پریس کلب لکھنؤ میں افسانوی مجموعہ "شیشے کے اس پار” کی یادگار تقریبِ اجراء
لکھنؤ (ابوشحمہ انصاری) اترپردیش پریس کلب میں ممتاز افسانہ نگار ڈاکٹر عافیہ حمید کے تازہ افسانوی مجموعہ "شیشے کے اس پار” کی رسمِ اجرا ایک پُروقار اور یادگار تقریب میں انجام پائی۔ تقریب کی صدارت ڈاکٹر اعظم نے کی، جبکہ مہمانِ خصوصی کے طور پر کانپور سے تشریف لائے معروف نقاد ڈاکٹر جاوید ساحل شریک ہوئے۔ مہمانانِ اعزازی میں ڈاکٹر جہاں آرا سلیم، ڈاکٹر پروین شجاعت اور مینا عرفان شامل رہیں۔ نظامت کے فرائض مؤثر اور رواں انداز میں ڈاکٹر ہارون رشید نے انجام دیے۔
تقریب کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا، جس کا شرف زہرا رفیق نے حاصل کیا۔ بعد ازاں ماہ پارہ ماہی نے حمد اور جنت فاطمہ نے نعت کا نذرانہ پیش کیا۔ صدرِ جلسہ ڈاکٹر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ عافیہ حمید کے افسانے انسانی نفسیات کے نہایت باریک اور فنکارانہ ترجمان ہیں، جو غیر ضروری طوالت سے پاک اور فنی نزاکتوں سے مزین ہیں۔ مہمانِ خصوصی ڈاکٹر جاوید ساحل نے کہا کہ موجودہ دور میں افسانہ تیزی سے افسانچے کی طرف بڑھ رہا ہے، مگر عافیہ نے طویل افسانے اور مختصر افسانچے کے درمیان ایک منفرد اور قابلِ تحسین اسلوب پیدا کیا ہے۔
ڈاکٹر آفتاب عالم نجمی نے اپنے مقالے میں کہا کہ عافیہ کے افسانے ایجاز و اختصار کے باوجود جزئیات نگاری کی خوبصورتی سے بھرپور ہیں، جو انہیں فنی لحاظ سے منفرد بناتے ہیں۔ پروفیسر ریشماں پروین نے کہا کہ عافیہ کے افسانے ترقی پسند تحریک کی گونج رکھتے ہیں اور عصمت چغتائی و رشید جہاں کی روایت میں سماج کے ناسوروں کو بے باکی سے پیش کرتے ہیں۔ شیشے کے اس پار میں شامل 25 افسانے عصری مسائل پر جرات مندانہ مکالمے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ام ایمن نے کہا کہ عافیہ کا اسلوب رواں، زبان سادہ اور مشاہدہ نہایت گہرا ہے، جس نے انہیں نئے مگر معتبر افسانہ نگاروں کی صف میں شامل کر دیا ہے۔ عبدالقدوس نے اس مجموعے کو افسانچوں کے زمرے میں رکھتے ہوئے مشورہ دیا کہ آئندہ ایڈیشن میں اسے اسی عنوان سے شائع کیا جائے۔
اس موقع پر ڈاکٹر جہاں آرا سلیم، ڈاکٹر پروین شجاعت، مینا عرفان، ڈاکٹر رابعہ قریشی، ڈاکٹر نادرہ پروین اور مقسوم ندوی نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ شعرا میں پروفیسر شیخ عبدالحمید، معید رہبر، سلیم تابش، عزم گونڈوی، شگفتہ انجم ،تیمور احمد، تزکیہ احمد، عامر مختار، ضیا اللہ ندوی، حمزہ حسینی، محمد اویس سنبھلی، محمد خالد اور درد فیض خاں شریک ہوئے۔ مصنفہ کے اہلِ خانہ اور ادبی حلقے کی نمایاں شخصیات بھی بڑی تعداد میں موجود تھیں۔
استقبالیہ کلمات اسرار ضیغم اور کلماتِ تشکر ڈاکٹر اسامہ حمید نے نہایت شایستگی سے پیش کیے۔