیہ حاصل کئے تیرہ برس کی عمر میں فراغت حاصل کی اور اسی وقت سے فتویٰ نویسی شروع کر دی آپکی تصانیف تقریبا ،50فنون میں ہے آپنے علوم ومعارف کے وہ دریا بہائے کہ تلامذہ ومعتقدین سمیت معاصرین ومخالفین نے آپ کو قلم کا بادشاہ کہا
اسی وجہ سے آپکو علماءحرمین نے معزز القاب و خطابات سے نواز ا آپ نے پوری زندگی لوگوں کی اصلاح کی ان کو عشق رسول ،محبت اہل بیت،خدمت انسانیت،حق و صداقت،عدل و انصاف،محبت و بھائی چارہ ،احقاق حق اور ابطال باطل کا درس دیا 25صفر المظفر1340ھ مطابق 1921 کو جمعہ کے دن آپ کا وصال ہوا آپکا مزار بریلی کے محلہ سوداگران میں زیارت گاہ خاص وعام ہے آپ کا علمی فیضان ہندوستان سمیت پوری دنیا میں جاری ہے
آپ کے علمی سلسلہ سے وابستہ سینکڑوں علما،خطبا ،محدثین، مصنفین ،مفتیان کرام پوری دنیا میں اسلام و سنیت کی تبلیغ کر رہے ہیں مولانا فتح محمد قادری و مولانا محمود حسان اختر علیمی نے بھی خطاب کیے
اس سے قبل محفل کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے قاری محمد احمد اشرفی نے کیا اور نعت و منقبت کے نذرانے یوسف رضا کان پوری،محمد حسن شبلی اشرفی،حیدر علی نے پیش کئے نظامت کے فرائض حافظ محمد ارشد علی اشرفی نے بحسن و بخوبی انجام دیئے ۔
ملک کی ترقی وامن وامان کیلئے دعا کی گئی اس موقع پر بطور خاص قاری محمد آزاد اشرفی، حاجی محمد اسلم ،محمد عمار اشرف،حافظ محمد مسعود اشرفی ،مولانا سفیان مصباحی،مولانا انور رضا،مولانا گل محمد جامعی ،مولانا محب القادری،مولانامسعود مصباحی،حافظ محمد مشتاق،حافظ اعجاز احمد،حافظ نہال اشرفی وغیرہ موجود رہے