ڈاکٹر صغیر احمد
اسسٹنٹ پروفیسر، چانچل کالج، چانچل، مالدہ
ادیب معاشرے کے تئیں ایک بڑی ذمہ داری نبھاتا ہے، کیونکہ انسانی معاشرے اس کی رائے سے متاثر ہوتے ہیں اور اس کی تحریروں کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت سے ہم پاتے ہیں کہ ادیب اپنے معاشرے میں ایک ممتاز مقام پر فائز رہا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جاہلی دور کے بہت سے شاعروں نے فحاشی اور بے حیائی کو اپنی شاعری میں نمایاں جگہ دی ہے جو ان کے معاشرے کی صحیح عکاسی کرتی ہے۔
جب اسلام آیا تو اس نے ادب کا دھارا بدل دیا اور اسے انسانیت کے لیے نفع بخش بنا دیا، کیونکہ اسلام ایک جامع اور ہمہ گیر مذہب ہے جس میں زندگی کے تمام پہلو شامل ہیں۔ ادب اسلام کے دفاع کا ایک طاقتور ہتھیار بن گیا۔ بلاشبہ ادب انسانی سرگرمیوں کا ایک اہم پہلو ہے اور جب ادب انسانیت کی بھلائی، کلام الٰہی کی سربلندی اور باطل کی تردید کے لیے ہو تو یقینا یہ ایک عبادت اور خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
مسلمان کی ساری زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کے تابع ہے اور اس کے تمام اعمال اس کی رضا کے لیے ہی ہونے چاہئے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کہہ دو بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘ (سورۃ الانعام)۔ اسی طرح ایک حدیث میں ہے: ” ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چند اصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مال والے تو اجر و ثواب لوٹ لے گئے۔ اس لئے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں جیسے ہم روزہ رکھتے ہیں اور اپنے زائد مالوں میں سے صدقہ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لئے بھی تو اللہ تعالیٰ نے صدقہ کا سامان کر دیا ہے کہ ہر تسبیح (یعنی سبحان اللہ کہنا) صدقہ ہے، ہر تکبیر (اللہ اکبر کہنا) صدقہ ہے، ہر تحمید (یعنی الحمدللہ کہنا) صدقہ ہے، ہر تہلیل (لا الٰہ الا اللہ کہنا) صدقہ ہے، اچھی بات کاحکم دینا صدقہ ہے، بری بات سے روکنا صدقہ ہے اور ہر شخص کے حق زوجیت ادا کرنے میں صدقہ ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے کوئی اپنی شہوت سے حق زوجیت ادا کرے (یعنی اپنی بیوی سے صحبت کرے) تو کیا اس میں بھی ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں؟ دیکھو اگر اسے حرام میں صرف کر لے تو گناہ ہو گا کہ نہیں؟ اسی طرح جب حلال میں صرف کرتا ہے تو ثواب ہوتا ہے۔‘‘
(صحیح مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کو ہر اس عمل کا اجر ملتا ہے جو وہ اسلامی شریعت کے تقاضوں کے مطابق کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں اس وقت اہم کردار ادا کیا تھا جب مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے اشعار کی ذریعے حملہ آور ہوتے تھے اور طنز کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اشعار کی تعریف کی اور ان سے فرمایا:’’ مشرکین کی ہجو (مذمت) کرو یقینا جبرائیل تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘
(صحیح بخاری)
قلم ایک عظیم ذمہ داری اور امانت ہے، کیونکہ ادیب معاشرے میں موثر کردار ادا کرتا ہے۔ مصنف کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ اس کی تحریر میں اسلام کی حقیقی عکاسی ہو اور وہ اسلامی عقیدے کا دفاع کرتی ہو، سچائی اور دیانت پر مبنی ہو، مظلوموں کی حمایت کرتی ہو، اور اعلیٰ اقدار کو فروغ دیتی ہو۔ ادیب کے پیش نظر یہ بات بھی ہونی چاہیے کہ اس کی تحریر اس کے مرنے کے بعد بھی اسے فائدہ پہنچاتی رہے گی اور ان شاء اللہ وہ اس سے ثواب حاصل کرتا رہے گا۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے "حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے): صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے۔”
(صحيح مسلم)
اس کے پر عکس، اسلامی تعلیمات اور اعلیٰ اقدار سے انحراف، خواہشات کی پیروی، بے حیائی، جھوٹ اور حرام کاموں کے فروغ کی صورت میں ان شاعروں کی صف میں شامل ہو جائے گا جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کہا ہے: "اور شاعروں کی پیرو ی توگمراہ لوگ کرتے ہیں ۔ کیا تم نے نہ دیکھا کہ شاعر ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں ۔ اور یہ کہ وہ ایسی بات کہتے ہیں جو کرتے نہیں ۔
(سورۃ الشعراء)
غیر معیاری اور گھٹیا ادب ناکامی، گناہ اور ذلت کا سبب ہوتا ہے اور جب تک یہ ادب لوگوں کے درمیان موجود رہے گا، تب تک مصنف کو اس کا گناہ ملتا رہے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں انسانوں کو اچھی بات کہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔ (بخاری و مسلم )۔
ایک مصنف کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے الفاظ کا لوگوں پر اثر ہوتا ہے اور بہت سے لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس کی تحریر اسلامی تعلیمات کے مطابق، معاشرے کو فائدہ پہنچانے اور برائی اور فساد سے بچانے والی ہونی چاہیے۔
مختصر یہ کہ ادب اس وقت عبادت بن جاتا ہے جب وہ اسلام کی تعلیمات سے ہم آہنگ اور اللہ کی رضا کے لیے ہوتا ہے- اس کا مقصد روح کی اصلاح اور انسانیت کی خدمت ہوتا ہے۔ مگر جب ادب گمراہ کن احساسات، جھوٹے جذبات اور فریب پر مبنی پروپیگنڈے کا اظہار بن جائے تو یہ ادیب کے لیے باعث ندامت اور اس کے لیے آفت بن جاتا ہے۔




