تحریر: ابوشحمہ انصاری سعادت گنج، بارہ بنکی
والدین … وہ دو ہستیاں جن کی محبت دنیا کی ہر محبت سے پاک، بےلوث اور خالص ہوتی ہے۔ یہ رشتہ کسی دنیاوی شرط یا مفاد پر قائم نہیں ہوتا، بلکہ یہ وہ سچائی ہے جو انسان کی پیدائش سے بھی پہلے جُڑ جاتی ہے۔ ماں کی کوکھ اور باپ کی چھاؤں وہ پہلی پناہ گاہیں ہیں جہاں انسان کو زندگی کا پہلا تحفظ، پہلی محبت اور پہلا سہارا ملتا ہے۔
ماں کی آغوش گویا وہ کائنات ہے جہاں بچہ پہلی بار سانس لیتا ہے، پہلا سکون پاتا ہے اور زندگی کو سمجھنے لگتا ہے۔ ماں کی ممتا میں وہ شفقت ہے جو نیند سے محرومی کے باوجود تھکن کو مسکراہٹ سے بدل دیتی ہے۔ رات بھر جاگ کر بیمار بچے کی پیشانی پر ہاتھ رکھنا، بھوک کے باوجود بچے کو کھلانا، اور اپنے آرام کو اولاد کے آرام پر قربان کرنا۔ ماں کی محبت کا یہ سلسلہ کسی صلے یا شکریے کا محتاج نہیں ہوتا۔ وہ صرف دیتی ہے، صبر کے ساتھ، خاموشی سے۔
باپ کی محبت بھی کم نہیں ہوتی، صرف اس کا اظہار مختلف ہوتا ہے۔ وہ اپنے جذبات کو لفظوں میں نہیں، عمل میں پروتا ہے۔ باپ دن بھر کی مشقت اور تھکن کو اپنی ہنسی کے پیچھے چھپا لیتا ہے، تاکہ اولاد کے چہروں پر اداسی کا سایہ نہ پڑے۔ وہ اپنی ضروریات کو بھول کر اولاد کی تعلیم، لباس، اور خواہشات کو اولیت دیتا ہے۔ اس کے کندھوں پر نہ صرف معاشی بوجھ ہوتا ہے، بلکہ ایک جذباتی ذمے داری بھی ہوتی ہے۔اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی تعمیر،افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم والدین کی قدر کرنا بھولنے لگتے ہیں۔
بچپن میں جن کے بغیر ایک لمحہ نہیں کٹتا تھا، جوانی میں انہی سے فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں۔ مصروفیات کا بہانہ، ٹیکنالوجی کا ہجوم، اور ذاتی دنیا کا پھیلاؤ ہمیں اپنے اصل سے دور لے جاتا ہے۔ وہ ماں جو بچپن میں ایک چھینک پر پریشان ہو جاتی تھی، اب گھنٹوں فون کی گھنٹی بجنے کا انتظار کرتی ہے۔ وہ باپ جو ہر امتحان سے پہلے دعاؤں میں ہمارے لیے کامیابی مانگتا تھا، آج ہمارے حالات جاننے کے لیے کسی عزیز سے سوال کرتا ہے۔
ہم یہ بات اکثر بعد میں سمجھتے ہیں کہ وقت کی دوڑ میں ہم نے وہ چہرے کھو دیے جو ہماری اصل پہچان تھے۔ والدین جب چلے جاتے ہیں تو ان کی باتیں، عادتیں، ہدایات اور دعائیں دل کے گوشے میں ایک خالی جگہ چھوڑ جاتی ہیں، جسے کوئی اور بھر نہیں سکتا۔ تب پچھتاوا رہ جاتا ہے کہ کیوں نہ ہم نے ان سے محبت کا اظہار وقت پر کیا؟ کیوں نہ ان کے قدموں میں بیٹھ کر ان کا حال جانا؟ کیوں نہ ان کے ساتھ کچھ پل گزارے؟
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ والدین کی خدمت صرف جسمانی دیکھ بھال کا نام نہیں ہے، بلکہ ان کی عزت، ان کی باتوں کی وقعت، اور ان کے جذبات کا احترام اصل خدمت ہے۔ ان کے پاس بیٹھنا، ان کی سننا، اور ان کی آنکھوں میں خوشی کے رنگ بھر دینا ایسی عبادت ہے جس کا اجر دنیا و آخرت دونوں میں ملتا ہے۔
قرآن کریم نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کو اللہ کی عبادت کے فوراً بعد ذکر کیا ہے، جو ان کے مقام کی عظمت کو واضح کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے، اور باپ کو جنت کا دروازہ قرار دیا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ ماں باپ کی رضا، خدا کی رضا ہے، اور ان کی ناراضگی میں خدا کی ناراضگی چھپی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی ترجیحات میں والدین کو پہلی جگہ دیں۔ ان کی خدمت کو بوجھ نہیں، سعادت سمجھیں۔ ان کے ساتھ بیٹھنا وقت کا زیاں نہیں، بلکہ برکت کا ذریعہ ہے۔ وہ ہمیں دنیا میں سب کچھ دے چکے ہیں۔اپنی جوانی، اپنی طاقت، اپنی خوشیاں، اور اپنے خواب۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم ان کے بڑھاپے کو سکون سے بھر دیں، ان کے دنوں میں بہار لوٹا دیں، اور ان کی راتوں میں تنہائی کا خاتمہ کریں۔
زندگی بہت مختصر ہے، اور والدین کا ساتھ اس سے بھی زیادہ۔ یہ نہ ہو کہ ہم ان کے جانے کے بعد اُن لمحات کو تلاش کرتے رہیں جو ہم نے خود گنوا دیے تھے۔ اُن باتوں کو یاد کرتے رہیں جو ہم سن سکتے تھے، مگر وقت نہ نکالا۔ اُن آنکھوں کو یاد کرتے رہیں جو ہمیں تکتے تکتے بند ہو گئیں، مگر ہم نے دیکھا نہیں۔
اللہ ہمیں یہ شعور دے کہ ہم والدین کی زندگی میں ان کی قدر کریں، ان کے چہروں پر وہ سکون لوٹا سکیں جو ہم سے وابستہ ان کے خوابوں کی تعبیر تھا۔ وہ خواب جو انہوں نے جاگتے ہوئے ہماری نیندوں کے لیے دیکھے تھے۔ وہ دعائیں جو انہوں نے خود بھوکا رہ کر ہمارے رزق کے لیے مانگی تھیں۔ اور وہ سایہ جو انہوں نے اپنی تکلیفیں چھپا کر ہمارے سروں پر رکھا تھا۔
ان کی موجودگی میں ہی دنیا روشن ہے، ان کے چہرے پر مسکراہٹ ہو تو کائنات مسرور لگتی ہے، اور ان کی دعاؤں میں وہ طاقت ہے جو تقدیر کو بھی بدل دیتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس نعمت کی قدر کریں ۔جب تک یہ سایہ ہمارے سروں پر قائم ہے، ہم سب سے خوش نصیب ہیں۔





