از: شفیق فیضی
ملک اور عالمی پیمانے پر اسلاموفوبیا میں اضافہ، اتنا تشویشناک مسئلہ نہیں، جتنا تکلیف دہ اور ناقابل تلافی نقصان "خودی” کو نہ سمجھنا اور "احساس زیاں” کا فقدان ہے۔ زوال کا احساس ہی انحطاط سے نکلنے کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ملت اسلامیہ کا یہی احساس زیاں مردہ ہوگیا۔ مرض کا تعین نہ ہو تو علاج نہیں ہوپاتا، اسی طرح نقصان کا ادراک نہ ہو، تو اس کی بھرپائی بھی نہیں ہوپاتی۔ قومی ترقی یا معاشرتی اصلاح اور تہذیبی عروج و ارتقاء کی بنیاد، اسی احساس زیاں اور خودی کی شناسی پر انحصار کرتی ہے۔
احساس زیاں کے نقصان:
احساس زیاں کا فقدان اگر عوامی سطح پر ہو، تو خواص کی تحریک سے اسے دوبارہ بحال کیا جاسکتا ہے، جس سے قومی اور ملی عظمت رفتہ کی تعمیر نو بآسانی ممکن ہے۔ لیکن اگر یہی عدم "احساس زیاں” قومی اور ملی رہنماؤں میں پروان چڑھ جائے، تو اس قوم یا ملت کی حالت ناسور جیسی ہوجاتی ہے۔
قوم یا ملت کی اخلاقی قدریں فرسودگی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ انسانی معاشرہ مادر پدر آزاد سلوک کو ترقی کا معیار سمجھ بیٹھتا ہے، مرد اور عورت کے درمیان صنفی فرق کو دقیانوسی اور قدامت پرستی مان کر مساوات کے نام پر عورتوں کے استحصال کی راہ ہموار کرتا ہے۔ معاشی اور تجارتی اصول انسانیت کی فلاح کے بجائے سرمایہ داروں کی ترجیحات بن جاتے ہیں۔ تعلیمی مقاصد خیر و شر کے درمیان امتیاز کی جگہ، حصول دولت کے ذریعہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
خودی اور احساس زیاں کیا ہے؟
خودی کی شناسی یا زیاں کا احساس، ایسی کوئی چیز نہیں ہے، جو کسی کام یا عمل کے عوض، اجرت میں ملتی ہو، دراصل "احساس زیاں” میں "زیاں” سے مراد وہ "خودی” ہے جو من جانب اللہ ہر بندے کو عطا ہوئی، خواہ وہ کسی بھی قوم یا ملت سے ہو، خودی ایک ایسا احساس ہے جس کا علم بندے کو خالق حقیقی سے ملادے، اسی احساس خودی کا ادارک کرانے کے لئے اللہ نے آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ تک اور نبی آخرالزماں کو اپنی نیابت عطا فرمائی، خالق و مخلوق کے مابین کوئی حجاب نہ رہے، اس لئے اللہ نے ہر انسان کو خلیفۃ اللہ فی الارض کے منصب پر فائض کیا۔
خودی کی شناسی اوراحساس زیاں کا قدرتی انتظام:
عام انسان منصب خلافت سے منھ نہ موڑے، اس کے لئے ہر قوم اور ملت میں اپنے خاص بندے بھیج کر ، بندوں کو ان کی خودی کا احساس دلوایا۔ خودی کا احساس دلانے کا سلسلہ منقطع نہ ہوجائے، اس لئے نبوت اور رسالت کا سلسلہ تھمنے سے پہلے ہی اس کی ذمہ داری امت کے علماء پر عائد فرما دی۔ ماضٰ میں جب بندوں میں خودی کا احساس جاگا، تو قیصر و کسریٰ کے تخت و تاج ان کے قدموں میں آگرے، عرب سے عجم، اور مشرق سے مغرب تک پوری دنیا، احساس خودی کے، ان متوالوں کے سامنے سرنگوں ہوگئی۔
آج پوری دنیا کے مسلمانوں میں احساس خودی کا عنصر ناپید ہوگیا، اور اس کا احساس زیاں بھی جاتا رہا، نتیجے میں ذلت و رسوائی، عالم اسلام کا مقدر بن گئی۔ چونکہ کسی چیز کے ہونے یا نہ ہونے کا احساس ہی اس کے عروج و زوال کا راستہ طے کرتاہے، اس لئے کامیابی یا ترقی کے لئے سب سے پہلے "احساس زیاں” کا ہونا بہت ضوری عمل ہے۔
موجودہ نظریہ:
دنیا میں کامیابی کے معیار قدرتی اعتبار سے پہلے ہی طے ہیں، اس کے باوجود کسی بھی فیلڈ میں کامیابی کے لئے ایک ماسٹرپلان تیار کیا جاتا ہے۔ مشن کامیابی حاصل کرے تو اس میں مزید بہتری لانے کی تدبیریں کی جاتی ہیں اور اگر پلان ناکامی سے دوچار ہوجائے تو از سرے نو پورے پلان کا جائزہ لیا جاتا اور اس بات کی تحقیق کی جاتی ہے کہ چوک کہاں ہوئی؟
ناکامی کا یہی احساس ” احساس زیاں” اور اپنے مقصد کو پہچاننا، "خودی” کہلاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح انسان کا اپنے وجود سے آشنا ہونا احساس خودی جبکہ اسی کا عدم احساس "احساس زیاں” کہلاتا ہے.
حقیقی صورتحال:
ملک کے اطراف و اکناف میں سیکڑوں اور ہزاروں ایسے واقعات روزآنہ جنم لے رہے ہیں، جو کسی بھی غیرت مند انسان کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہیں، مسجدیں شہید کی جارہی ہیں، لیکن کوئی فرق نہیں پڑتا، مدارس کو بلڈوز کیا جارہا ہے، اس کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں، نہ جانے کتنے بزرگوں کی قبریں اور امت کی عباد گاہیں بتکدوں میں تبدیل ہوگئیں، لیکن پوری امت کو اس نقصان کا احساس نہیں رہا، مٹھی بھر انگلیوں پر شمار ہونے والے کچھ افراد چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ حالات کا رخ ہمارے خلاف ہوگیا ہے، لیکن علماء بشمول دانشور اور سرمایہ دار مسلمانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتا، وہی جلسے جلوس اور مزارات پر چادر چڑھانے کو اسلام بتایا جارہا ہے۔
تباہی کی اصل وجہ:
کسی کا خیال اس جانب نہیں جاتا ہے کہ جس کو یہ اسلام کی خدمت سمجھ کر انجام دے رہے ہیں، یہی تباہی کی اصل وجہ ہیں، کیونکہ ان مشاغل کے چکر میں میں امت نے اصل کام کرنے سے منھ پھیر لیا، مسلمان اس دنیا میں جلسے جلوس اور مزارات پر چادریں چڑھانے کے لئے نہیں بھیجا گیا، آدم کی اولاد اس زمیں پر خالق حقیقی کے نظام اور اس کے دین کی سربلندی کے لئے بھیجی گئی ہے، خدا کے لئے اپنے یہاں آنے کے مقصد کو سمجھیں، جہالت اور گمراہی سے پوری قوم کو باہر نکالیں، ورنہ حالات کا اشارہ بتاتا ہے۔۔۔ بس کچھ ایام اور ٹھہرو آپ میلاد اور چادر چڑھانے کے لائق بھی نہیں رہ پاؤگے۔
اسلاموفوبیا کوئی مسئلہ نہیں:
جیساکہ میں نے شروع میں کہا کہ اسلاموفوبیا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے جتنا مشکل اور افسوسناک امر احساس زیاں کا جانا ہے۔ بات عالمی سطح پر کی جائے یا ملکی، ہر جگہ امت کی تباہی کے اسباب و علل تقریباً مساوی ہیں۔ ملت اگر اس بات کو سمجھ لیتی ہے کہ اس کا مقصد حیات کیا ہے تو اسلاموفوبیا اسلام کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب بن سکتا ہے، یوروپ اور امریکہ اس کی تازہ مثال ہیں۔ جہاں اسلاموفوبیا کے بکھراؤ کے ساتھ ساتھ اسلام پر تحقیقات نے سب سے زیادہ جنم لیا۔ اگر قوم کو اپنے نفع نقصان اور مقصد حیات کا حقیقی علم ہوجائے تو اس کو حاصل کرنے کے لئے دن رات ایک کر دے گا، مگر افسوس اسی بات کا ہے کہ امت اپنے مقاصدسے بھٹک چکی ہے۔ اورامت کو ان حالات سے نکالنے کی جن کی ذمہ داری ہے وہ خواب خرگوش میں مبتلا ہیں۔
ذمہ داری کس پر عاید ہوتی ہے؟
"خودی کا احساس” ہو یا پھر "احساس زیاں” دونوں سے ملت کو روشناس کرانا انبیاء اور رسل کے بعد علماء کرام کی ذمہ داری ہے، لیکن بدقسمتی سے علماء کا ایک بہت بڑا طبقہ درس و تدریس اور جلسہ و جلوس کو دین کی خدمت اور اسلام کی ترویج و اشاعت سمجھتا ہے، حالانکہ اس میدان میں بھی علماء کی خدمات بروقت انتہائی سطحیت کا شکار ہے، پہلے مدارس سے مدرس، محدث، مفکر، مقرر، نعت خواں اور محرر پیدا ہوا کرتے تھے، اب چند ایک کو چھوڑ دیا جائے تو باقی فلمی ایکٹر، اور گوے نکلتے ہیں، جو خود، خودی کے احساس سے خالی اور احساس زیاں سے عاری ہوتے ہیں، ایسے میں امت کے سامنے ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ جہالت اور خرافات کے لامتناہی سمندر میں غرقآب ہوجائے۔
خودی کا احساس کیسے ہو؟
سب سے پہلے خود کو منصب خلافت کے مستحق کہنے والے علماء اپنی انا کو خیرآباد کہیں، کسی اور سے امید لگانے کے بجائے خود آگے آکر ملی مسائل کے لئے فنا ہونے کو ترجیح دیں، اسی فنا ہونے میں ان کی اور پوری امت مسلمہ کی حقیقی زندگی کا راز پنہاں ہے۔ اس بات کو تسلیم کریں کہ ہمارا ٹھکانہ دنیا نہیں، آخرت ہے، اس فانی زندگی کے بعد ہی ہماری حیات جاودانی کی شروعات ہوگی، ہمارا مال، ہماری جان اور ہماری اولاد سب، اللہ کی امانت ہے، جس میں ہم خیانت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
اسلام میں فرد کی حیثیت ایک قوم کی ہے۔ اس لئے اپنی ذات پر قوم کو فوقیت دی جائے، انفرادیت کے مقابلے اجتماعیت کو اختیار کریں، خود کے پیٹ کی فکر چھوڑ کر غریب عوام کی فکر کیجئے، اور یہ سب صرف اسی صورت انجام پا سکتا ہے جب ہم اپنے اندر احساس زیاں کو جنم دیں اور احساس زیاں اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ہم "خودی” کو پہچان نہیں لیتے۔