تحریر: ابوشحمہ انصاری سعادت گنج،بارہ بنکی
اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم ترین رکن "حج بیت اللہ” ہے، جو ہر اس مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے جو جسمانی، مالی اور سفر کی استطاعت رکھتا ہو۔
ہر سال ماہِ ذوالحجہ میں دنیا کے کونے کونے سے لاکھوں فرزندانِ توحید خانۂ کعبہ کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔ یہ سفر صرف زمین کا نہیں، دل کا بھی ہوتا ہے۔ حج محض ایک عبادت نہیں، بلکہ یہ روحانیت، اتحاد، قربانی، اور اطاعتِ رب کا بے مثال مظہر ہے۔
اس سال بھی ہندوستان سمیت دنیا بھر سے لاکھوں خوش نصیب مسلمان حج کی سعادت حاصل کرنے جا رہے ہیں۔ وزارتِ حج و عمرہ سعودی عرب کی جانب سے جدید ترین انتظامات کیے گئے ہیں، اور ہندستانی حج کمیٹی کی جانب سے حاجیوں کو ٹریننگ، ویکسین، رہائش، اور دیگر سہولیات کی فراہمی جاری ہے۔
حج پر روانہ ہونے والے قافلوں کی روانگی کے مناظر یقیناً ایمان کو تازہ کر دینے والے ہوتے ہیں، جب لبیک اللہم لبیک کی صدائیں فضا میں گونجتی ہیں، آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، اور دل جھوم اٹھتا ہے۔
حج کا آغاز ذوالحجہ کی آٹھ تاریخ کو ہوتا ہے جب حجاجِ کرام احرام باندھ کر منیٰ کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔ منیٰ میں قیام، پھر نویں تاریخ کو عرفات کا میدان۔جہاں لاکھوں انسان صرف ایک سفید لباس میں، نہ کوئی بادشاہ نہ فقیر، سب برابر، سب عاجز، سب بندگی کے اظہار میں یکساں۔ عرفات کا دن حج کا سب سے بڑا دن کہلاتا ہے، اور اس دن کی عبادت، دعا اور توبہ ایک نئی زندگی کی نوید بن سکتی ہے۔
غروبِ آفتاب کے بعد حجاج مزدلفہ کی جانب روانہ ہوتے ہیں جہاں وہ کھلے آسمان تلے شب بیداری کرتے ہیں، اور اگلے روز یعنی دس ذوالحجہ کو رمی جمرات، قربانی اور حلق یا قصر کے بعد احرام کھول دیتے ہیں۔ اسی دن عید الاضحی منائی جاتی ہے جو حضرت ابراہیمؑ کی سنت کی یادگار ہے۔ قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں بلکہ اپنی انا، خودغرضی اور دنیاوی خواہشات کو ذبح کرنے کی علامت ہے۔
صفا و مروہ کی سعی ہمیں حضرت ہاجرہؑ کے ایثار، صبر اور یقین کی یاد دلاتی ہے، جب وہ اپنے شیرخوار بچے کے لیے پانی کی تلاش میں دو پہاڑیوں کے درمیان دوڑیں۔ ان کا یہ عمل آج قیامت تک کی انسانیت کے لیے درسِ یقین ہے۔ حج کے تمام اعمال ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں بندگی کے اعلیٰ معیار سے روشناس کراتے ہیں۔
مکہ و مدینہ کے مقدس مقامات پر حاضری کا موقع صرف جسمانی موجودگی نہیں بلکہ روحانی بیداری کا ذریعہ ہے۔ حجاج کرام جب واپس لوٹتے ہیں تو صرف حج مکمل کرنے والے نہیں بلکہ ایک نئے، پاکیزہ، بہتر اور نیک انسان کی صورت میں لوٹتے ہیں۔ حج ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا عارضی ہے، اصل کامیابی وہی ہے جو رب کی رضا میں ہے۔
یہ وقت صرف عبادت کا نہیں، خود احتسابی کا بھی ہے۔ حج ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے اندر کے تکبر، حسد، لالچ، اور دشمنی کو ختم کریں۔ جیسے ہم منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں، ویسے ہی ہمیں اپنے باطن کے شیطانوں کو بھی مٹانا ہے۔ جیسے احرام پہن کر دنیاوی فرق مٹا دیتے ہیں، ویسے ہی ہمیں اپنی سوچوں سے بھی فرق و امتیاز کو ختم کرنا ہے۔
موجودہ دور میں جب دنیا مذہبی، سیاسی، اور سماجی خلفشار کا شکار ہے، حج بیت اللہ ہمیں اجتماعیت، امن، محبت، اور انسانیت کا پیغام دیتا ہے۔ ایک ہی لباس، ایک ہی نعرہ، ایک ہی رب، اور ایک ہی مرکز۔یہی حج کی روح ہے۔
ہمیں چاہیے کہ حج کے ان روحانی پیغامات کو اپنی زندگیوں میں اتاریں۔ عبادات کا اثر صرف مسجدوں میں محدود نہ ہو بلکہ ہمارے کردار، گفتار، معاملات اور رویّوں میں جھلکے۔ اگر ہر حاجی حج کے بعد خود کو بدلنے کی سعی کرے، تو یہ تبدیلی صرف فرد تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے معاشرے میں خیر کا پیغام پھیل جائے گا۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہر مسلمان کو حج کی سعادت نصیب فرمائے، اور جنہیں یہ نعمت حاصل ہو چکی ہے انہیں حجِ مبرور اور مقبول حج کی برکتوں سے مالامال فرمائے۔ آمین۔