By using this site, you agree to the Privacy Policy and Terms of Us
Accept
NewsG24UrduNewsG24UrduNewsG24Urdu
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • اتصل
  • مقالات
  • شكوى
  • يعلن
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
Reading: وہ آزادی جو خون سے لکھی گئی
Share
Notification Show More
Font ResizerAa
NewsG24UrduNewsG24Urdu
Font ResizerAa
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Have an existing account? Sign In
Follow US
NewsG24Urdu > Blog > آج کل > وہ آزادی جو خون سے لکھی گئی
آج کلمضامین

وہ آزادی جو خون سے لکھی گئی

Last updated: اگست 14, 2025 7:16 صبح
newsg24urdu 1 ہفتہ ago
وہ آزادی جو خون سے لکھی گئی
وہ آزادی جو خون سے لکھی گئی
SHARE

تحریر۔ابوشحمہ انصاری،سعادت گنج، بارہ بنکی

ہندوستان اپنی آزادی کے 78 برس مکمل کر چکا ہے اور اس سال ہم 79واں یومِ آزادی عقیدت و احترام کے ساتھ منا رہے ہیں۔ 15 اگست کا سورج جب طلوع ہوتا ہے تو اس کی کرنوں میں محض روشنی نہیں بلکہ تاریخ کی گونج، قربانیوں کی خوشبو اور ایک قوم کی صدیوں پر محیط جدوجہد کی کہانی بھی شامل ہوتی ہے۔ یہ دن محض ایک تاریخ نہیں بلکہ ایک عہد ہے، ایک عہد اور وہ آزادی جس کو ہمارے آبا و اجداد نے اپنے خون، پسینے اور خوابوں سے لکھا۔ آج جب ہم آزادی کا جشن مناتے ہیں تو لازم ہے کہ ہم اس کے پیچھے چھپی قربانیوں کو یاد کریں اور خود سے سوال کریں کہ کیا ہم نے اس آزادی کے ساتھ انصاف کیا ہے؟

آزادی کا یہ سفر یک دم حاصل نہیں ہوا۔ یہ ان گنت قربانیوں کا حاصل ہے جن میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سب نے یکساں طور پر حصہ لیا۔ پہلی جنگِ آزادی 1857 کو اگر ہم دیکھیں تو یہ انگریزوں کے خلاف محض ایک بغاوت نہیں تھی بلکہ ایک ہمہ گیر عوامی تحریک تھی، جہاں بہادر شاہ ظفر جیسے بزرگ بادشاہ سے لے کر رانی لکشمی بائی جیسی شیر دل خاتون تک، سب نے اپنی جان کی بازی لگا دی۔ لالہ لاجپت رائے، بال گنگا دھر تلک اور پنڈت جواہر لال نہرو کی سیاسی حکمت عملی ہو یا مولانا ابوالکلام آزاد، مولوی احمد اللہ شاہ اور اشفاق اللہ خان کی لازوال قربانیاں، سب نے مل کر غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کا عزم کیا۔

مولوی احمد اللہ شاہ فیض آبادی نے 1857 کی جنگ میں جو کردار ادا کیا، وہ آج بھی تاریخ کے صفحات کو روشن کرتا ہے۔ اشفاق اللہ خان کی قربانی بھی اس داستان کا لازوال باب ہے، جنہوں نے کانپور کیس میں سزائے موت قبول کی لیکن اپنے اصولوں سے انحراف نہ کیا۔ دوسری طرف مہاتما گاندھی نے عدم تشدد کے فلسفے سے لاکھوں دلوں کو جوڑا، تو بھگت سنگھ نے اپنی جوانی قربان کر کے انگریز سامراج کو یہ پیغام دیا کہ آزادی کی چاہ موت سے بڑی ہے۔

انگریز حکومت کے جبر اور ظلم کے باوجود ان شہیدوں کے قدم نہیں لڑکھڑائے۔ لال قلعہ کے سامنے پھانسی گھاٹ سے لے کر جلیانوالہ باغ کے خون آلود صحن تک، ہر مقام ہماری تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جو قربانی اور صبر کی انتہا کو بیان کرتا ہے۔ جلیانوالہ باغ کے سانحے میں سیکڑوں بے گناہ شہید ہوئے، مگر اس نے قوم کے عزم کو توڑنے کے بجائے مزید مضبوط کیا۔

- Advertisement -
Ad imageAd image

آزادی کے اس سفر میں چھوٹے شہروں اور قصبوں کے بے نام ہیرو بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ ان گمنام سپاہیوں نے اپنی زندگی کے آرام اور خوشیاں قربان کر کے ہمیں یہ دن دیکھنے کا حق دیا۔ یہی وہ قربانیاں ہیں جنہوں نے آزادی کی اس کہانی کو مکمل کیا۔

ہندو مسلم اتحاد صرف سیاسی اور عسکری جدوجہد تک محدود نہیں تھا، بلکہ ثقافتی اور ادبی میدان میں بھی یہ اتحاد واضح نظر آتا ہے۔ کئی مشہور ہندو مسلم شعراء نے اپنی شاعری کے ذریعے قوم کو جگایا، آزادی کے جذبے کو پروان چڑھایا، اور ایک دوسرے کے درد کو سمجھنے کا پیغام دیا۔ ان کی تخلیقات آج بھی ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ زبان، مذہب اور نسل کے اختلافات کے باوجود ہم سب ایک مشترکہ ثقافت کا حصہ ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس خون سے لکھی گئی آزادی کا حق ادا کر پائے ہیں؟ آج جب ہم ترنگا لہراتے ہیں، قومی ترانہ گاتے ہیں، اور آزادی کے نعرے لگاتے ہیں تو اس لمحے ہمیں اپنے کردار کا جائزہ بھی لینا چاہیے۔ آزادی صرف جغرافیائی حدود کا نام نہیں، یہ ایک سوچ، ایک رویہ اور ایک ذمہ داری ہے۔ بدعنوانی، ناانصافی، اور فرقہ واریت جیسے مسائل آج بھی ہمارے سماج کو کمزور کر رہے ہیں۔ کیا ہم نے ان قربانیوں کا مقصد سمجھا، یا صرف جشن منانے تک محدود رہ گئے؟

ہمارے اسلاف نے ایک ایسے ہندوستان کا خواب دیکھا تھا جہاں سب برابری کے ساتھ رہیں، جہاں مذہب، ذات پات یا زبان کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہ ہو۔ اشفاق اللہ خان اور رام پرساد بسمل کی دوستی اور مشترکہ جدوجہد اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ یہ آزادی ہندو مسلم اتحاد کا نتیجہ ہے۔ لیکن آج ہم اسی اتحاد کو بھلا کر انتشار کی طرف کیوں بڑھ رہے ہیں؟

15 اگست ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ آزادی ایک تحفہ نہیں بلکہ ایک امانت ہے۔ اس امانت کی حفاظت تبھی ممکن ہے جب ہم اس کے بنیادی اصولوں پر قائم رہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے روزمرہ کے اعمال میں دیانتداری، برداشت، اور انصاف کو جگہ دیں۔ آزادی صرف حکومت سے مطالبہ کرنے کا نام نہیں بلکہ اپنے کردار سے اس کی حفاظت کرنے کا نام ہے۔

- Advertisement -

ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ دنیا میں بہت سی قومیں آج بھی آزادی کے لیے ترس رہی ہیں۔ ان کے لیے ہمارا یہ جشن ایک امید کا پیغام ہو سکتا ہے، بشرطیکہ ہم اپنی آزادی کی قدر کریں اور اس کی اصل روح کو زندہ رکھیں۔ اگر ہم نے اپنی آزادی کو محض رسومات اور تقریبات تک محدود کر دیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

آج جب ہم ماضی کی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں تو یہ بھی عہد کریں کہ ہم اپنے ملک کو اس راستے پر لے جائیں گے جس کا خواب ہمارے شہیدوں نے دیکھا تھا۔ ہم فرقہ واریت کی دیواریں گرائیں گے، تعلیم کو عام کریں گے، اور انصاف کو ہر دروازے تک پہنچائیں گے۔ کیونکہ وہ آزادی جو خون سے لکھی گئی، وہ محض ایک دن کا جشن نہیں، بلکہ ہر دن کی ذمہ داری ہے۔

یہی وہ پیغام ہے جو 15 اگست کے سورج کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔کہ ہم صرف آزاد نہیں، بلکہ اس آزادی کے محافظ بھی ہیں، اور ہمیں یہ فرض نبھانا ہے۔

- Advertisement -

1Like
0Dislike
100% LikesVS
0% Dislikes

You Might Also Like

عرس انجم العلماء کا عظیم الشان انعقاد, خصوصی ضمیمہ کا رسم اجراء

درگاہ کمیٹی نے تعلیمی ادارے اور اسپتال کے قیام کا کیا اعلان

بھارت میں امت کو لاحق خطرات: آئینہ سامنے رکھ دوں تو پسینہ آجائے

فروغ رضویات میں علامہ ضیاء المصطفے قادری امجدی گھوسوی کا تابندہ کردار

تزک و احتشام کے ساتھ شہر میں منایا گیا جشن اعلیٰ حضرت

TAGGED:آزادی کی قربانیجشن آزادیجنگ آزادی
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp LinkedIn Telegram Email Copy Link Print
Previous Article آزادی کا حقیقی تصور: آر ایس ایس کی فکر اور ہندوستانی جمہوریت پر اثرات آزادی کا حقیقی تصور: آر ایس ایس کی فکر اور ہندوستانی جمہوریت پر اثرات
Next Article دستور ساز اور دستور مخالف گروہوں کے درمیان کشمکش: معوذ قاسمی
Leave a review

Leave a review جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Please select a rating!

عرس انجم العلماء کا عظیم الشان انعقاد, خصوصی ضمیمہ کا رسم اجراء
درگاہ کمیٹی نے تعلیمی ادارے اور اسپتال کے قیام کا کیا اعلان
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ڈاکٹر عمار رضوی کی اہم ملاقات
بھارت میں امت کو لاحق خطرات: آئینہ سامنے رکھ دوں تو پسینہ آجائے
فروغ رضویات میں علامہ ضیاء المصطفے قادری امجدی گھوسوی کا تابندہ کردار

Advertise

ہمارا موبائل اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کریں

NewsG24بھارت میں پروپیگنڈہ خبروں کے خلاف ایک مہم ہے، جو انصاف اور سچائی پر یقین رکھتی ہے، آپ کی محبت اور پیار ہماری طاقت ہے!
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
  • About Us
  • TERMS AND CONDITIONS
  • Refund policy
  • سپورٹ کریں
  • Privacy Policy
  • پیام شعیب الاولیاء
  • Contact us
Welcome Back!

Sign in to your account

Lost your password?