تحریر۔ابوشحمہ انصاری سعادت گنج،بارہ بنکی
سیاست کو عام طور پر اقتدار کی کشمکش اور حکومت کے کھیل کے طور پر دیکھا جاتا ہے، مگر درحقیقت سیاست ایک مسلسل فکری اور سماجی عمل ہے، جو عوام کے شعور، ان کی سوچ اور اجتماعی بیداری سے تشکیل پاتا ہے۔ کسی بھی جمہوری قوم کی سیاست اس کے عوام کی ذہنی سطح اور فکری تربیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ جہاں عوام باشعور ہوں، وہاں سیاست خدمت، ترقی اور انصاف کی علامت بن جاتی ہے۔
عوامی شعور دراصل کسی بھی قوم کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ وہ قومیں جنہوں نے علم، فہم، اور بصیرت کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا، وہاں سیاست نے بھی انسانیت کی خدمت کا روپ اختیار کیا۔ لیکن جہاں شعور کی روشنی مدھم پڑ جائے، وہاں سیاست بھی کمزوریوں، مفاد پرستی، اور جذباتیت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ اس لیے کسی ملک کی سیاسی سمت اس کے عوام کی فکری پختگی پر منحصر ہوتی ہے۔
ایک باشعور شہری صرف ووٹ دینے والا فرد نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنی رائے، اپنی آواز، اور اپنے فیصلے کی اہمیت سمجھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جمہوریت میں خاموشی کمزوری ہے، اور بیداری ہی طاقت ہے۔ جب عوام اپنے نمائندوں سے سوال کرتے ہیں، ان کے فیصلوں کا محاسبہ کرتے ہیں، تو سیاست خودبخود شفافیت اور خدمت کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے۔ یہی احتساب جمہوریت کی اصل روح ہے۔
تعلیم و آگہی عوامی شعور کی بنیاد ہیں۔ جب نوجوان نسل کو علم کے ساتھ ذمہ داری اور فہمِ اجتماعی دی جاتی ہے، تو وہ مستقبل کی سیاست میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں اگر فکر و بصیرت کی تربیت ہو، تو آنے والے قائدین اقتدار نہیں، خدمت کے جذبے سے سیاست میں قدم رکھیں گے۔ علم ہی وہ چراغ ہے جو سیاست کے راستے کو اجال سکتا ہے۔
ذرائع ابلاغ اور سماجی ادارے بھی عوامی بیداری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ میڈیا اگر سنجیدگی اور توازن سے اپنی ذمہ داری نبھائے تو وہ عوام کو نہ صرف خبریت بلکہ بصیرت بھی فراہم کر سکتا ہے۔ اسی طرح ادبی انجمنیں، تعلیمی تنظیمیں، اور سماجی تحریکیں اگر اپنی توانائی عوام کے فکری ارتقا پر صرف کریں، تو سیاست ایک مقدس اور تعمیراتی عمل کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔
سیاست معاشرے کی اجتماعی سوچ اور کردار کی عکاس ہوتی ہے۔ اگر معاشرہ انصاف، رواداری، اور علم پر قائم ہو تو سیاست میں بھی انہی قدروں کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن اگر معاشرہ جذباتیت، تعصب، اور خود غرضی میں الجھا رہے، تو سیاست بھی انہی خامیوں کی تصویر بن جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم سیاست کو بدنام کرنے کے بجائے خود کو بہتر بنانے کی کوشش کریں، کیونکہ سیاست عوام سے الگ کوئی شے نہیں ،وہ انہی کے شعور کا عکس ہے۔
آج کے بدلتے ہوئے دور میں جب دنیا علم، ٹیکنالوجی، اور نئے نظریات کی طرف بڑھ رہی ہے، ہمیں بھی اپنی سیاسی سوچ کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ اب سیاست کا مطلب صرف حکومت بنانا یا گرانا نہیں، بلکہ عوامی فلاح، شفاف طرزِ حکمرانی، اور اجتماعی ترقی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور اپنی رائے علم و شعور کی بنیاد پر قائم کریں۔
اگر ہم سیاست کو محض اقتدار کے حصول کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے اسے خدمت، کردار، اور اعتماد کی بنیاد پر دیکھیں تو ہمارے سماج کی صورت بدل سکتی ہے۔ باشعور عوام ہی بہتر سیاست کو جنم دیتے ہیں، اور بہتر سیاست ہی ایک مضبوط قوم کی ضمانت بنتی ہے۔
سیاست اس وقت بامقصد بنتی ہے جب عوام بیدار ہوں، ان کے اندر حق و باطل میں تمیز کی صلاحیت ہو، اور وہ اپنی رائے کو سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے، نظام میں شفافیت آتی ہے، اور قیادت کا معیار بلند ہوتا ہے۔
درحقیقت، سیاست کسی فرد یا طبقے کا نہیں، پورے معاشرے کا شعوری سفر ہے۔ جب یہ سفر علم، آگہی، اور خدمت کے جذبے سے طے کیا جائے تو اس کے نتائج ہمیشہ روشن اور پائیدار ہوتے ہیں۔ سیاست کو اگر ہم سماجی شعور کی تکمیل سمجھیں، تو یہی شعور آنے والے کل کی روشنی بن سکتا ہے۔




