از۔ صاحبزادہ محمد افسرعلوی قادری چشتی
رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے جو بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت کی حامل رات ہے۔ اس رات کو اللہ تعالی نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ اس لئے ” خیر من الف شھر‘ ‘کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اللہ کریم جتنا زیادہ اجر عطا فرمانا چاہے عطا کر دے گا۔ اس اجر کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے۔
قرآن مجید کی ابتدائی آیات غارِ حرا میں رمضان المبارک میں لیلتہ القدر کو نازل ہوئیں۔ جس رات میں اللہ تعالیٰ کا پیغا مِ ہدایت نازل ہوا اس سے بڑھ کر خیر و برکت والی رات چشم فلک نے نہ دیکھی اور نہ دیکھے گا۔ سورۃ البقرہ کی آیت 185 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
"رمضان و ہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا”۔ لیلتہ القدر کی فضیلت سورہ دحٰان کی آیت نمبر 3 میں یوں فرمائی گئی ہے۔ "ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل فرمایا ہے”۔ رمضان المبارک کی وہ رات جس میں قرآن نازل کیا گیا اسے لیلتہ القدر یا شبِ قدر کہتے ہیں۔
شب قدر کا معنی و مفہوم:
امام زہری فرماتے ہیں کہ قدر کے معنی مرتبہ کے ہیں، چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے اس لئے اسے ” لیلة القدر“ کہا جاتا ہے۔(تفسیر القرطبی )
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ لیلتہ القدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو یعنی 29-27-25-23-21 تاریخ کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات لیلۃ القدر ہے۔ علمائے کرام نے 27 ویں شب کو ہی لیلتہ القدر ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس مبارک رات میں عبادت کے لئے کھڑا رہے گا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
شب قدر احادیث کی روشنی میں:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب شب قدر ہوتی ہے، تو جبرائیل امین علیہ السلام ملائکہ کی جماعت میں اترتے ہیں اور ہر قیام و قعود کرنے والے بندے پر جو خدا تعالیٰ کے ذکر و عبادت میں مشغول ہو (اس کیلئے) دُعا کرتے ہیں‘‘ (بیہقی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس شخص نے ایمان اور اخلاص کے ساتھ ثواب کے حصول کی غرض سے شب قدر میں قیام کیا (عبادت کی) تو اس کے سارے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘(بخاری شریف و مسلم شریف)
شب قدر کو کن راتوں میں تلاش کریں؟
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو (بخاری، مشکوۃ)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا شب قدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں، یعنی 21، 23، 25، 27 اور 29 کی رات میں ہے، جو شخص ثواب کی نیت سے ان راتوں میں عبادت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیتا ہے۔
اس رات کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ یہ رات کھلی ہوئی اور چمکدار ہوتی ہے، صاف و شفاف گویا انوار کی کثرت کے باعث چاند کھلا ہوتا ہے، یہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی بلکہ معتدل ہوتی ہے، اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے بعد صبح کو سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے، بالکل ہموار ٹکیہ کی طرح جیسا کہ چودھویں کا چاند، کیونکہ شیطان کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ اس دن سورج کے ساتھ نکلیں (مسند احمد، جلد 5ص 324، مجمع الزوائد)
شب قدر کو پوشیدہ رکھنے میں حکمتیں:
- علماء کرام نے شب قدر کے پوشیدہ ہونے کی بعض حکمتیں بیان فرمائی ہیں جو درج ذیل ہیں۔اگر شب قدر کو ظاہر کر دیا جاتا تو کوتاہ ہمت لوگ اسی رات کی عبادت پر اکتفا کر لیتے اور دیگر راتوں میں عبادات کا اہتمام نہ کرتے۔ پوشیدہ رکھنے کی صورت میں لوگ آخری عشرے کی پانچ راتوں میں عبادت کی سعادت حاصل کر لیتے ہیں۔
- شب قدر ظاہر کر دینے کی صورت میں اگر کسی سے یہ شب چھوٹ جاتی تو اسے بہت زیادہ حزن و ملال ہوتا اور دیگر راتوں میں وہ دلجمعی سے عبادت نہ کر پاتا، اس کے برخلاف رمضان کی پانچ طاق راتوں میں سے دو تین راتیں اکثر لوگوں کو نصیب ہو ہی جاتی ہیں۔
- اگر شب قدر کو ظاہر کر دیا جاتا تو جس طرح اس رات میں عبادت کا ثواب ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ ہے، اسی طرح اس رات میں گناہ بھی ہزار درجہ زیادہ ہوتا، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ اس شب میں عبادت کریں وہ ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ اجر و ثواب پائیں اور اگر اپنی جہالت و کم نصیبی سے اس شب میں بھی گناہ سے باز نہ آئیں تو انہیں شب قدر کی توہین کرنے کا گناہ نہ ہو۔
- شب قدر کا پوشیدہ رکھنا اسی طرح سمجھ لیجئے جیسے موت کا وقت نہ بتانا، کیونکہ اگر موت کا وقت بتا دیا جاتا تو لوگ ساری عمر نفسانی خواہشات کی پیروی میں گناہ کرتے اور موت سے عین پہلے توبہ کر لیتے، اس لئے موت کا وقت پوشیدہ رکھا گیا تاکہ انسان ہر لمحہ موت کا خوف کرے اور ہر وقت گناہوں سے دور اور نیکی میں مصروف رہے، اسی طرح آخری عشرے کی ہر طاقت رات میں بندوں کو یہی سوچ کر عبادت کرنی چاہئے کہ شاید یہی شب قدر ہو، اسی طرح شب قدر کی جستجو میں برکت والی پانچ راتیں عبادت الٰہی میں گزارنے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔