✍️__آصف جمیل امجدی
[انٹیاتھوک، گونڈہ]
علم و عرفان کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ جب بھی ملتِ اسلامیہ کسی علمی انحطاط فکری بحران یا فتنہ و فساد کے نرغے میں گرفتار ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے مخصوص بندوں کو منصۂ شہود پر جلوہ گر فرمایا تاکہ وہ اپنے علم و فضل، تقویٰ و طہارت اور بصیرت و حکمت کے ذریعے زمانے کی تاریکیوں کو نورِ یقین سے منور کر دیں۔
برصغیر کو علمی و دینی تاریخ میں "آفتابِ رضویت” اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدثِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کے علوم و معارف کو فروغ دینے والے نابغۂ روزگار علما کی طویل فہرست موجود ہے جنہوں نے نہ صرف اس مشن کو آگے بڑھایا بل کہ آنے والی نسلوں کو اس سرمائے سے بہرہ مند کیا۔
انہی درخشاں ستاروں میں سے ایک آفتابِ تاباں حضور محدثِ کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفےٰ قادری امجدی گھوسوی دامت برکاتہم العالیہ ہیں جن کا کردار فروغِ رضویات میں آفتابِ نیم روز کی طرح روشن اور ناقابلِ انکار ہے
حضور محدثِ کبیر نہ صرف سرکار صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کے علمی وارث ہیں بل کہ آپ کا ربط و تعلق براہِ راست اس خانوادۂ رضویہ سے ہے جس کے فیض سے برصغیر میں عقیدۂ اہلِ سنت و جماعت کو ایک مضبوط علمی و فکری بنیاد میسر آئی۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جس کی درس گاہ علم و فیض میں صدرالشریعہ اور مفتیِ اعظم جیسے لاتعداد آفتاب و ماہتاب چمکے ہوں وہاں سے جو بھی چراغ روشن ہوگا وہ یقیناً زمانے کو روشنی عطا کرے گا۔
حضور محدثِ کبیر اعظم اللہ عزتہ نے اپنی زندگی کے بہترین ایام درس و تدریس کے لیے وقف فرمائے۔ وہ درس گاہوں کے محراب و منبر سے لے کر قومی و بین الاقوامی کانفرنسوں تک ہر سطح پر اپنی خطابت و تدریس کے ذریعہ علمی و فکری تحریکِ رضویت کے پاسبان ثابت ہوئے.
آپ کے دروسِ حدیث اور اسلوبِ بیان نے طلبۂ علومِ دینیہ کو عشقِ رسول ﷺ کے رنگ میں رنگ دیا۔ آپ کا درس محض روایت کی تکرار نہیں بل کہ درایت اور بصیرت کا حسین امتزاج ہے۔ فروغِ رضویات میں آپ کے یہ دروس سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں.
رضوی مشن کا سب سے بنیادی ستون تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ ہے۔ حضور محدثِ کبیر صاحب قبلہ دامت برکاتہم القدسیہ نے اپنے خطبات تحریرات اور فتاویٰ کے ذریعے تحفظِ ناموسِ مصطفیٰ ﷺ کا پرچم بلند رکھا اور ہر اس فتنے کے خلاف برسرِ پیکار رہے جو غلامانِ مصطفیٰ ﷺ کے دلوں سے عشقِ رسول ﷺ کو کمزور کرنے کی سازش کرتا ہے.
آپ کے علمی و دعوتی اسفار نے نہ صرف ہندوستان بل کہ بیرونِ ممالک تک پیغامِ رضویات کو عام کیا۔ آج یورپ افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے علمی مراکز میں آپ کے شاگرد اور معترفین موجود ہیں جو آگے چل کر تحریکِ رضویت کے پیامبر ثابت ہو رہے ہیں۔
حضور محدثِ کبیر کی شخصیت علم و عمل، تقویٰ و طہارت اور حلم و وقار کا حسین سنگم ہے۔ آپ کا لب و لہجہ وہی ہے جو اکابرِ اہلِ سنت کا امتیاز رہا ہے نہ جھکنے والا نہ مداہنت کا شکار ہونے والا۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ سنت کی صفوں میں آپ کی شخصیت کو "قوتِ ناطقۂ رضویت” کہا جاتا ہے۔
در حقیقت حضور محدثِ کبیر علامہ ضیاء المصطفےٰ قادری امجدی گھوسوی کا فروغِ رضویات میں کردار ایک ایسا روشن مینار ہے جس کی ضیا سے آج ہزاروں طلبہ، علما اپنی راہوں کو منور کر رہے ہیں۔ آپ کا یہ تابندہ کردار اس بات کا ضامن ہے کہ پیغامِ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی علیہ الرحمہ تا قیامت زندہ و جاوید رہے گا اور آپ کی علمی جدوجہد کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرے گی۔