از: شفیق فیضی
"عالم” ایک ایسا لفظ، جس کو سنتے ہی دل میں اس کی عظمت اور تقدس کا احترام پیدا ہو جانا فطری عمل ہے۔ کسی نام کے ساتھ "عالم” کا لاحق ہونا، اس شخصیت کو نہ صرف محترم بنا دیتا ہے،بلکہ اس کے علاوہ تمام القابات اور نسبتیں دم توڑ دیتی ہیں۔ عالم ہونے کے بعد انسانی حسن و جمال کی معراج ہوجاتی ہے۔ عالم ہونا، عوام و خواص سبھی کے درمیان ایک خط امتیاز کا کام کرتا ہے۔ شاید اسی لئے ایک عالم کی موت کو پورے کائنات کی موت قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ عالم کی ایک دوسری اصطلاح بھی ہے۔ علامہ اقبال نے ایک زمانہ پہلے علماء کے ایک خاص طبقے کو کعبے کے برہمن سے تعبیر کیا تھا۔ اگر گستاخی پر محمول نہ کیا جائے، تو علماء کے اسی گروہ کو اسلام میں علماء سوء کہا گیا ہے۔
علماء سوء ( کعبے کے برہمن) کی اصطلاح:
حالیہ دور میں علماء سوء ( کعبے کے برہمن) کی اصطلاح، مختلف مکاتب فکر کے علماء ایک دوسرے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ہر مکتب فکر کا خود ساختہ قاعدہ کلیہ ہے کہ اس کے سوا تمام مکاتب فکر کے علماء، علماء سوء یعنی کعبے کے برہمن ہیں، جبکہ وہ خود "علماء حق” کے پیدائشی منصب پر فائض ہیں۔
ذہنی دیوالیہ کے شکار ان پڑھے لکھے لوگوں کا خود ساختہ معیار کتنا معروضی اور قابل اعتبار ہے۔ اس مضمون میں اسی کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ واضح رہے کہ اس تحریر سے کسی کی تنقیص یا تضحیک مقصود نہیں ہے۔ پوری تحریر گول مول رہے گی کسی فرد کام نام یا اس کی صفات بیان نہیں کی جائے گی۔ پھر بھی ممکن ہے کہ الفاظ اپنے اثرات کے باعث کسی کی انا کو ٹھیس پہنچا دیں۔ جس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں
علماء سوء کون ہیں؟
تحقیق کے مطابق علماء سوء کسی مکتب فکر یا فرقہ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
ہر وہ عالم، علماء سوء میں سے ہے جو دوسروں یا خود کی دنیا کے عوض اپنا دین بیچ ڈالے۔ جن کا مقصود صرف مال و منصب ہے، اور ان کا طریقہ حکمرانوں کی خوشامد کرنا ہے۔ ان کی زبانیں حکمرانوں پر نکیر (برائی سے روکنے) سے بندھی ہوئی ہیں، جبکہ سچے علماء اور طلباء پر لعن و طعن کرنے کے لیے ہمیشہ دراز رہتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے صحابہ اور تابعین نے دین و ملت پر ان کے شدید نقصان کی وجہ سے اِن سے خبردار کیا ہے۔
علامہ ابن القیم کہتے ہیں:
علماء سوء جنت کے دروازوں پر بیٹھ گئے ہیں۔ اپنی باتوں سے تو لوگوں کو اس کی طرف بلاتے ہیں، مگر اپنے اعمال سے دوزخ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ جب بھی ان کی زبانیں لوگوں سے کہتی ہیں "آؤ”، تو ان کے اعمال کہتے ہیں: "ان کی بات مت سنو!” اگر وہ دعوت، جسے یہ دیتے ہیں حق ہوتی، تو خود سب سے پہلے اس پر عمل کرنے والے ہوتے۔ یہ ظاہر میں تو راستہ دکھانے والے ہیں، مگر حقیقت میں راہزن ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہماری امت کے بد ترین علماء وہ ہیں جو ہمیں گمراہ کرتے ہیں، جو ہمارے راستے کاٹتے ہیں، جو ہمارے مخالفین کو ہمارے ناموں سے پکارتے ہیں اور ہمارے برابر والوں کو ہمارے لقبوں سے پکارتے ہیں۔ وہ ان کے لیے دعا کرتے ہیں جبکہ وہ لعنت کے مستحق ہیں۔ (الاحتجاج ج2)
علماء سوء کو سمجھنے کےلئے اتنی وضاحت کافی ہے۔ اب اگر ان اصولوں کی روشنی میں آج کے حالات کا جائزہ لیا جائے، تو وہ تمام فرقے جو خود کو اسلام کا پیروکار اور اس کے ترویج اشاعت کے داعی کے طور پر پیش کرتے ہیں، شاذ و نادر کی بات چھوڑ دیں، تو ہر جگہ علماء سو کا ہی قبضہ ہے۔ ممکن ہے کہ کسی گروہ میں ان کی تعداد کم یا زیادہ ہوسکتی ہے۔ ایسا بھی نہیں کہا جاسکتا کہ علماء حق بالکلیہ ناپید ہوگئے ہیں۔
دراصل دنیا کی چکاچوندھ میں علماء کرام اپنے فرائض منصبی سے دور ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس جماعت کو خیرامت، میں وارث انبیاء اور خلافت ربانی سے نوازا وہ امتیاز خیر و شر سے نابلد ہوچکی ہے۔ علماء حق کی ذمہ داری تھی کہ وہ زمین پر اپنے حاکم اعلیٰ کے احکامات کے نفاذ کی راہ ہموار کرتے، لیکن انہوں نے اسی کے راستے مسدود کرنا شروع کردیئے، اسلام جو ایک مکمل ضابطہ حیات اور پوری کائنات کے نجات کا حقیقی ذریعہ تھا۔ اس کو من گھڑت قصے اور کہانیوں میں تبدیل کردیا۔ مختصر میں کہا جائے تو، ایک تاریخی حقیقت کو افسانہ بنا دیا۔
جن علماء کرام کی ذمہ داری تھی کہ وہ جنت کا راستہ دکھانے کا کام کریں گے۔ وہ اپنے دائرہ عمل سے تجاوز کرکے جنت کا ریزرویشن ٹکٹ بانٹنے لگے۔ جلسہ، جلوس اور عرس کے نام پر جنت میں پلاٹ کی رجسٹری ہورہی ہے۔ خلافت جو عالمی اسلامی حکمرانی کا نام ہے۔ خانقاہی حضرات نے اس خلافت کو چھوٹی چھوٹی ٹیکس وصولی ریاستوں میں تبدیل کرلیا۔ جہاں سے ماہانہ، تو کبھی سالانہ، نذرانے کی شکل میں ٹیکس اگاہی کا گورکھ دھندہ چلتا ہے۔ اسلام اور اسلامیات کے نام پر ہزاروں اور لاکھوں خانقاہی دکانیں گذشتہ ایک صدی سے خوب پھل پھول رہیں ہیں۔
ان چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے راجاؤں کو اس بات کی بالکل بھی فکر نہیں ہے، کہ جس ریاست کے وہ راجہ ہیں۔ وہ اب دشمنان اسلام کے آہنی چنگل میں اپنا دم توڑ رہی ہے۔ اگر جلد ہی ان ریاستوں کے لئے کچھ مثبت اقدامات نہ کئے گئے تو ریاست اور ریاست کی پرجا، دونوں ختم ہوجائے گی۔ پرجا ہے تو ریاست ہے، ریاست ہے تو راجہ ہے۔
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
حالیہ علماء کا کردار:
موجودہ علماء کرام چاہے وہ جس بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس سے پہلے کہ اللہ ان کا محاسبہ کرے۔ انہیں اپنا محاسبہ خود کرلینا چاہئے اور اس بات کی تصدیق کرلیں کہ کیا واقعی وہ علماء حق میں سے ہیں۔ یا پھر علماء سوء کی طرح انہوں نے بھی جلسے، جلوس، اعراس اور خلافت و طریقت کو حصول مال کا ذریعہ بنا رکھا ہے؟
یہاں کسی خاص مسلک کی بات نہیں کی جاسکتی، لیکن مسلک اعلیٰ حضرت اور خود کو بریلویت سے منسوب کرنے والے علماء اہلسنت بروقت سب سے زیادہ تجاوزات اور جہالت کا شکار ہیں، ان کے جلسوں میں تقریروں کی جگہ فلمی ڈائیلاگ، اور نعتیہ کلام کے نام رقص و سرود کا ننگا ناچ پروان چڑھایا جارہا ہے، مقررین اپنی حدود توڑ رہے ہیں تو شعراء منبررسول کی توہین کے سب سے بڑے مجرم ہیں۔
محفل میلاد کو بدنام کیا جارہا ہے، اصلی میلاد تو پیروں اور خانقاہی لٹیروں کی پڑھی اور سنائی جارہی ہے۔ نبی کے نام پر سجائی گئی محفل میں اسلام اور نبی کی باتیں کم اپنے پیر اور چہیتے علماء کا خطبہ، سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ علمی لیاقت کے اعتبار سے سنی علماء کی گیرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ دور کے علماء نے اسلام کو محض عبادات تک محدود کردیا ہے۔
اللہ نے مسلمانوں سے جس دین کا تقاضا کیا ہے۔ اس کا ایک بہت بڑا حصہ امور دنیا سے عبارت ہے جس کو علماء کرام نے اسلام کی روح سے نکال کر باہر پھینک دیا ہے حالانکہ امور دنیا کا بیشتر حصہ حقوق العباد سے عبارت ہے۔ جس کے بارے اللہ کا خود کہنا ہے وہ حقوق العباد معاف نہیں کرے گا۔ اب اتنے بڑے اور اہم حصے کو ترک کروا کر، خود کو علماء حق بتانا اور جنت کے ٹکٹ بانٹنا کتنا درست ہے؟ اس کا فیصلہ آپ خود کریں!۔
حالیہ علماء کے کردار کا شرمناک پہلو یہ ہے کہ ڈارھی نہ رکھنے پر عام مسلمانوں کو سرعام لعن و طعن کرنے لگتے ہیں۔ لیکن متمول اور صاحب حیثیت مسلمان کے سامنے ان کے منھ میں بلی بچہ دے دیتی ہے۔ جلسوں میں ان کی بہادری کا الگ ہی مقام ہے عوام کے فلک شگاف نعروں کے درمیان کفر کی فلک نما عمارتیں لمحوں میں زمیں دوز ہوجاتی ہیں۔ لیکن حکومت وقت جب مسجد اور مدرسوں کو مسمار کرتی ہے۔ تب ان کی لنگوٹی گیلی ہوجاتی ہے۔ بنا آب دست اپنی بلوں میں گھس کر اپنی بے غیرتی کا شرمناک مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ بلڈوز کیا گیا ادارہ دوسرے فرقے کا تھا۔
محرم الحرام میں ذوالفقار حیدری سے بائیس ہزار کے لشکر جرار کو تہس نہس کرنے والے، مقررین کسی "اخلاق” کی لنچنگ پر کیوں نہیں بولتے؟۔ کربلا میں اتمام حجت کو اسلام بتانے والے اس وقت کہاں مرجاتے ہیں، جب حکومت وقت وقف املاک پر قبضہ کرنے کے لئے قانون پاس کرتی ہے؟
انتخابات کے ایام میں ووٹوں کی دلالی کرنے والے، برے وقت میں اپنی عوام سے نظریں چرانے والے، بھوکی ننگی خلق خدا کے منھ کا نوالہ غصب کرنے والے، یتیموں اور بیواؤں کے زکاۃ پر ڈاکہ ڈالنے والے، علم دین کو بھی ذریعہ معاش بنانے والے، جلسے جلوس کو تبلیغی اور اصلاحی عمل کے بجائے اپنی انا اور عبقریت تھوپنے کی آماجگاہ سمجھنے والے، یہ وہی لوگ ہیں جو کعبے کے برہمن کہلاتے ہیں، آپ چاہیں تو انہیں ادباً علماء سوء ( کعبے کے برہمن )بھی کہہ سکتے ہیں۔