کیس کا پس منظر
نیشنل ہیرالڈ انگریزی روزنامہ ہے جسے 1938 میں جواہر لال نہرو نے ملک کی آزادی کے لیے ایک آواز کے طور پر قائم کیا۔ یہ اخبار ایسوسی ایٹڈ جرنلز لمیٹڈ (AJL) کے ذریعہ شائع ہوتا رہا، جس کی شروعات 1937 میں ہوئی تھی۔ تقریباً 5,000 آزاد رہنماؤں نے شیئر ہولڈر کے طور پر حصہ لیا تھا۔ AJL کی ملکیت پہلے کانگریس جماعت کے پاس تھی اور اس نے قومی آواز
(اردو) اور نو جیون
(ہندی) سمیت کئی اخبارات شائع کیے۔
2008 میں نیشنل ہیرالڈ کی اشاعت معطل ہو گئی، تاہم 2016 میں اسے ڈیجیٹل طور پر دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ آج نیشنل ہیرالڈ کی ملکیت ینگ انڈین لمیٹڈ
(Rahul و Sonia Gandhi کی مشترکہ کمپنی) اور شیوہ پبلکیشنز کے پاس ہے۔ AJL کے پاس دہلی، لکھنؤ، ممبئی وغیرہ میں کروڑوں روپے مالیت کی جائیدادیں ہیں، جنہیں کیس کا بنیادی موضوع بنایا گیا۔
کیس کا آغاز
نیشنل ہیرالڈ مقدمہ 13-2012 میں اس وقت شروع ہوا، جب بی جے پی رہنما اور وکیل سبرامنیم سوامی نے دہلی کی مجسٹریٹ کورٹ میں شکایت دائر کی۔ ان کا الزام تھا کہ سونیا اور راہل گاندھی سمیت کانگریس رہنما AJL کے اثاثے ٹھگی کے ذریعے اپنی کمپنی Young Indian Ltd (YIL) کو منتقل کر رہے ہیں۔ شکایت میں بتایا گیا کہ کانگریس پارٹی نے AJL کو بغیر سود کا 90 کروڑ قرض دیا، جو واپس نہیں ملا، اور Young Indian کو محض 50 لاکھ دے کر AJL کے تمام 9 کروڑ شیئرز منتقل کر دیے گئے۔
یوں تقریباً 2,000 کروڑ روپے مالیت کے اثاثے YIL کے ذریعے راہل سونیا کے کنٹرول میں آ گئے تھے۔ سبرامنیم سوامی نے یہ بھی کہا کہ اس ڈیل میں دھوکہ دہی اور عوامی پیسے کا ناجائز استعمال ہوا ہے
قانونی نوعیت اور دفعات
نیشنل ہیرالڈ مقدمہ بنیادی طور پر فوجداری نوعیت کا ہے۔ سبرامنیم سوامی نے مجرمانہ شکایت میں راہل و سونیا سمیت دیگر کے خلاف IPC کی دفعات 403 (دھوکہ دہی سے اثاثے ضم کرنا)، 406 (اعتماد میں خیانت) اور 420 (چالاکی سے فراڈ) کے تحت کارروائی کی درخواست کی اور تمام ملزمان کے خلاف 120-B (سازش) کا بھی حوالہ دیا۔ بعد ازاں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ED) نے بھی منی لانڈرنگ کے الزامات عائد کرتے ہوئے Prevention of Money Laundering Act (PMLA) کے تحت کاروائی کی۔
ED نے کہا کہ اس کیس میں PMLA کی دفعہ 3 (منی لانڈرنگ کی تعریف)، دفعہ 4 (سزا کی حد) کے تحت جرم تشکیل پاتا ہے اور دفعہ 44، 45 کے تحت AJL کے اثاثے منجمد یا ضبط کیے جائیں۔ یوں کیس میں دونوں زاویے سامنے آئے: ایک تو فوجداری دھوکہ دہی اور اعتماد میں خیانت کا الزام، دوسرا منی لانڈرنگ کا مقدمہ۔ ان کارروائیوں میں کانگریس اور اس سے وابستہ کمپنیوں کی مالی دستاویزات بھی تفتیش کے لیے طلب کی گئیں۔
راہل گاندھی اور سونیا گاندھی کا کردار
راہل گاندھی اور سونیا گاندھی اس کیس کے کلیدی ملزمان ہیں۔ دونوں ہی کانگریس کی صفِ اول کے رہنما اور گاندھی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ Young Indian Ltd نومبر 2010 میں قائم ہوئی، جس میں 13 دسمبر 2010 کو راہل گاندھی اور 22 جنوری 2011 کو سونیا گاندھی کو ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ اس کمپنی کے کل 76 فیصدی شیئرز راہل اور سونیا کے پاس ہیں اور باقی 24 فیصدی کانگریس کے دیگر رہنماؤں (Motilal Vora اور Oscar Fernandes) کے پاس ہیں۔
حکومتی تفتیش کے مطابق یہی Young Indian Ltd تھی جس نے 2011 میں AJL کے 9 کروڑ شیئرز اور دیگر جائیدادیں اپنے قبضے میں لے لیں۔ ای ڈی نے عدالت میں کہا کہ راہل و سونیا کے زیرِ ملکیت Young Indian کے ذریعے AJL کے اثاثے حاصل کیے گئے ہیں۔ عدالت میں پوچھ گچھ کے دوران یہ بھی بتایا گیا کہ 2,000 کروڑ روپے مالیت کی AJL جائیدادیں محض 50 لاکھ روپے میں قانونی طور پر حاصل کی گئیں۔ یوں الزام ہے کہ گاندھی فیملی نے اس طریقے سے عوامی اکاؤنٹس (کانگریس فنڈز) اور کانگریس کی جائداد کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کیا۔ پیروی میں عدالتی دستاویزات میں ان کی بدعنوانی اور سازش کے ثبوت تلاش کیے جا رہے ہیں۔
عدالت میں کارروائی (تاریخ وار)
- 26 جون 2014: مجسٹریٹ گومتی مانوچا نے سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور دیگر 5 ملزمان کو طلب کیا اور انہیں 7 اگست 2014 کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ Young Indian Ltd کو دراصل عوامی پیسے پر مبنی خفیہ ڈھانچے کے طور پر استعمال کیا گیا، تا کہ AJL کے 20 ارب مالیت کے اثاثے اپنے کنٹرول میں لے لیے جائیں۔
- 2014-2015: ملزمان نے دلی ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کیں۔ تاہم 7 دسمبر 2015 کو دلی ہائی کورٹ نے سونیا و راہل سمیت سات ملزمان کی اپیل خارج کر دی اور حکم دیا کہ وہ 9 دسمبر 2015 کو ذاتی حاضری کے لیے عدالت میں پیش ہوں۔ اسی دوران پیٹالہ ہاؤس مجسٹریٹ کورٹ نے 19 دسمبر 2015 کو پیشی کے بعد چار ملزمان کو ضمانت دے کر رہائی دے دی اور باقی کو بھی اگلی سماعت پر پیش کرنے کی ہدایت کی۔ اس موقع پر سپریم کورٹ نے 12 فروری 2016 کو ملزمان کو ذاتی حاضری سے استثنا دیا اور مقدمے کو خارج نہیں کیا۔
- 2016-2018: کورٹ نے کانگریس کے بیلنس شیٹس اور دستاویزات کے بارے میں شواہد طلب کرنے کی اجازت دی، لیکن بعد میں ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ معطل کر دیا۔ 26 مئی 2018 کو سبرمانیم سوامی کی درخواست مسترد ہو گئی۔ اس دوران ED نے 2014 میں منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کیں اور ستمبر 2015 میں اس کی تفتیش دوبارہ جاری ہوئی۔
- 2019-2023: انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے 13 اپریل 2025 تک AJL کی مختلف جائدادیں ضبط کرنے کے اقدامات کیے۔ مئی 2019 میں ED نے 64 کروڑ مالیت کی AJL جائداد کو ضبط کر لیا۔ نومبر 2023 میں مزید 751.9 کروڑ روپے مالیت کی جائدادیں ضبط کی گئیں۔
- 2025: 15 اپریل 2025 کو ED نے نیشنل ہیرالڈ کے سلسلے میں راہل گاندھی، سونیا گاندھی اور دیگر کے خلاف منی لانڈرنگ کی چارجشیٹ فائل کی۔ عدالت نے ان کے حق میں نوٹس جاری کرکے 8 مئی 2025 کو سماعت مقرر کی۔ اس کے بعد کورٹ فیصلہ کرے گی کہ چارجشیٹ کے خلاف ملزمان کی عرضیوں کو منظور کرنا ہے یا ٹرائل شروع کرنا ہے۔
سیاسی اثرات اور عوامی ردعمل
نیشنل ہیرالڈ کیس نے سیاسی اعتبار سے بھی چرچہ میں رہا۔ حکمران جماعت بی جے پی کا موقف ہے کہ اس کیس سے بدعنوانی بے نقاب ہوئی ہے اور کانگریس نے عوامی دولت کا ناجائز استعمال کیا۔ بھاری اختلاف کے ساتھ اپوزیشن پارٹی کانگریس نے الزام عائد کیا کہ یہ کیس بد نیتی سے بنایا گیا ہے اور سیاسی انتقام ہے۔
سینئر کانگریس رہنما پوان بنسل نے ED کی کاروائی کو “بےبنیاد” اور “سیاسی انتقام” قرار دیا۔ انہوں نے عدالتوں پر اعتماد ظاہر کیا اور کہا کہ حکومت تحقیقاتی ایجنسیوں کو حزبِ مخالف کو دبانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
بی جے پی رہنما RP سنگھ نے جواب میں دعویٰ کیا کہ چھپے ہوئے کرائے، جعلی عطیات اور اشتہارات سے 85 کروڑ کی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں اور کانگریس کو اس کا حساب دینا چاہیے۔ عوامی سطح پر اس تنازعے پر آراء مختلف ہیں: اکثریتی طور پر سیاسی حلقے اسے حکومت کی حزب مخالف پر کریک ڈاؤن اور جمہوری عمل میں مداخلت کا حصہ سمجھتے ہیں، جب کہ دوسروں کا خیال ہے کہ اس سے کرپشن کا خلاصہ ہوا ہے۔
موجودہ صورت حال اور مستقبل
حالیہ پیشرفت میں اپریل 2025 میں ED نے منی لانڈرنگ کیس میں راہل-سونیا گاندھی کے خلاف چارجشیٹ دائر کر دی۔ عدالت نے اِنھیں سماعت کے لیے نوٹس جاری کر کے 8 مئی 2025 کو کیس کی مزید کارروائی کے لیے بلایا (UNI کے مطابق)۔ اب عدالت اس چارجشیٹ کو قبول کرے گی یا مقدمے کو آگے بڑھائے گی، اس کے بعد ہی آئندہ کارروائی کا فیصلہ ہوگا۔
ٹرائل کا اگلا مرحلہ عدالت کی سمری پر منحصر ہے۔ چونکہ کیس اعلیٰ عدالتوں سے ہو کر نچلی عدالت تک گیا ہے اور ED کی تحقیقات جاری ہیں، ممکنہ طور پر مزید قانونی استدعا (جے-آئی-ٹی وغیرہ) یا ٹرائل کے نتائج آنے میں وقت لگ سکتا ہے۔ میڈیا اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ کیس کے فیصلے سے نہ صرف قانونی بلکہ سیاسی ماحول بھی متاثر ہوسکتا ہے، خاص طور پر جون 2025 کے عام انتخابات کے تناظر میں۔