By using this site, you agree to the Privacy Policy and Terms of Us
Accept
NewsG24UrduNewsG24UrduNewsG24Urdu
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • اتصل
  • مقالات
  • شكوى
  • يعلن
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
Reading: عالمی یوم القدس اور عالم اسلام کا منافقانہ کردار
Share
Notification Show More
Font ResizerAa
NewsG24UrduNewsG24Urdu
Font ResizerAa
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Have an existing account? Sign In
Follow US
NewsG24Urdu > Blog > سیاست > عالمی یوم القدس اور عالم اسلام کا منافقانہ کردار
سیاستمضامین

عالمی یوم القدس اور عالم اسلام کا منافقانہ کردار

Last updated: مارچ 29, 2025 5:27 صبح
newsg24urdu 2 مہینے ago
عالمی یوم القدس اور عالم اسلام کا منفقانہ کردار
عالمی یوم القدس اور عالم اسلام کا منفقانہ کردار
SHARE

عالمی یوم القدس یعنی قبلہ اول کی آزادی کا عزم۔ گذشتہ نصف صدی سے عالم اسلام ہر سال اپنے اس عہد کو ازسرے نو تازہ کرنے کی نیت سے رمضان کے آخری جمعہ کو عالمی یوم القدس کے طور پر مناتا ہے۔ عالمی یوم القدس کی پوری تاریخ عالم اسلام اور مسلمانوں کی منفقانہ طرز عمل سے بھری پڑی ہے۔

مشمولات
اقوام متحدہ کا قیام:اقوام متحدہ کا مسلم مخالف عملعرب اسرائیل جنگ:عالمی یوم القدس کا اعلان:عرب حکمرانوں کی سردمہری:عالمی یوم القدس محض ایک رسم:آزاد فلسطینی ریاست کا اعلان:غزہ ایک کھلی جیل:آپریشن کاسٹ لیڈ:تنظیم تعاون اسلامی:قبلہ اول کی آزادی کے فی الحال امکان نہیں:عالم اسلام کی بے حسی:عالمی میڈیا کا کردار:صدر صدام حسین کا تاریخی بیان:تاریخی حقیقت:غزہ کی عوام ناقابل تسخیر:فلسطینیوں کا استقلال:اور جدا ہوگئے وہ شاہیں صفت:جانے کس حال میں ہوں گے:آخری معرکہ :زکاۃ دینے سے کام ختم نہیں ہوجاتا:

آج سال 2025 رمضان المبار کا آخری جمعہ ہے۔ ہندوستان سمیت پورے عالم اسلام میں عالمی یوم القدس بنایا جارہا ہے۔ ممکن ہے ہندوستان میں عالمی یوم القدس کو وہ مقبولیت نہ ملے جو ملنا چاہئے، لیکن عالمی یوم القدس کے پیچھے کی دردناک حقیقت سے روشناس کرنا میری ذمہ داری۔ اس لئے آپ سے درخواست ہے کہ اس مضمون کو ایک بار پورا ضرور پڑھیں۔

اقوام متحدہ کا قیام:

25اپریل 1945ء سے 26 جون 1945ء تک سان فرانسسکو امریکہ میں پچاس ملکوں کے نمائندوں کی منعقدہ کانفرنس میں ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام پرتبادلہ خیال ہواجس کے بعد24 اکتوبر 1945ء کو اقوام متحدہ (United Nations)کا وجود عمل میں آیادراصل اسی دن عالم اسلام پر بغیر جنگ فتح پالیا گیا اگر چہ یہ ادارہ بین الاقوامی سطح پر قیام امن اور باہمی خیرسگالی، نیزانصاف پسندی کے مقصد سے معرض وجود میں لایا گیا تھالیکن اقوام متحدہ اپنے منشور کے مطابق کبھی بھی عمل پیرانہیں رہا اس کے برخلاف یہ ادارہ ہمیشہ اسلامی ممالک کی حق تلفی کا ارتکاب کرتا رہا۔

اقوام متحدہ کا مسلم مخالف عمل

عربوں کے خلاف یہ ادارہ عالمی سلامتی کے نام پر ایک ڈنڈے کے طور پراستعمال ہوتا آیا ہے عالمی برادری کے اسی دوہرے پیمانے کے سبب ہی عربوں کے قلب میں اسرائیل کے قیام کے لئے 29 نومبر 1947 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقسیم فلسطین کے منصوبے کو منظوری دی گئی جس کے بعد15 مئی 1948 ء کواسرائیل کاوجود عمل میں لایاگیا۔

- Advertisement -
Ad imageAd image

عرب اسرائیل جنگ:

قیام اسرائیل کے اعلان کے فوراً بعد عرب ممالک نے بغیر کسی مضبوط لائحہ عمل کے اسرائیل پر حملہ کرکے اپنی ملی غیرت کا مظاہر ہ پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش توکی، لیکن9ماہ سے بھی زائد چلی عرب اسرائیل جنگ میں عرب ممالک کو شرمناک ہزیمت اٹھانی پڑی جس کے بعدفلسطین کے ہزاروں مربع میل پر اسرائیلی قبضے کی راہ ہموارہوگئی۔ مئی 1968ء میں اسرائیل نے اپنے دیرینہ عزائم کی تکمیل کی یادگار کے طور پر ”یوم یروشلم“کا انعقاد کیا جس کو بعد میں اسرائیلی کنیسٹ نے قومی تعطیل میں تبدیل کردیا۔

عالمی یوم القدس کا اعلان:

اسرائیل کے اسی عمل کے ردعمل میں 7 اگست 1979ء کو ایرانی رہنما روح اللہ خمینی نے اعلان کیاکہ ہر سال رمضان المبارک کے آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع کو فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اورصہیونی ریاست اسرائیل کے خلاف عالمی یوم القدس منایا جائے گا۔ اس دن دنیا بھر کے مسلمان متحدہوکر اسرائیلی مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرکے فلسطینیوں کے حق میں اتحاد کا مظاہرہ کریں گے۔ اسی دن روح اللہ خمینی نے یہ بھی اعلان کیا کہ مسجد اقصیٰ کی آزادی پوری ملت اسلامیہ کا مشترکہ اور مذہبی فریضہ ہے، جس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی۔

عرب حکمرانوں کی سردمہری:

روح اللہ خمینی کے اس اعلان کے بعد امید تھی کہ پورا عالم اسلام مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لئے متحد ہو جائے گا اور یروشلم کی آزادی کے ساتھ ہی مظلوم فلسطینیوں کو غاصب ریاست اسرائیل کے ظالمانہ پنجوں سے نجات دلائی جاسکے گی لیکن روح اللہ خمینی کے اپیل کا ایران کے باہر عرب ممالک میں عوام الناس نے توقدرے تعاون کیا مگر حکومتی سطح پر خاطرخواہ توجہ نہیں ملی۔جس کے سبب عالمی یوم القدس کومحض ایک تقریب سے زیادہ آج بھی اہمیت حاصل نہیں ہوسکی۔

عالمی یوم القدس محض ایک رسم:

خود ایران میں منعقد ہونے والی تقریبات بھی عالمی یوم القدس کے نام پر اسرائیل مردآباد، امریکہ مردآباد کے نعروں تک جاتے جاتے دم توڑدیتی ہیں، جبکہ ایران کے علاوہ دیگر مسلم ممالک کا رول نہایت افسوسناک رہا ہے۔ فلسطینیوں کے درد کو عالم اسلام نے سنجیدگی سے نہیں لیا، اس کا کوئی گلہ نہیں، لیکن عالم اسلام اپنے قبلہ اول کو بھول گیا یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ نسل آدم جسد واحد کا دم بھرنے والوں نے بے سہارا فلسطینیوں کو ظالم صہیونیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

آزاد فلسطینی ریاست کا اعلان:

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر ذمہ دارانہ تقسیم کی وجہ سے غزہ پٹی میں آباد لاکھوں مسلمان قید و بندہوکر رہ گئے۔ جن پردرندہ صفت اسرائیلی بھیڑئیے دن رات ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ 1987 میں جب اسرائیل نے غزہ پٹی اور مغربی کنارے پر غاصبانہ قبضہ شروع کیا، تو 1964ء سے ایک آزاد اور خود مختارریاست کے لئے سرگرم فلسطینی ”تنظیم آزادیئ فلسطین“(Palestine Liberation Organization – PLO)اور (Palestinian National Council)نے 15 نومبر 1988 کو ایک آزاد فلسطینی ریاست کا اعلان کردیا۔

- Advertisement -

غزہ ایک کھلی جیل:

دھیان رہے غزہ فلسطین کا وہ علاقہ ہے جس کی سرحد مصر اور بحرابیض متوسط سے ملتی ہے اس علاقہ کو اسرائیل نے ایک عرصہ داراز سے گھیر رکھا ہے۔ اس کے تجارتی اور خارجی معاملات بھی اسرائیل نے مکمل اپنے قبضے میں کر رکھا ہے۔ جس کے باعث فلسطینی عوام اسرائیل کی مرضی کے خلاف سانس بھی نہیں لے سکتے۔ اس علاقے کو اسرائیل نے 38 سالہ قبضہ کے بعد جب چھوڑا تو اس کے بعدسے اب تک اسرائیلی جارحیت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔

آپریشن کاسٹ لیڈ:

2008-2009 میں اسرائیل نے فلسطینیوں پر ایک عجیب و غریب قسم کے دھاتی دھماکہ خیز مواد کا تجربہ کیا، جس میں حملے کے پہلے ہی دن 500 فلسطینیوں کا قتل عام کردیا۔ اس درمیان12 دنوں کی جنگ میں یہ تعداد 1000 سے تجاوزکر گئی۔اسرائیل نے اپنی اس انتہا پسندی کو آپریشن کاسٹ لیڈ (Operation Cast Lead) کا نام دیا۔ جس کے نتیجے میں 19 دسمبر 2008 کو چھ ماہ سے جاری عارضی جنگ بندی کا خاتمہ ہوا۔

اسرائیل اپنے موقف کی حمایت میں یہ کہتا رہا کہ حملے حماس کی جانب سے کیے جانے والے راکٹ حملوں کا رد عمل ہیں۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق کرسمس سے ایک دن پہلے یعنی 24 دسمبر 2008 کو حماس نے اسرائیل پر 98 راکٹ حملے کئے تھے، جب کہ حماس نے اسرائیل کے الزام کو یکسر مستردکرتے ہوئے کہا تھا کہ جنگ بندی کے خاتمہ کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔

- Advertisement -

اب دوبارہ جنگ بندی کا معاہدہ اُس وقت تک ممکن نہیں، جب تک اسرائیل غزہ دوبارہ سے کھول نہیں دیتا، کیونکہ اسرائیلی محاصرے کے سبب غزہ ایک انسانی جیل میں تبدیل ہے، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اس تنازع کا آغاز نومبر 2008 میں اس وقت ہوا۔ جب غزہ میں اسرائیلی فوج کے چھاپہ ماری میں 6 فلسطینی مسلمانوں کو شہید کردیا گیا۔

2006 کے بعد فلسطین میں حماس کی اتحادی حکومت کے قیام کے بعد یہ سب سے بڑاحملہ تھا۔ اسرائیلی جارحیت کے سبب 550 سے زائد فلسطینی مسلمان شہید ہوئے، جن میں سے 25 فیصد عورتیں اور بچے شامل تھے، جبکہ زخمیوں میں عورتوں اور بچوں کا تناسب 45 فیصد تھا۔ غزہ میں اسرائیل کے پے در پے حملوں کی وجہ سے صورت حال اتنی بگڑ گئی۔ اشیائے خور و نوش اور طبی امداداور دیگر سازوسامان کی سخت قلت درپیش تھی۔ علاوہ ازیں پینے کا صاف پانی اور ایندھن جیسی بنیادی ضرورت کی چیزیں تک دستیاب نہیں تھیں۔

غزہ سے ملنے والی اطلاعات بھی انتہائی محدود تھی کیونکہ اسرائیل نے غزہ میں صحافیوں کے داخلے پرپابندی عائدکررکھی تھی۔ اس لیے حقیقی صورت حال کا صحیح اندازہ لگاپانابہت ہی مشکل امرتھا۔ اسرائیل کے حملوں کے پہلے دن 225 افراد شہید ہوئے جو اب تک فلسطین اور اسرائیل کے مابین ہونے والی جھڑپوں کے سبب ایک دن میں سب بڑا جانی نقصان تھا۔

تنظیم تعاون اسلامی:

تنظیم تعاون اسلامی (Organization of Islamic Co-operation) سے دنیا بھرکے مسلمانوں کو امید تھی کہ فلسطین اور بیت القدس کے تعلق سے کچھ ٹھوس اقدامات عمل میں لائے جائیں گے اور مسلم مفادات کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش ہوگی، لیکن اس تنظیم نے اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلمانوں کے مفادات کے حفاظت اور مسائل کے حل کے سلسلے میں سوائے اجلاسوں کے کچھ نہیں کیا۔

ایسے میں او آئی سی سے فسلطین اور بیت المقدس کے آزادی کی امید رکھنا محض حماقت ثابت ہوئی حسب عادت او آئی سی(Organization of Islamic Co-operation) نے مسئلہ فلسطین پر کبھی کوئی مثبت لائحہ عمل نہیں پیش کیا اور اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی ہرشرانگیزی کے خلاف صرف مذمتی قرارداد پاس کرنے کے علاوہ اس تنظیم نے کوئی کارگر اور ٹھوس حکمت عملی نہیں اپنایا۔

قبلہ اول کی آزادی کے فی الحال امکان نہیں:

اپنا دامن چھڑانے کے لئے قرار دادیں پاس کرکے اقوام متحدہ سے قیام امن کی اپیل کرتے رہنا، یہی اس تنظیم کا بیت المقدس کی بازیابی کے لئے اب تک کا رول رہا ہے۔ اب یہ سمجھا جاسکتاہے کہ 57 ممالک کی متحدہ تنظیم اگر قبلہ اول کی آزادی کے لئے سنجیدہ نہیں ہے، تو تن تنہا کوئی مسلم ملک فلسطینیوں کی آزادی اور بیت المقدس کے تقدس کی حفاظت کے لئے کتنا سرگرم عمل ہوگا؟۔

عالم اسلام کی بے حسی:

عالم اسلام کا قدس کے تعلق سے اس قدر بے حس ہونا ایسے ہی نہیں ہے۔ دراصل صہیونیویوں نے اس کے لئے ایک زمانے سے محنت کی ہے۔ عرب حکمرانوں کے دلوں سے اسلام پسندی نکال پھینکنے کے لئے عربوں کے اندر تعیش پسندی اورآمریت کو پروان چڑھایا۔ سوشلزم کے نام پر کمیونزم اور ترقی پسندی کے لبادے میں سیکولرزم کاخوگر بنادیا۔

عالمی میڈیا کا کردار:

صہیونی میڈیانے عالم اسلام کے اس متفقہ مسئلے کو بڑے ہی خوبصورتی سے اسلام بمقابلہ صہیونیت کو اسرائیل بنام فلسطین میں تبدیل کرکے دنیا کے سامنے اعتقاد کی اس جنگ کو دوملکوں کے زمینی تنازع کی شکل دے دی۔ تاکہ اسرائیلی موقف کو مزید تقویت دی جاسکے۔ جس میں مکمل کامیابی بھی ملی۔ اب جب بھی عالمی برادری کے مابین یہ مسئلہ سر اٹھاتا ہے تو موضوع بحث فلسطین اور فلسطینی عوام ہوتے ہیں قبلہ اول کا نام تک نہیں لیا جاتا، جس کے سبب مسجد اقصیٰ کی بازیابی کا معاملہ ایک قضیہ لاینحل بن کر رہ گیا ہے۔

صدر صدام حسین کا تاریخی بیان:

عالم اسلام آج تک یہ نہیں سمجھ پایا، کہ اقوام متحدہ کی جس سلامتی کونسل نے قیام اسرائیل کو منظوری دی، وہی اقوام متحدہ فلسطینیوں کے زخموں پر بھلا مرہم کیوں لگائے گا؟۔ 90 کے عشرہ میں عراقی صدر صدام حسین نے ایک کانفرنس میں پہلی بار کسی عرب حکمراں کی حیثیت سے اقوام متحدہ (United Nation) کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ عربوں کا اپنا خود کا عالمی ادارہ ہونا چاہئے، جس میں صرف مسلم ممالک ممبر ہوں اور مسلمانوں کے سارے مسائل اقوام متحدہ کے بجائے عرب دنیا کے عالمی ادارہ کے ماتحت ہوں، جس میں کسی بھی غیرمسلم ملک کو مداخلت کی ہرگزاجازت نہ ہو۔

اقوام متحدہ کے ماضی کے مسلم دشمنی پر مبنی کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں کہا تھا کہ اقوام متحدہ غیرمسلم برادری کے ہر جائز و ناجائز کارروائی کے خلاف محض قراردیں پاس کرتا ہے۔ تادیبی کارروائی کے بجائے ان ممالک کے لئے ڈھال کا کام کرتا ہے، جبکہ بیت المقدس پر اسرائیلی غاصبانہ قبضے اور فلسطینی عوام پرصہیونی ظلم و بربریت کے خلاف عربوں کے کسی بھی اقدام کے خلاف یہی اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا ڈنڈا لے کھڑا ہوجاتا ہے۔

اقوام متحدہ کسی بھی ظلم و زیادتی کے خاتمہ کی لئے نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے خلاف ایک منظم سازش کے طور پرکام کررہا ہے۔ فلسطین کا ذکر کرتے ہوئے سابق عراقی صدر نے عرب حکمرانوں سے کہا تھا کہ میں عربوں سے چند اہم باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ جبکہ تیز طوفان آچکا ہے اور تباہی وبربادی، قتل و غارت اور مقدس مقامات کی اہانت و توہین کی صورتیں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں، اور یہ سب کچھ ہمارے اور ہمارے فلسطینی عربوں کے خلاف کمینہ فطرت بدمعاش مجرم، قاتل اور دہشت گردصہیونی یہود اور اس کے حلیف امریکہ کا کیا دھرا ہے۔

خدا نہ کرے کہ ان شرپسندوں کے یہ اہداف و مقاصدپورے ہوگئے تو پھر ان کا اگلا نشانہ ہمارے وسیع و عریض خطہ عرب کے دوسرے ممالک ہوں گے اور ان کے ساتھ بھی یہ دہشت گرد طبقہ وہی کرے گا جو ہماری قوم اور فلسطینی عوام کے ساتھ کیاہے۔ اسی لئے میں آج اپنی قوم کی خاطر تم سب کو پکار رہا ہوں۔ دیکھو آج اس شریر امریکی اور صہیونی بدمعاش نے عالم اسلام کو کن مصائب میں ڈال دیاہے۔

سابق عراقی صدر مسجد اقصیٰ اور فلسطینی عوام کے واحد اور آخری دم دار آواز تھے، جو امریکہ اور اسرائیل کے اسلام مخالف سازشوں کے سدباب کے لئے پورے عالم اسلام کو متحد کرنا چاہتے تھے، جو طاغوتی طاقتوں کو کسی صورت منظور نہیں تھا۔ لہذا جھوٹے کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر بغداد کو تاخت و تاراج کرڈالا اور صدام حسین کوتختہئ دار پر چڑھا دیا۔ پورا عالم اسلام خواب خرگوش میں مبتلابے شرمی سے دیکھتا رہا۔

تاریخی حقیقت:

جب تک صدام برسراقتدار رہے مشرق وسطیٰ کا بیشتر حصہ پرامن رہا لیکن عراقی صدر کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد صہیونیوں نے خطہ عرب کے اکثر ممالک کو میدان جنگ میں تبدیل کررکھا ہے اور پورا عالم عرب ہونق بنا مسلمانوں کے بربادی کا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ سر زمین فلسطین سے لے کر لبنان، شام، عراق، اور افغانستان تک قتل و غارت گری کا مرکز بنا رہا۔

غزہ کی عوام ناقابل تسخیر:

غزہ پٹی علاقہ کومظلوم فلسطینیوں کے لئے زندہ انسانوں کے قبرستان میں تبدیل کردیا۔ اس کے باوجود بھی فلسطینیوں کے عزم اور حوصلے پوری دنیائے اسلام کومنھ چڑھا رہے ہیں وہ طاغوت کے خلاف سینہ سپر ہوکر لڑرہے ہیں۔ کچھ نہیں ہے پھر بھی اسرائیل کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ دنیا کے اعلیٰ ترین معیاری ہتھیاروں، میزائیلوں، ٹینکوں اور AK_47 کا سامنا غلیل اینٹ اور پتھروں سے کر کے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ فلسطینی مردہ قوم نہیں ہیں، وہ غیور ہیں ان کی غیرت ابھی زندہ ہے۔ بچے بچیاں بوڑھے جوان اور خواتین اسلام نے جس بہادری اور جوانمردی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اپنے آپ میں ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے۔

فلسطینی عوام بھوک پیاس کی شدت کے ساتھ کھلے آسمان کے نیچے بے سروسامانی کے عالم میں جس عزم و استقلال کے ساتھ جابر اسرائیل کے سامنے ڈٹے ہیں۔ وہ یہ بتانے لئے کافی ہے کہ فلسطینی اپنے لئے نہیں مسلمانوں کے قبلہ اول مسجداقصیٰ کی آزادی کے خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔

یہ باتین راقم الحروف اپنے اس تجربہ کی بنیاد پر کہہ رہا ہے، جو حرمین شرفین کے زیارت کے موقع پر چار نوعمر فلسطینی بچوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے راقم کو بتایا تھا۔ ان نوجوانوں کے عزم و استقلال کو راقم ساکت و جامد آنکھیں پھاڑے دیکھتے رہ گیا۔

فلسطینیوں کا استقلال:

روضہ رسول کے سامنے ہوئی ملاقات میں انہوں نے کہا تھا کہ انشاء اللہ ہم ہی قدس کو آزاد کرائیں گے، بھلے ہی مسلم دنیا تعاون کرے نہ کرے۔ ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک کفر کے خلاف سینہ سپر کھڑے رہیں گے۔ یہ سچ ہے کہ ہم بے بس ہیں ہمارے پاس اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لئے اس کے جیسے مہلک اور جدیدترین ہتھیار تو نہیں، لیکن ہمیں اپنے اللہ پر پورا بھروسہ ہے، وہ ہمیں ضرور کامیابی سے سرفراز فرمائے گا۔

ہمارے امتحان کا دور انشاء اللہ ایک ضرور ختم ہوگا۔ ہم مرتے دم تک قبلہ اول کی آزادی کے لئے جد جہد کرتے رہیں گے۔ ہمارا ہر پیدا ہونے والا بچہ مسجد اقصیٰ کا امین ہے۔ اپنی زندگی میں ہم قدس کو ظالم اسرائیل کے آہنی پنجوں سے اگر آزاد نہ بھی کرا پائے، تو ہماری نسلیں اس جنگ آزادی کو ہر حال میں جاری رکھیں گی۔

ہمارا مٹ جانا، یا شہید ہوجانا، ہماری آئندہ نسلوں کے لئے باعث فخر ہوگا۔ دنیا ہمیں اس کا صلہ دے نہ دے، اس کی پرواہ نہیں، لیکن ہمیں امید ہی نہیں پورا یقین ہے کہ ہمارا رب ہمیں مایوس نہیں کرے گا۔ ایک دن آئے گا جب خدائے بزرگ و برتر قبلہ اول کی آزادی کے اسباب خود مہیا فرمادے گا۔ اس وقت عالم اسلام کے ہیرو ہم یا ہماری نسلیں ہوں گی جبکہ آج کے کچھ بڑے اور خود ساختہ عالم اسلام کے ٹھیکداروں کے سر شرم سے جھکے ہوں گے۔

اور جدا ہوگئے وہ شاہیں صفت:

ان دلیر بہادر اوربے باک نوعمر شہزادوں کی باتیں سن کر راقم کی آنکھوں سے بے ساختہ اشک جاری ہوگئے جو روکنے سے بھی نہیں رک رہے تھے۔ چند لمحوں کی ملاقات میں انہوں نے اس قدراپناشیدائی بنا دیا تھا، کہ سینے سے لگانے کے بعد جب انہیں وداع کیا تو دور تک آنکھیں انہیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی رہیں۔

جانے کس حال میں ہوں گے:

آج ان فلسطینی نوجوانوں سے ملے پورے سات برس ہوگئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آج وہ زندہ بھی ہیں یا شہید ہوکر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ 7 اکتوبر 2023 کے طوفان الاقصیٰ کے بعد کے حالات سے یہ اندازہ لگانا بالکل مشکل نہیں ہے کہ وہ نوجوان کتنے عظیم اور بہادر تھے۔ جن کی زندگی کا مقصد قبلہ اول کی آزادی ہے۔ جبکہ ان کے مقابلے ہم اور پورا عالم اسلام کس قدر بزدلی کاشکار ہے۔

میں طوفان الاقصیٰ کے دردناک حالات پر تبصرہ نہیں کرسکتا۔ میرے پاس اس کو بیان کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ لیکن گذشتہ تقریباً ڈیڑھ برسوں میں فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، یا ہورہا ہے۔ اس کی ذمہ داری عالم اسلام اور پوری دنیا کے مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ کل میدان محشر میں ہمارے دامن فلسطینیوں کے خون سے داغدار ہوں گے۔ ہم ہزار کوششوں کے بعد بھی اللہ کے حضور خود کو سرخرو نہیں پائیں گے۔

آخری معرکہ :

اس سے پہلے کہ ہمارے اوپر کفر اپنا گھیرا مزید تنگ کردے۔ ہمیں ہوش کے ناخن لینا چاہئے، اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی ہمارا مقصد حیات ہونا چاہئے۔ ملت کا ہر فرد اپنی ذمہ داری اور اپنے حصے کا کام انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دے۔ جو لکھ سکتا ہے، وہ لکھے، جو پڑھ سکتا ہے، وہ حقائق کو اورں تک پہنچائے۔ جو لکھنے اور بولنے والوں کی ڈھال بن سکتا ہے، وہ اپنی ضروریات کی ساتھ ساتھ قوم کے بہی خواہوں کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھے۔

زکاۃ دینے سے کام ختم نہیں ہوجاتا:

زکاۃ، فطرہ اور صدقات کی بنیاد پر تقویٰ کا ڈھونگ کرنا بند ہونا چاہئے۔ جس زکاۃ یا فطرہ کے آپ مالک نہیں ہیں وہ نیک نامی کا سبب نہیں بلکہ اس کی ادائیگی آپ کی ڈیوٹی ہے، اور ڈیوٹی کو بجا لانا، فرض ہے، فرض کی ادائیگی معمول کا حصہ ہوتی ہے، اس پر اگر مالک کچھ عطا کردے، تو یہ اس کی مہربانی ہے، آپ کا حق نہیں، ہاں اس کے علاوہ اگر آپ رب کی رضا کی خاطر خرچ کرتے ہیں، یا اعلاء کلمۃ الحق کے لئے جد جہد کرتے ہیں، تو اللہ نے اس کے بدلے کئی گنا زیادہ دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔

فلسطینیوں تک خود کو زکاۃ پہنچانے تک محدود نہ کریں۔ جو جہاں ہے وہیں سے سیاسی قوت کی طرف کوچ کرے۔ ملک اور دنیا میں خلیفۃ اللہ کے منصب حقیقی کو سمجھیں۔ اور قیام امن و انصاف کے کی خاطر آئینی اور قانونی لڑائی میں حصے داری کو یقینی بنائیں۔
آخر میں دعا ہے کہ اگر وہ فلسطینی بہادر طوفان الاقصیٰ میں شہید نہیں ہوگئے ہیں۔ تو اللہ انہیں فتح و کامرانی عطا کرے۔ ساتھ ہی ہمیں وطن عزیز میں مچی طوفان بدتمیزی کے سامنے سرخرو کرے۔

mohdshafiquefaizi@hotmail.com

1Like
0Dislike
100% LikesVS
0% Dislikes

You Might Also Like

اتراکھنڈ: یکساں سول کوڈ یا ہندوتوا ایجنڈا؟ 

اترپردیش: 350 سے زائد مسجد، مدرسوں پر کارروائی، کہیں تالا تو کہیں چلا بلڈوزر

تابعداری نہیں، ساجھیداری کے لئے جد و جہد کریں مسلمان

پسماندہ کنونشن کامیابی سے اختتام پذیر

مومن انصار سبھا کا شراکت داری کنونشن لکھنؤ میں منعقد ہوگا

TAGGED:اسلام اور مسلمانجمعۃ الوداععالمی یوم القدسغزہفسلطینفلسطین اسرائیل جنگمسجد اقصیٰمسلمانوں کی حالتیوم القدس
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp LinkedIn Telegram Email Copy Link Print
Previous Article الوداع اے ماہِ رمضان: رمضان المبارک کے جمعہ پر ذکی بارہ بنکوی کا کلام
Next Article اسلام مکمل ضابطۂ حیات اور امن کا مذہب ہے:علامہ غلام علی اسلام مکمل ضابطۂ حیات اور امن کا مذہب ہے:علامہ غلام علی
3 Reviews
  • اردو زبان نہیں ہماری شناخت کا چراغ ہے - NewsG24Urdu says:

    […] ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب اردو برصغیر کے علمی، ادبی، اور انقلابی حلقوں کی زبان تھی مگر آج وہی اردو اپنے ہی وارثوں کی بے […]

    جواب دیں
  • عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم! - NewsG24Urdu says:

    […] دیا۔ تاکہ ہر فرد اس دن کے جشن میں شریک ہو سکے۔ جب ہم کسی غریب کو نیا لباس پہناتے ہیں، کسی یتیم کے چہرے پر خوشی […]

    جواب دیں
  • وقف ترمیمی بل خوابیدہ قوم کے لیے لمحۂ فکریہ - NewsG24Urdu says:

    […] کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زمینیں جو تمہارے آبا و اجداد نے اسلام کی سربلندی کے لیے وقف کی تھیں۔ جنہیں تمہارے […]

    جواب دیں

Leave a review جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Please select a rating!

اتراکھنڈ: یکساں سول کوڈ یا ہندوتوا ایجنڈا؟ 
سمر کیمپ: ایمان و اخلاق اور اسلامی آداب کی ہمہ جہت تربیت پر زور
اردو اور ہندی نے معاشرے کو جوڑنے کا کام کیا ہے: ڈاکٹر عمار رضوی
اترپردیش: 350 سے زائد مسجد، مدرسوں پر کارروائی، کہیں تالا تو کہیں چلا بلڈوزر
حج سے نفس پاکیزہ اور رزق کشادہ ہوتا ہے: مولانا محمد ہاشم اشرفی

Advertise

ہمارا موبائل اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کریں

NewsG24بھارت میں پروپیگنڈہ خبروں کے خلاف ایک مہم ہے، جو انصاف اور سچائی پر یقین رکھتی ہے، آپ کی محبت اور پیار ہماری طاقت ہے!
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
  • About Us
  • TERMS AND CONDITIONS
  • Refund policy
  • سپورٹ کریں
  • Privacy Policy
  • پیام شعیب الاولیاء
  • Contact us
Welcome Back!

Sign in to your account

Lost your password?