از: شاہ خالد مصباحی
آج صبح میں بستر سے اٹھ کر گاؤں کے اُس راستے پر چہل قدمی کرنے نکلا جو چوراہے تک جاتا ہے۔ یہ راستہ میرے گاؤں سمیت کئی اور گاؤں کے لیے بہت اہم ہے، کیونکہ یہ سڑک متعدد بستیوں کے لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہے۔
صبح کی روشنی ابھی پھوٹ ہی رہی تھی، بچوں کے رونے کی آوازیں آنے لگی تھیں، دادا اور بابا بستر سے اٹھ کر اپنی ضروریات سے فارغ ہو رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سورج کی روشنی ذرا تیز ہوئی تو سارے پروانے ایک جگہ جمع ہونے لگے، جسے گاؤں کا چوراہا کہا جاتا ہے۔
صبح ہوتے ہی گاؤں کے چوراہے پر عوام کی بھیڑ جمع ہو جاتی ہے۔ کلو بابا چائے بناتے ہیں اور گزری رات کی ساری باتیں اسی چوراہے پر ہونے لگتی ہیں، گویا یہ چوراہا گاؤں کا ایک میڈیا سینٹر ہے، جہاں سارے اخباروں کے نمائندے پہنچ کر اپنی رپورٹ درج کراتے ہیں۔
جیسے جیسے صبح کی روشنی تیز ہوتی ہے، کلو بابا کی چائے کی پیالیوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اور چوراہے پر ایک دل کشا ہلچل قائم ہو جاتی ہے۔
آج چوراہے پر ایک نئی چیز دیکھنے کو ملی۔ بڑے بڑے پوسٹر لگے ہوئے تھے۔ ہواؤں کے بیچ ان پوسٹروں پر نئی رنگت قائم تھی، اور ہوا کے ٹکراؤ سے ایک مدھم سی سرسراہٹ ابھرتی تھی:
“نیا بہار، نیا وعدہ!”
“روشن مستقبل کا وقت آ گیا!”
“سرکار کا نیا بھارت، نیا بہار کا سنکلپ!”
جو بھی چوراہے سے گزرتا، ان پوسٹروں پر نظر ڈالتا اور پڑھتا۔ ہر دانا و بینا کے اندر تبدیلی کی ایک لہر دوڑ جاتی، کہ اس بار کا الیکشن ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے، اور ہر کوئی ووٹ اس بار "ترقی” کے نام پر دے گا۔
اتنے میں شاہد بابو چوراہے پر آئے اور دکان کا شٹر اٹھاتے ہوئے بولے
یہ وعدوں کا زمانہ ہے۔ گاؤں اور چوراہے کی سڑک ویسی ہی ہے جیسی پانچ سال پہلے تھی۔ اس سے پہلے بھی انتخابات کے وقت یہی وعدے نئے لباس میں آئے تھے ، کہ کوئی لڑکا بے روزگار نہیں رہے گا، سب کے اکاؤنٹ میں پیسے ہوں گے، گاؤں کی نالیاں پیرس کی نالیوں کی طرح ہوں گی، ہر گاؤں اسمارٹ ویلیج بنے گا، اور ہر شہر ترقی یافتہ ممالک کے شہروں کے مانند ہوگا۔ مگر ان وعدوں کا بدن وہی سڑتی سیاست کی طرح ہے، جسے سیاست دان انتخابات کے وقت بھولے بھالے عوام سے کرتے ہیں اور جیتنے کے بعد بھول جاتے ہیں۔
کلو بابا نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا
شاہد بابو، ذرا اُس پوسٹر کو دیکھو، جس پر نیتا جی کی تصویر آدھی مٹی ہوئی ہے، شاید کسی بچے نے آدھی تصویر مٹا دی ہو۔ دیکھو شاہد! یہ وہی چہرے ہیں جو انتخابات کے وقت آتے ہیں، اور ان کے چہرے صفحۂ سیاست سے کبھی مٹتے نہیں۔ صرف رنگ و روپ بدلتے ہیں۔ انتخاب کے وقت یہ سب سے بڑے ایماندار، متحرک اور انصاف پسند امیدوار بنتے ہیں، لیکن جیتنے کے بعد سب سے بڑے بے ایمان نکلتے ہیں۔
کلو اور شاہد دونوں ہنستے ہوئے اپنے کام میں لگ گئے۔ چاروں طرف الیکشن کا ماحول ہے، ہر گلی سے نیتا جی کی ریلیاں نکل رہی ہیں۔ چہار سو وعدوں کا انبار لگا ہے، شہر ہو یا گاؤں، بازار ہو یا کارخانہ ، ہر جگہ نیتا جی کے وعدوں اور پوسٹروں پر لگی تصاویر کے چرچے ہیں۔
لیکن غریب کے خالی جیب پر کسی کی نظر نہیں۔ پبلک اور عوامی اسکولوں کا حال بدتر ہے۔ قریب کے سرکاری اسکول میں استاد نہیں، چھت سے پانی ٹپک رہا ہے۔ گاؤں کے آس پاس کوئی ہسپتال یا پبلک ہیلتھ سینٹر نہیں۔ بیس کلو میٹر دور شہر میں ایک اسپتال ہے جہاں دیہی لوگ جا کر علاج کرواتے ہیں۔
چوراہے پر ایک سرکاری اسپتال ہے، جس پر ہمیشہ ایک نوٹس لٹکا رہتا ہے: “ڈاکٹر آن لیو” (یعنی ڈاکٹر چھٹی پر ہیں)۔
شہر میں ریڑھی لگانے والے ہر روز پولیس اور میونسپل کارپوریشن کے افسران کو موٹا بھتہ دینے پر مجبور ہیں۔ وہ غریب جتنا کماتا ہے، اُس کا بڑا حصہ سرکاری افسران کھا جاتے ہیں۔
لیکن آج نیتا جی کی ریلی میں یہی غریب عوام ان کا بینر اٹھائے گھوم رہے ہیں۔ مزدور، غریب اور بے روزگار نوجوان “اب کی بار پھر نیتا جی کی سرکار!” کے نعرے لگا رہے ہیں۔
ان عوام کے پاس نہ مضبوط معاشی وسائل ہیں، نہ گھر میں بجلی، نہ سڑک۔ نالی میں وہی کیچڑ اور گندگی بھری ہے، جن پر وہ روز چلتے ہیں۔ شہر میں پانی ایک وقت پر آتا ہے اور اکثر اُس وقت بھی نہیں آتا۔
پھر بھی ہر طرف نیتا جی کی ہورڈنگز لٹکی ہیں۔
کلو بابا نے کہا
شاید میری ووٹ کی قیمت صرف ایک نعرہ ہی ہے۔ پچھلے الیکشن میں بڑے یقین سے وعدے کیے گئے تھے، لیکن کچھ بدلا نہیں۔ اب پھر الیکشن آگیا ہے، پھر وہی وعدے۔ لگتا ہے اب کی بار بھی نیتا جی کی گاڑیوں کی چمک اور بنگلوں کی بناوٹ ہی بڑھے گی، شاید ہماری حالت پر رحم آ جائے۔
نیتا جی کے پاس گاؤں میں خوب صورت گھر ہے، ہر بڑے شہر میں مکان اور جائداد ہے۔ گھر پر چار آرام دہ گاڑیاں ہیں، ان کے بچے وطن کے بڑے شہروں میں پڑھ رہے ہیں۔ بیٹی ڈاکٹر بن گئی ہے، اور لڑکا شہر میں بڑا کارخانہ چلا رہا ہے۔
شاہد بولا
کلو بابا، اب مجھے سمجھ نہیں آتا ، ووٹ ہم دیتے ہیں، اور کئی بار سے یہی جیت رہے ہیں۔ ہم انہیں جتاتے ہیں، مگر ہمارا کیا بھلا ہوا؟ ہماری حالت تو وہی ہے، لیکن نیتا جی ہر سال ایک نیا مکان اور ہر مہینے نئی گاڑی خریدتے ہیں
اگلے دن الیکشن تھا۔ پورے گاؤں کے لوگ جوش و خروش سے ووٹ دینے جا رہے تھے۔ پولنگ بوتھ کے سامنے لمبی قطار لگی تھی، جس میں گاؤں کے بڑے، بزرگ اور عورتیں ووٹ دینے کے لیے کھڑی تھیں۔
لیکن شاہد گھر بیٹھا سوچ رہا تھا: ووٹ کس کے لیے دوں؟ میرے ضمیر کے امتحان کا وقت آ چکا ہے۔
شاہد کی اماں نے کہا
بیٹا، سب ووٹ دینے گئے ہیں، تم بھی جاؤ ووٹ دے آؤ۔ ووٹ دینا ہمارا سیاسی حق ہے۔ ہم ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں، جو اسمبلی میں جا کر ہمارے مسائل حل کرتے ہیں۔
شاہد نے آہستگی سے کہا
ہماری باتوں پر تو کوئی توجہ نہیں دیتا۔ ہمارے گھر کے سامنے کی نالی ویسی ہی کھلی ہے، رات دن مچھر کاٹتے ہیں۔ آج میں اپنا سیاسی حق استعمال کروں گا۔
یہ سوچتے ہوئے شاہد پولنگ بوتھ گیا اور سب امیدواروں کے خلاف ووٹ دیا۔
وہاں کلو بابا سے ملاقات ہوئی۔
شاہد نے کہا
آج میں نے اپنے حق کے لیے ووٹ کرتے ہوئے سب کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
یہ سنتے ہی کلو بابا چمک اٹھے، مگر اردگرد کے لوگ خاموش ہو گئے۔ شاہد کا یہ جملہ ایسے لگا جیسے نیتاؤں کے سینے پر زہر کا تیر چلا ہو۔
شام ڈھلتے ہی سارے نیتاؤں کی ہورڈنگز اترنے لگیں، اور اُن کے پوسٹر کچرے کے ڈبوں میں پھینک دیے گئے۔ ایک پوسٹر پر لکھا تھا:
یہ بدلاؤ کا وقت ہے!
شاہد مسکراتے ہوئے بولا
ہاں، سچ میں بدلاؤ آ گیا، سب کچھ بدل گیا، مگر ہماری اور ملک کی حالت نہیں بدلی۔ وہی حکومت کر رہے ہیں جو برسوں سے ہم پر حاوی ہیں۔
شاہد الٹے قدموں گھر کی طرف لوٹ رہا تھا۔ راستے میں اُسے کچرے کے ڈبے میں ایک پھٹا ہوا، مٹی میں دبا بیلٹ باکس ملا ، جیسے کسی نے ” ووٹ کی لاش” کو دفنا دیا ہو۔





