از: مولانا عطاء الرحمن فیضی، مظفر العلوم سرسیا
ولادت و ابتدائی حالات
حضرت سید احمد انجم عثمانی رحمہ اللہ کی ولادت 2 جنوری 1946 میں ضلع سدھارتھ ، شہرت گڑھ تحصیل حلقہ کے موضع بگولہوا قاضی (یوپی، بھارت) میں ایک علمی و روحانی خانوادے میں ہوئی۔ بچپن ہی سے آپ کی طبیعت علم و دین کی طرف مائل تھی۔ گھر کا ماحول نہایت دینی تھا، جس نے آپ کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا۔
تعلیمی سفر
ابتدائی تعلیم اپنے والدین اور قریبی بزرگ علماء سے حاصل کی۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے مختلف دینی مراکز کا سفر اختیار کیا۔ قرآن، حدیث، فقہ، منطق، فلسفہ، کلام اور دیگر علوم میں مہارت حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں اپنے وقت کے اکابر مشائخ اور جید علماء شامل تھے۔
اسی دور میں آپ کو علمی سندوں کے ساتھ ساتھ روحانی خلافت و اجازت بھی عطا ہوئی۔
تدریسی و علمی خدمات
حضرت نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ درس و تدریس میں گزارا۔
- ہزاروں طلبہ نے آپ سے علم حاصل کیا، آپ سے فیض یافتہ ہزاروں علماء آج ملک اور بیرون ملک میں دین کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
- دارالعلوم فیض الرسول (براؤں شریف) اور دیگر مدارس اہل سنت کی تعمیر و ترقی میں آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔
- آپ کا درس صرف علمی نہیں بلکہ اصلاحی و روحانی تربیت کا ذریعہ بھی تھا۔
- آپ قرآن مجید کی تفسیر و بیان میں خاص ملکہ رکھتے تھے اور سامعین کو دل سے متاثر کرتے تھے۔
تصوف و خلافت
حضرت انجم العلماء کا سلسلہٴ تعلق صوفیائے کرام کے عظیم سلاسل سے تھا۔
- سلسلہٴ عالیہ چشتیہ و قادریہ سے وابستگی تھی۔
- حضرت شعیب الاولیاء اور دیگر مشائخ کرام سے خلافت و اجازت پائی۔
- ذکر و اذکار، تزکیہٴ نفس اور اصلاحِ باطن میں آپ کی محفلیں نورانی اور اثر انگیز ہوا کرتی تھیں۔
اوصاف و خصوصیات
حضرت کی شخصیت میں کئی خوبیاں یکجا تھیں:
- عاجزی و انکساری آپ کی طبیعت میں رچی بسی تھی۔
- مہمان نوازی اور خوش اخلاقی آپ کا خاص وصف تھا۔
- طلبہ اور عوام سے بے پناہ محبت کرتے۔
- آپ کی علمی گہرائی اور خطابت سامعین کے دلوں کو جلا بخشتی۔
- قرآن کی تفسیر و بیان میں خاص مہارت رکھتے تھے۔
زوجہٴ محترمہ
حضرت کی اہلیہ محترمہ بھی ایک نیک، صابر اور متقی خاتون تھیں۔
- انہوں نے ساری زندگی شوہر اور خاندان کی خدمت میں بسر کی۔
- عبادت گزاری اور دین داری میں اپنی مثال آپ تھیں۔
- ان کی شخصیت آج کی خواتین کے لئے مشعلِ راہ ہے۔
وصال
28 مارچ 2006 میں حضرت انجم العلماء نے اس فانی دنیا سے رخصت اختیار کی۔ آپ کے وصال سے اہل سنت و جماعت کو شدید صدمہ پہنچا اور ایک بڑا علمی و روحانی خلا پیدا ہوگیا۔
حضرت کے وصال کے تعلق سے رواں سال 2025 مورخہ 22 اگست کو سرزمین بگولہوا قاضی میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں مفسر قرآن نبیر شعیب الاولیاء خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ حضرت علامہ سید احمد انجم عثمانی علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات پر ایک تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی۔
پروگرام کی سرپرستی پیر طریقت،گل گلزار عثمانیت، نبیر شعیب الاولیاء، حضرت علامہ مولانا الحاج محمد اشرف الجیلانی، عرف شمیم انجم عثمانی، سجادہ نشین خانقاہ عالیہ قادریہ چشتیہ عثمانیہ قاضی بگولہوا شریف سدھارتھ نگر یوپی و سربراہ اعلیٰ سنی علماء بورڈ اترپردیش فرما رہے ہیں۔
علمی و روحانی وراثت
حضرت کا سب سے بڑا سرمایہ ان کے تربیت یافتہ شاگرد، قائم کردہ مدارس، اور قرآن و سنت کی تعلیمات کی اشاعت ہے۔
- آپ کی علمی و روحانی وراثت آج بھی زندہ ہے۔
- آپ کے شاگرد اور ادارے آپ کی یاد اور خدمات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
حضرت علامہ سید احمد انجم عثمانی رحمہ اللہ ایک عالمِ ربانی، مفسرِ قرآن، صوفیِ باصفا، اور مصلحِ امت تھے۔ ان کی پوری زندگی دین و ملت کی خدمت کے لئے وقف رہی۔ آپ کی حیات، آج کے علماء، طلبہ اور عوام سب کے لئے ایک روشن مثال ہے۔