مدنی مسجد شکلا گنج میں منعقد جلسہ سیرت النبی سے مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی کا خصوصی خطاب
اناؤ/شکلا گنج (محمد عثمان قریشی) جمعیۃ علماء شہر و مجلس تحفظ ختم نبوت کانپور کی جانب سے جاری رحمت عالم و عظمت صحابہ مہینہ کے تحت مدنی مسجد شکلا گنج میں جلسہ سیرت النبی منعقد کیا گیا جس میں جمعیۃ علماء اترپردیش کے نائب صدر مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی کا پرمغز خطاب ہوا۔
مولان نے اپنے تفصیلی خطاب میں کہا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے وہ تاریخی اور تسلی آمیز کلمات جن سے انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو پہلی وحی کے بعد حوصلہ دیا تھا، آج کے پُرآشوب حالات میں ملت اسلامیہ ہند کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ مولانا نے بتلایا کہ غارِ حرا سے واپسی پر جب نبی اکرم ﷺ گھبراہٹ کے عالم میں گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہؓ نے عرض کیا کہ اللہ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں کا سہارا بنتے ہیں، محروموں کی دستگیری کرتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کے کاموں میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
مولانا نے کہا کہ یہ الفاظ صرف تسلی نہیں بلکہ امت کے لیے دائمی سبق ہیں کہ ایک قوم کی بقا اور کامیابی کا دارومدار ان ہی اوصاف پر ہے۔
مولانا نے موجودہ عالمی و ملکی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آج ہندوستان میں مسلمان بے جا شبہات، منفی پروپیگنڈہ اور مختلف قسم کی آزمائشوں کا شکار ہیں۔ ایسے وقت میں ان کے لیے سب سے بڑی ڈھال اور سہارا کردار کی عظمت ہے۔ اگر مسلمان اپنی زندگیوں میں مذکورہ اوصاف کو اپنالیں تو نہ صرف ان کی دینی شناخت محفوظ رہے گی بلکہ وہ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی مثالی کردار ادا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ حالات چاہے کتنے ہی ناسازگار کیوں نہ ہوں، تاریخ شاہد ہے کہ جب مسلمان اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار کے ساتھ میدان میں اترے ہیں تو اللہ کی مدد ان کے شامل حال رہی ہے۔
مولانا قاسمی نے زور دیا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ رشتہ داروں کو جوڑنے اور خاندانوں کو متحد رکھنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ یتیموں، بیواؤں، بے روزگار نوجوانوں اور کمزور طبقات کے سہارا بنیں۔ مہمان نوازی اور انسان دوستی کے ذریعے ملک میں امن و بھائی چارہ قائم کریں۔ اور سب سے بڑھ کر عدل و انصاف اور حق کی حمایت کے لیے ہمیشہ آگے آئیں۔ یہ وہ صفات ہیں جن کو حضرت خدیجہؓ نے نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا سرمایہ بتایا تھا اور انہی صفات میں آج ملت کی کامیابی چھپی ہوئی ہے۔
مولانا قاسمی نے افسوس کا اظہار کیا کہ آج مسلمان آپسی انتشار اور غفلت کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلمان اتحاد، صبر و استقامت اور اجتماعی کردار کو اپنائیں۔ انہوں نے کہا کہ ملت اسلامیہ کی بقا صرف اور صرف اس وقت ممکن ہے جب ہم اپنے نبی ﷺ کے بتائے ہوئے ان اوصاف کو اپنی عملی زندگی میں شامل کریں اور موجودہ چیلنجوں کا مقابلہ اپنے اخلاق اور خدمت کے جذبے کے ساتھ کریں۔
خطاب کے آخر میں مولانا نے پوری ملت اسلامیہ ہند کو پیغام دیا کہ وہ خوف و ہراس سے اوپر اٹھ کر اپنے اعلیٰ کردار اور عملی جدوجہد کے ذریعے ملک میں اپنی مثبت شناخت قائم کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سرزمین ہماری ہے اور اس کے امن و ترقی کے لیے ہمارا کردار سب سے زیادہ مضبوط اور بااثر ہونا چاہئے۔
جلسے کا آغاز قاری شمشاد کی تلاوت سے ہوا۔ مسجد کے امام حافظ مشکور نے نعت پاک کا نذرانہ پیش کیا۔ اس موقع پر مسجد کے متولی کے علاوہ قاری عبد المعید چودھری مفتی اظہار مکرم قاسمی مولانا عاقب مولانا ظفر عالم ندوی قد قاری بد ر الزماں قریشی انکے علاوہ مسجد کے مصلیان واہل محلہ خاص طور پر شریک رہے