تحریر: سمير أحمد الفيضي جامعة الأزهر الشريف، القاهره
وقف املاک کی حیثیت کسی بھی قوم کے مذہبی اور ثقافتی ورثے میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ وہ املاک ہیں جو مسلمانوں نے اپنی رضا و رغبت سے دینی و فلاحی مقاصد کے لیے وقف کی ہیں تاکہ آنے والی نسلیں ان سے مستفید ہو سکیں۔ لیکن حالیہ حکومت کے فیصلے، خاص طور پر وقف بل بورڈ کی تشکیل اور عدلیہ سے اس کے حق میں بل پاس کروا لینا، ایک ایسا اقدام ہے جو نہ صرف مسلمانوں کے قانونی و مذہبی حقوق پر سوالیہ نشان ہے بلکہ اس سے اقلیتی برادری کی مذہبی آزادی بھی شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
جب ہم وقف املاک کو تاریخی ورثے کے تناظر میں دیکھتے ہیں، تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ
وقف کا نظام اسلامی تاریخ میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ خلافتِ راشدہ سے لے کر برصغیر میں مسلم حکمرانوں تک، وقف کو ہمیشہ ایک مقدس اور ناقابلِ تنسیخ حیثیت حاصل رہی ہے۔ اوقاف کی یہ جائیدادیں مدارس، مساجد، یتیم خانے، ہسپتال اور دیگر فلاحی اداروں کے لیے مخصوص تھیں۔ لیکن جب سے برطانوی سامراج نے ہندوستان پر قبضہ کیا، وقف املاک پر سرکاری قبضے کی کوششیں تیز ہو گئیں۔ آزادی کے بعد بھی، یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ مختلف حکومتوں نے اس پر مختلف حیلوں بہانوں سے قدغن لگانے کی کوشش کی۔
لیکن بفضلہ تعالیٰ، وہ اپنے اس ناپاک منصوبے میں ناکام رہی۔ مگر گزشتہ چند برسوں سے ہندوستان پر ناہل حکومت، بی جے پی کی صورت میں مسلط ہے، جس کے بعد سے ملک کے گوشے گوشے میں نفرت، خونریزی اور فتنہ و فساد کا بازار گرم ہوتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر مسلمانانِ ہند کے جان، مال، عزت و آبرو کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
حالیہ وقف بل بورڈ درحقیقت حکومت کا ایک ایسا حربہ ہے جس کے ذریعے وہ وقف املاک کو اپنے زیرِ تسلط لانا چاہتی ہے۔ اس قانون کے تحت، وقف املاک کے انتظامات میں حکومتی مداخلت بڑھا دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں اصل متولیوں کے حقوق سلب ہو رہے ہیں۔ وقف بورڈ پہلے ہی ایک نیم سرکاری ادارہ تھا، لیکن اس بل کے بعد اس پر حکومتی گرفت مزید مضبوط ہو گئی ہے۔
اس قانون کے تحت، حکومت کسی بھی وقت وقف املاک کی حیثیت کو تبدیل کر سکتی ہے، ان کی نیلامی کر سکتی ہے یا انہیں حکومتی منصوبوں میں استعمال کر سکتی ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ماضی میں کئی وقف جائیدادوں کو غیر قانونی طور پر ہتھیا لیا گیا، اور اب اس نئے قانون کے ذریعے اس رجحان کو مزید قانونی جواز فراہم کیا جا رہا ہے۔
یہ فیصلہ نہ صرف مسلمانوں کی جائیدادوں پر قبضے کی کوشش ہے بلکہ اس سے اقلیتوں کی مذہبی آزادی پر بھی ضرب لگتی ہے۔ وقف املاک کی حفاظت صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک وسیع تر انسانی حقوق اور عدل و انصاف کا معاملہ ہے۔ اگر حکومت کسی ایک مذہبی گروہ کی مقدس جائیدادوں پر اس طرح قبضہ جمانے لگے، تو یہ ایک خطرناک مثال قائم کرے گا، جس کے نتائج دیگر اقلیتوں کے لیے بھی منفی ثابت ہو سکتے ہیں۔
مسلمانوں کو اس مسئلے پر متحد ہو کر آواز اٹھانی ہوگی۔ یہ وقت خاموشی اختیار کرنے کا نہیں بلکہ قانونی، سماجی اور سیاسی سطح پر احتجاج کرنے کا ہے۔ اگر آج ہم نے اپنی وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے قدم نہ اٹھایا، تو کل ہمیں اپنے مساجد، مدارس اور دیگر مذہبی اداروں کے وجود کے بارے میں بھی خدشات لاحق ہو سکتے ہیں۔
حکومت کے اس فیصلے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وقف املاک پر شب خون مارنے کی یہ پالیسی درحقیقت مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے بنیادی حقوق پر ایک کھلا حملہ ہے۔ اگر اس مسئلے کو بروقت نہ روکا گیا، تو یہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہوگا بلکہ پورے ملک کے سیکولر اور جمہوری اقدار پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر دے گا۔
[…] کمیونٹی کی اکثریت وقف ایکٹ 2025 کو کالا قانون مان رہی ہے اور اسے فوری واپس لینے کا […]