از شفیق فیضی
معاشرتی ترقی سے مراد وہ عمل ہے جس میں معاشرے کے معیارِ زندگی، اقتصادی استحکام، تعلیمی مواقع، اور سماجی انصاف میں بہتری آئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں نے ہمیشہ انسانی ضروریات کو سائنسی، اقتصادی، اور اخلاقی بنیادوں پر ترجیح دی۔ مثلاً، اسلامی دورِ زریں (8ویں سے 13ویں صدی) میں بغداد کے "بیت الحکمت” نے تعلیم، طب، اور فلسفے کو فروغ دے کر معاشرتی ترقی کی ایک عظیم مثال قائم کی۔
مذکورہ بالا تناظر میں اگر ہم ہندوستانی مسلمانوں کے معاشرتی ترقی کا جائزہ لیں، تو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی حالت کسی بھی اعتبار سے تسلی بخش نہیں ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہم معاشرتی ترقی کے ہر پہلو پر جائزہ لیں گے، ساتھ ہی ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے مطلوبہ معاشرتی ترقی کے امکانات و اقدامات پر بھی روشنی ڈالنے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔
1۔ تعلیم اور شعور
تعلیم، معاشرتی ترقی کی بنیاد ہے۔ تاریخی طور پر، وہ معاشرے ترقی کے منازل طے کرتے رہے ہیں جنہوں نے تعلیم کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ مثال کے طور پر، صنعتی انقلاب (18ویں-19ویں صدی) کے دوران یورپ میں خواندگی کی شرح میں اضافے نے ہی ٹیکنالوجی اور معیشت کو نیا رخ دیا۔ آج بھی جن ممالک میں تعلیمی نظام مضبوط ہے (جیسے فن لینڈ، جاپان)، وہاں معاشرتی مسائل کم ہیں۔
- خواندگی کی شرح: 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق، جنوبی کوریا میں خواندگی کی شرح 99 فیصدی ہے، جو اس کی معاشی ترقی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
- تخلیقی صلاحیتیں: اسلامی دورِ زریں میں ابنِ سینا اور الخوارزمی جیسے سائنسدانوں نے طب اور ریاضی میں انقلابی کام کیے، جو آج بھی سائنس کی بنیاد ہیں۔ اسلام کے اسی دور میں انجام پائے، یہی کارنامے آج بھی مسلمانوں کے فخر کا باعث ہیں، جبکہ بعد کی تاریخیں، ملت اسلامیہ کو شرمسار کرتی ہیں۔
ہندوستان کے تناظر میں تعلیم یا شعور و آگہی کے اعتبار سے مسلمانوں نے کام نہیں کیا، یا اگر کیا بھی, تو ضرورت سے بہت کم، علی مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اگر چھوڑ دیا جائے، تو مسلمانان ہند نے تعلیمی اداروں پر اتنا کام نہیں کیا جتنا کیا جانا چاہئے تھا۔ کچھ دیگر اداروں اور مدارس اسلامیہ کو بھی اس فہرست میں شمار کیا جا سکتا ہے، لیکن پھر بھی مسلمان ایسے معیاری ادارے قائم کرنے میں ناکام رہے، جو ملت کے نونہالوں کے لئے کافی ہوتے، آزادی کے بعد اس میں مزید سردمہری آئی، جس کے سبب مسلمانوں کا تعلیمی معیار معاشرتی ترقی کے لئے ناکافی رہا۔
آزادی کے بعد مدارس کے قیام میں تیزی ضرور دیکھنے کو ملی، لیکن ان میں سے بیشتر اداروں کا معیار ایسا نہیں رہا، جو مسلمانوں کو معاشرتی اعتبار سے استحکام بخشتے، جماعت اسلامی ہند، جمیعۃ علماء ہند اور جمیعت اہل حدیث کے کچھ ادارے ضرور ایسے ہیں جو معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ مربوط بھی ہیں، نصاب تعلیم اور عصری اداروں سے معادلہ کے معاملے میں اجتماعی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مسلمانوں کاایک بہت بڑا طبقہ، جو خود کو اہل سنت یا بریلویت سے منسوب کرتا ہے، اس کا تعلیمی شیرازہ انتہائی انتشار کا شکار ہے، ان کے مدارس میں کوئی مشترکہ یا مربوط نصاب تعلیم نہیں ہے، جس کے باعث بریلوی مکتب فکر کا معیار تعلیم سب سے زیادہ مخدوش صورتحال سے دوچار ہے۔
گذشتہ کچھ برسوں میں تعلیمی اعتبار سے مسلمانوں میں بیداری آئی ہے لیکن علاقائی سطح پر معیاری تعلیممی اداروں کے فقدان کے سبب خاطرخواہ نتائج نہیں مل پارہے ہیں۔ اس میدان میں سرمایہ دار مسلمانوں کو سرمایہ کاری کرنا چاہئے تاکہ ملت اسلامیہ ہند کو جہالت کے اندھیروں سے باہر نکالا جاسکے، فلاحی نظریہ سے نہ سہی، تجارتی زاویہ نگاہ سے بھی اس میں اگر سرمایہ کاری کی جارہی ہو تو اس کا بھی خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔
2۔ معاشی استحکام
کسی معاشرے کی ترقی کا دارومدار، اس کی معیشت پر ہوتا ہے۔ تاریخی مثالوں میں سلطنتِ روما شامل ہے، جس نے سڑکوں، پانی کی فراہمی، اور تجارتی نظام کو مضبوط بنا کر طویل عرصے تک استحکام برقرار رکھا۔
- روزگار کے مواقع: چین نے 1980 کی دہائی میں "کھلی معیشت” کی پالیسی اپنا کر 80 کروڑ لوگوں کو غربت سے باہر نکالا۔
- بنیادی ڈھانچہ: ترکیہ نے 2000 کی دہائی میں نئی سڑکوں، ہوائی اڈوں، اور توانائی کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کر کے معاشی ترقی کو دوگنا کیا۔
معاشی اعتبار سے ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت کئی رپورٹس اور مطالعات کے مطابق تشویشناک ہے۔ جس میں کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں:
- غربت اور بے روزگاری: مسلمان آبادی کا ایک بڑا حصہ خط افلاس کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ بے روزگاری کی شرح دوسرے مذہبی گروہوں کے مقابلے میں مسلمانوں میں زیادہ ہے، خاص طور پر تعلیم یافتہ نوجوانوں میں۔
- تعلیمی پسماندگی: تعلیمی میدان میں مسلمان قومی اوسط سے بہت پیچھے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے لیے معیاری روزگار کے مواقع کم دستیاب ہوتے ہیں۔
- کاروباری چیلنجز: چھوٹے کاروباروں پر انحصار کرنے والے مسلمانوں کو بینکوں اور اداروں سے مالی وسائل تک رسائی میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ کچھ رپورٹس میں "کریڈٹ گیپ” کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔
- سماجی و سیاسی اثرات: مسلمانوں کے خلاف تعصبات یا امتیازی سلوک بھی معاشی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کچھ نجی شعبوں میں مسلمانوں کو نوکریاں دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کی جاتی ہے۔ 2014 کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
- حکومتی اقدامات: حکومت ہند نے کچھ اسکیمز جیسے "اعلیٰ تعلیم کے لیے اقلیتی اسکالرشپ” یا "سیکھو اور کماؤ” جیسے پروگرام چلائے ہیں، لیکن ان کے اثرات انتہائی محدود اوراسکیم، بندر بانٹ کا شکار ہیں۔
- شہری اور دیہی تقسیم: دیہی علاقوں میں رہنے والے مسلمان شہری مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ پسماندہ ہیں، جہاں بنیادی سہولیات تک رسائی بھی کم ہے۔
حالانکہ یہ صورت حال تمام مسلمانوں پر یکساں لاگو نہیں ہوتی۔ کچھ مسلمانوں نے تعلیم، کاروبار، یا کھیلوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن مجموعی طور پر سماجی و معاشی ڈھانچے میں انہیں چیلنجز کا سامنا ہے۔، اس کی ایک سب سے بڑی وجہ مسلمانوں میں باہمی تعاون کا فقدان ہے، مسلمان بذات خود آپس میں ایک دوسرے کو ترقی کرتے ہوئے دیکھنا پسند نہیں کرتے، جبکہ بحیثیت ایک ملت ترقی کرنے کے لئے باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ ہی آپسی خیرسگالی ایک لازمی امر ہے۔
3۔ صحت کی دیکھ بھال
صحت مند معاشرہ ہی ترقی کر سکتا ہے۔ طاعون کی وبا (14ویں صدی) کے بعد یورپ نے صحت عامہ کے نظام کو بہتر بنایا، جس سے شہریوں کی اوسط عمر بڑھی۔
- ویکسینیشن: 20ویں صدی میں پولیو اور چیچک جیسے امراض کے خلاف عالمی مہمات نے لاکھوں جانیں بچائیں۔
- ذہنی صحت: جاپان نے 2000 کی دہائی میں ذہنی دباؤ کے خلاف آگاہی مہم چلا کر خودکشی کی شرح میں 40 فیصدی کمی کی۔
اس تناظر میں کچھ مسلم خاندان اتنے لاچار اور بے بس ہیں کہ انہیں حسب ضرورت غذا بھی نہیں مل پارہی ہے، جس کے باعث کم عمری میں ہی پڑھاپے کا شکار ہوجاتے ہیں، زندگی کا وہ حصہ جہاں بچوں کے لئے رول ماڈل یا ان کے بحالئی اعتماد کا سبب بننا چاہئے وہا مسلمانوں کی اکثریت معاشرہ کے لئے جزؤ ناکارہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ اس لئے صحت کے تعلق سے بیداری لانا بھی ہم ہوگا، کیوںکہ ایک صحت مند انسان ہی معاشرتی ترقی کے لئے ضروری لائحہ عمل کو ترتیب اور اس پر عمل آوری کو یقینی بنا سکتا ہے۔
4۔ حکمرانی اور سیاسی استحکام
سیاسی استحکام کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کا زوال جزوی طور پر مرکزی حکومت کی کمزوری کی وجہ سے ہوا۔ اس کے برعکس، سنگاپور نے "لی کوان یو” کی قیادت میں شفاف حکومت اور قانون کی حکمرانی کو اپنا کر ترقی کی مثال قائم کی۔
- بدعنوانی کے خلاف جنگ: بھارت نے 2011 میں "حق سے معلومات” کے قانون کو نافذ کر کے شفافیت میں اضافہ کیا۔
حکومت کی جانب سے یہ ایک اچھی پہل کہی جاسکتی ہے، اس مسلمان حکومت کی جانب سے کی جارہی مسلم مخالف سرگرمیوں کو بہت حد تک کنٹرول کر سکتے تھے، لیکن اس سے بھی وہ نتائج برآمد نہیں ہو پائے، جس کی امید کی جارہی تھی۔ اس قانون سے پہلے بھی رنگناتھ مشرا، سچر کمیٹی کی سفارشات کے باوجود بھی حکومتوں نے مسلمانوں کے بدحالی کی جانب توجہ نہیں دی، جس کی سب سے بڑی وجہ مسلمانوں کا سیاسی دیوالیہ پن ہے، مسلمانوں میں بنیادی سیاسی شعور کی یہ قلت آج بھی برقرار ہے اور کسی بھی قوم کے معاشرتی ترقی میں سیاست کا سب سے بڑا رول ہوتا ہے، اب بھارت میں مسلمان بی جے پی ہراؤ مہم سے خود کو کب باہر نکالے گا، اس بارے میں ابھی کچھ کہہ یا لکھ پانا کافی مشکل ہے۔
5۔ سماجی انصاف اور یکجہتی
معاشرتی ترقی تبھی ممکن ہے جب تمام شہریوں کو مساوی حقوق ملیں۔ امریکی شہری حقوق کی تحریک (1950-60) نے نسلی امتیاز کے خلاف جنگ لڑ کر سماجی انصاف کی بنیاد رکھی۔
- صنفی مساوات: روانڈا نے 2003 کے آئین میں خواتین کو 30فیصدی سیاسی نمائندگی دینے کی ضمانت دی، جس کے بعد وہ خواتین کی نمائندگی کے لحاظ سے دنیا میں اول نمبر پر ہے۔ مسلم معاشرے میں بھی مسلم خواتین کو شرعی دائرے میں اتنی رعایت ملنی چاہئے جس سے ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پا سکے، مثلاً کچھ صنعتیں ایسی لگائی جائیں جہاں مکمل کنٹرول خواتین کے ہاتھ میں ہو، تاکہ عورتوں کے قابلیت کا معاشرتی ترقی میں استعمال کیا جاسکے۔
سماجی انصاف معاشرتی ترقی کا وہ عنصر ہے، جس کے لئے قوموں کو ایک طویل مدتی جد جہد کرنی پڑتی ہے، بدقسمتی سے بھارت کا مسلمان آج ہی پیڑ لگاکر پھل کاٹنا چاہتا ہے، جو کسی صورت ممکن نہیں، اس طرح کے معاشرتی ترقی کا ہدف، آنے والی نسلیں ہوا کرتی ہیں، مسلمان ایسی کسی طویل مدتی جد جہد کو اپنا شعار نہیں بنانا چاہتا۔ جس کے باعث فی الحال مسلمانوں کی ہمہ جہت ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر کب ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
6۔ ٹیکنالوجی اور اختراع
ٹیکنالوجی نے ہر دور میں معاشروں کو بدلا ہے۔ چین کی دیوارِ عظیم کو جدید مواصلاتی نظام کی ابتدائی شکل کہا جا سکتا ہے۔ آج، جنوبی کوریا 5G ٹیکنالوجی میں دنیا کا لیڈر ہے، جس نے اسے ڈیجیٹل معیشت میں ممتاز بنا دیا۔ بھارت میں ٹیکنالوجی کا استعمال گوکہ کافی ہوا ہے لیکن مسلمان ٹیکنالوجی کو تعمیری کاموں کے بجائے تخریبی امور میں زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اگر بھارت میں مسلمانوں کو معاشرتی اعتبار سے ترقی کرنا ہے و ٹیکنالوجی کو فلاحی کاموں میں استعمال کرنا ہوگا۔ تاکہ نسل نو کو اس اسلامی شعار کے ساتھ پروان چڑھایا جاسکے۔
معاشرتی ترقی ایک پیچیدہ عمل ہے جس کے لیے تعلیم، معیشت، صحت، اور انصاف جیسے تمام پہلوؤں میں ہم آہنگی ضروری ہے۔ تاریخی واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ جو معاشرے ان اصولوں پر کاربند رہے، وہی زمانے کے امتحان میں کامیاب ہوئے۔ پائیدار ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم ماضی کے سبقوں کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کی راہ متعین کریں۔ خاص مسلمانوں کو اس سمت میں انقلابی کارکردگی پیش کرنی ہوگی تاکہ ملک میں دوسرے بردران وطن کے ساتھ سر اٹھا کر زندگی گزاری جاسکے۔