ابھے کمار سابق ریسرچ اسکالر جے این یو دہلی
اتراکھنڈ ملک کی پہلی ریاست بن گئی ہے جس نے یکساں سول کوڈ نافذ کر دیا ہے۔ اس قانون کے دائرے میں ریاست اتراکھنڈ کے تمام مذاہب کے باشندے آ گئے ہیں۔ نکاح، طلاق، اور میراث جیسے معاملات میں تمام مذاہب اور فرقوں کے لیے یکساں قوانین بنائے گئے ہیں۔
جو افراد اتراکھنڈ کے ڈومیسائل ہولڈر ہیں لیکن ریاست سے باہر رہتے ہیں۔ ان پر بھی یہ قانون نافذ ہوگا۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد ریاست اتراکھنڈ کے تمام مذاہب کے شہریوں کے لیے شادی اور طلاق کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، لیو اِن ریلیشن شپ میں رہنے والے جوڑوں کے لیے بھی رجسٹریشن ضروری ہوگا۔ تاہم، درج فہرست قبائل کو اس قانون کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے۔ سیاسی مصلحت کی وجہ سے بی جے پی ابھی قبائلی لوگوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔
اتراکھنڈ کے وزیرِ اعلیٰ پُشکر سنگھ دھامی نے 27 جنوری کو یکساں سول کوڈ سے متعلق دہرادون میں واقع ریاستی سیکریٹریٹ میں ایک ویب پورٹل کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر وزیرِ اعلیٰ دھامی نے کہا کہ یہ اقدام ہر شہری کے لیے انصاف اور مساوات کو یقینی بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ یکساں سول کوڈ کی حمایت کرنے والی بھگوا جماعت کی لابی کی یہ دلیل ہے کہ یکساں سول کوڈ مذہب پر مبنی عائلی قوانین سے بہتر ہے، کیونکہ یہ مساوات کو فروغ دیتا ہے۔
دوسری طرف، اس قانون کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقلیتوں کی مذہبی اور ثقافتی آزادی پر ضرب لگاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں، اس قانون نے عوام کی پرائیویسی پر بھی حملہ کیا ہے۔مثال کے طور پر، اس قانون کے نفاذ کے بعد لیو اِن ریلیشن شپ کے لیے لازمی رجسٹریشن کی بھی تنقید ہو رہی ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ یہ شہریوں کی نجی آزادی اور ان کی پرائیویسی میں مداخلت ہے۔
ماہرینِ قانون کا کہنا ہے کہ ایک لبرل معاشرے میں ریاست کا یہ کام ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے شہریوں پر نظر رکھے کہ ان کے تعلقات کس کے ساتھ ہیں اور کس کے ساتھ نہیں۔ دو بالغ افراد کے درمیان رشتے کا فیصلہ ریاست کے بجائے خود ان کی مرضی پر ہونا چاہیے۔
بتایا جا رہا ہے کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے بعد شادی اور طلاق جیسے معاملات کا لازمی طور پر رجسٹریشن ضروری ہوگا۔ اگر کسی نے ایسا نہیں کیا، تو انہیں سرکاری اسکیموں سے باہر کر دیا جائے گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ سرکاری فلاحی اسکیمیں پہلے ہی نئی اقتصادی پالیسیوں کی زد میں آ کر کم ہو رہی ہیں۔ اس کے بعد مزید شرائط نافذ کرنے سے عوام مزید سرکاری منصوبوں سے محروم ہو جائیں گے۔
یکساں سول کوڈ کا اصل ہدف مسلمان کس حد تک ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس قانون کے نفاذ کے بعد حلالہ کے عمل کو انجام دینے والے کو تین سال قید، ایک لاکھ روپے جرمانہ، یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ مسلمانوں کو حلالہ کے نام پر بدنام کیا جاتا ہے، اور دائیں بازو کا یہ پروپیگنڈا رہا ہے کہ مسلم مرد حلالہ کے بہانے خواتین کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہو رہا ہے؟ اس بارے میں افواہیں پھیلانے والے افراد کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرتے۔ مسلمان اس وجہ سے خوف زدہ ہیں کہ جیسے ہی حلالہ پر سخت سزا کا قانون بن گیا، اس کا بےجا استعمال معصوم افراد پر کیا جائے گا۔
اس قانون کے تحت شادی کی عمر بھی متعین کر دی گئی ہے، جو تمام مذاہب کے لوگوں پر لاگو ہوگا۔ شادی کے لیے لڑکے کی عمر 21 سال اور لڑکی کی عمر 18 سال سے کم نہیں ہونی چاہیے۔طلاق کے معاملات میں مردوں اور عورتوں کو مساوی حقوق دینے کا دعویٰ کیا گیا ہے، جبکہ اس قانون میں کثرتِ ازدواج پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
مگر تضاد دیکھیے کہ ریاست اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کی پُرزور وکالت کرنے والے وزیرِ اعلیٰ دھامی اس قانون کی تعریف میں ہندو مذہبی علامتوں کا کھلے عام استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے بیانات ان خدشات کو تقویت دیتے ہیں کہ دائیں بازو کی تنظیمیں یکسانیت کے بہانے اکثریتی سماج کے عقائد اور رسومات کو اقلیتوں پر تھوپنے کی سازش کر رہی ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ دھامی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اتراکھنڈ سے بہنے والی یکساں سول کوڈ کی ‘گنگا’ کا سہرا دیو بھومی اتراکھنڈ کے دیوتا کے سمان لوگوں کو جاتا ہے۔ ایسے بیانات سُن کر اقلیتیں بےچین ہیں۔ ان کا یہ خوف بےجا نہیں، کیونکہ بی جے پی کے وزیرِ اعلیٰ کے بیانات واضح اشارہ کر رہے ہیں کہ یکساں سول کوڈ کا اصل ہدف مسلم سماج ہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، دھامی اس قانون کے بہانے اکثریتی سماج کی مذہبی علامتوں کا سیاسی استعمال کر رہے ہیں
اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ دائیں بازو کے عناصر اقلیتوں کی مذہبی علامتوں اور ان کی ثقافت کے بارے میں تعصب رکھتے ہیں اور اقلیتوں پر یہ دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ اپنی مذہبی اور ثقافتی نشانیوں کو ترک کر دیں یا انہیں صرف اپنے گھروں کی چہار دیواری تک محدود رکھیں اور انہیں عوامی مقامات پر لانے کی غلطی نہ کریں۔حجاب کی ہی مثال لے لیجیے۔ دائیں بازو کو یہ بالکل پسند نہیں کہ مسلم لڑکیاں پبلک اسکولوں میں حجاب پہن کر آئیں، مگر سرکاری تعلیمی اداروں میں ہندو مذہب سے متعلق پوجا پاٹھ کا وہ بھرپور دفاع کرتے ہیں۔ کیا یہ بھگوا جماعت کی دوہری پالیسی نہیں ہے؟
اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اکثریتی سماج کے مذہب اور ثقافت کے مظاہرے کو دائیں بازو کے عناصر عوام کے طرزِ زندگی کا نام دے کر ان کی پبلک نمائش کو فطری قرار دیتے ہیں، جبکہ اقلیتوں کی مذہبی علامتوں کو مذہبی شدت پسندی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔آسان لفظوں میں کہیں تو اکثریتی سماج کے مذہب اور کلچر کو قومی کلچر قرار دینے میں دائیں بازو کو ذرا بھی وقت نہیں لگتا، جبکہ اقلیتوں کی مذہبی اور ثقافتی علامتوں کے منظرِ عام پر آنے کو وہ سیکولرزم پر ایک بڑے حملے سے تعبیر کرتے ہیں۔
کچھ اسی طرح کا موقف وزیرِ اعلیٰ دھامی کے بیانات اور پالیسیوں میں بھی نظر آ رہا ہے، جو یکساں سول کوڈ کی تعریف میں نہ صرف ہندو مذہبی علامتوں کا استعمال کر رہے ہیں، بلکہ یہ بھی کُھل کر کہہ رہے ہیں کہ اس کے نافذ ہونے سے مسلمانوں میں موجود حلالہ، عدت اور طلاق پر روک لگے گی۔یکساں سول کوڈ کی حمایت میں کیے جا رہے پروپیگنڈے کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی حکومت کے نزدیک یکساں سول کوڈ کا بنیادی مقصد جنسی مساوات حاصل کرنا نہیں، بلکہ اسے مسلمانوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہے۔
بھگوا جماعت کے تربیت یافتہ لیڈران اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ جنسی مساوات کی جدوجہد انتہائی اہم ہے، لیکن اسے فرقہ وارانہ رنگ دینا اس پورے مقصد کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی جیسے بی جے پی کے سرکردہ لیڈر تک نے یکساں سول کوڈ کا استعمال مسلمانوں کے خلاف ایک حربے کے طور پر کیا ہے۔ گزشتہ سال، جب یومِ آزادی کے موقع پر وزیرِ اعظم مودی نے لال قلعے سے اپنی تقریر ختم کی، تو عوام کو بڑی مایوسی ہوئی۔ اپنی تقریر میں، وزیرِ اعظم نے مسلم پرسنل لاء کو نشانہ بناتے ہوئے اسے کمیونل پرسنل لاء قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آزادی کے بعد سے بھارت میں کمیونل پرسنل لاء نافذ رہا ہے، جو سماج میں بھید بھاؤ اور اونچ نیچ کو بڑھاوا دیتا ہے۔ یہ پرسنل لاء مذہب پر مبنی ہے، جو سماج میں دوریاں پیدا کرتا ہے۔
انہوں نے سپریم کورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت بھی یکساں سول کوڈ کی بات کرتی رہی ہے۔ وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ایک سیکولر سول کوڈ بنایا جائے اور ایسا ہی کچھ خواب آئین ساز لیڈروں نے بھی دیکھا تھا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ وزیرِ اعظم کا یہ بیان پوری طرح سیاست سے متاثر نظر آیا۔ ان کی تقریر کا لہجہ بھگوا جماعت کے پرچارکوں کی طرح محسوس ہوا۔بھگوا عناصر اکثر یہ افواہ پھیلاتے ہیں کہ پرسنل لاء کا فائدہ صرف مسلمانوں کو ملتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے تمام مذہبی گروپوں کے اپنے اپنے پرسنل لاء ہیں۔ مسلمانوں کی طرح، ہندو، عیسائی، اور پارسی سماج کے اپنے اپنے پرسنل لاء ہوتے ہیں۔ آدی واسی سماج کے بھی اپنے روایتی قوانین ہوتے ہیں، جنہیں ماننے کے لیے وہ پوری طرح آزاد ہیں۔
جب وزیرِ اعظم نے کہا کہ پرسنل لاء کمیونل ہوتا ہے، تو کیا وہ ہندو کوڈ بل کو بھی کمیونل سمجھتے ہیں؟ وزیرِ اعظم سے ایسے سوالات پوچھنے کی ہمت میڈیا بھی نہیں کرتا۔ تاہم، مودی کی تقریر کو سُن کر یہ ظاہر تھا کہ ان کا نشانہ مسلم پرسنل لاء تھا۔ پرسنل لاء کی بات کرکے وہ اپنے سخت گیر حامیوں کو یہ یقین دہانی کروا رہے تھے کہ ان کی حکومت مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔کچھ ایسا ہی کام اتراکھنڈ میں وزیرِ اعلیٰ دھامی بھی کر رہے ہیں، جن کے پاس ریاست اتراکھنڈ میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور ماحولیاتی تباہی کا کوئی ٹھوس حل نہیں ہے۔ اصلی مسائل سے توجہ ہٹانے اور اپنے شدت پسند حامیوں کو خوش رکھنے کے لیے یکساں سول کوڈ کا کارڈ کھیلا جا رہا ہے۔
یکساں سول کوڈ کی حمایت کے پیچھے مسلم مخالف بیانات چلائے جا رہے ہیں۔ بھگوا جماعت یہ غلط فہمی پھیلا رہی ہے کہ مسلم مرد، پرسنل لاء کی آڑ میں مسلم مرد خواتین کا استحصال کرتے ہیں۔ فرقہ پرست طاقتیں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ مسلمان مرد چار چار شادیاں کر کے درجنوں بچے پیدا کر رہے ہیں اور ملک کی آبادی کا تناسب تبدیل کر رہے ہیں تاکہ ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل کر سکیں۔مسلمانوں کو کھلنائک بنا کر یکساں سول کوڈ کے بہانے اکثریتی برادری کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے بی جے پی پوری کوشش کر رہی ہے۔ اتراکھنڈ میں اس آئین اور اقلیت مخالف پالیسی کی شروعات کی گئی ہے۔
اتراکھنڈ کی مجموعی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ ہے، جس میں ہندوؤں کی اکثریت ہے، جو تقریباً 83 فیصد پر مشتمل ہے۔ اتراکھنڈ میں مسلم کمیونٹی دوسری سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہے، جن کی آبادی تقریباً 14 فیصد ہے، جبکہ عیسائیوں کی تعداد محض نصف فیصد سے بھی کم ہے۔یاد رہے کہ 2022 کے اتراکھنڈ ریاستی انتخابات جیتنے کے بعد اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت نے یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی سمت میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔
حکومت نے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کی صدارت سپریم کورٹ کی سبکدوش جج، جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی نے کی۔ 2فروری کو کمیٹی نے اپنا مسودہ حکومت کو پیش کیا، جسے کابینہ نے 4 فروری کو منظور کر لیا۔ اس قانون کا مسودہ 750 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں 392 سیکشن ہیں، اور اسے چار جلدوں میں تیار کیا گیا ہے۔
7 فروری کو اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں اس بل کو پاس کیا، جسے گورنر لیفٹیننٹ جنرل گورمیت سنگھ کے پاس بھیجا گیا، جنہوں نے 28 فروری کو اس کی منظوری دے دی۔ اس کے بعد، یہ بل صدرِ جمہوریہ دروپدی مرمو کو بھیجا گیا۔ 13 مارچ کو صدرِ جمہوریہ نے اس کی توثیق کر دی، جس کے بعد یہ قانون بن گیا۔
بھگوا جماعت پوری شدت کے ساتھ یکساں سول کوڈ کو قومی مساوات اور ملک کی ترقی سے جوڑ کر پیش کر رہی ہے۔ مگر آزادی کی لڑائی کے دوران قومی لیڈروں نے اقلیتوں کے عائلی قوانین کے تحفظ کی بات کہی تھی۔آزادی کی تحریک کے دوران بھی، اکثریتی برادری سے تعلق رکھنے والے کئی مجاہدینِ آزادی نے اقلیتوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ آزادی کے بعد ان کے مذہبی عقائد اور ثقافت کا تحفظ کیا جائے گا۔
ممتاز اسکالر جی نورانی کے مطابق، قومی تحریک کے دوران کانگریس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے پرسنل لاء میں مداخلت نہیں کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پرسنل لاء کے معاملے کو 1931 میں کانگریس نے سپورٹ کیا تھا۔ آزادی کے بعد ہی یکساں سول کوڈ کی بحث شروع ہوئی تھی۔
آئین ساز اسمبلی میں بعض ارکان نے اس کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیا، لیکن اس وقت عمومی رائے یہی تھی کہ اس متنازع مسئلے کو مستقبل کے لیے مؤخر کر دیا جائے، اور یوں اسے آئین کے رہنما اصولوں میں شامل کر دیا گیا۔دائیں بازو کے رہنما یکساں سول کوڈ کی حمایت میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ چونکہ یہ آئین کے رہنما اصولوں کا حصہ ہے، اس لیے اس کا نفاذ ضروری ہے۔ تاہم، وہ اس حقیقت کا ذکر کرنا گوارا نہیں کرتے کہ انہی رہنما اصولوں میں مزدوروں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ پر بھی زور دیا گیا ہے۔
مزدوروں اور خواتین کے حقوق کے معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کرتے ہوئے، بھگوا طاقتیں دانستہ طور پر صرف یکساں سول کوڈ پر زور دیتی ہیں۔ بھگوا تنظیمیں یہ بھی تسلیم نہیں کرتیں کہ رہنما اصولوں کے مقابلے میں بنیادی حقوق کا درجہ دستورِ ہند میں زیادہ اہم ہے۔ اقلیتوں کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کو آئین بنیادی حقوق کا درجہ دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیت علمائے ہند نے اس قانون کو آئین کے خلاف قرار دیا ہے اور عدالت میں اسے چیلنج کیا ہے۔
آج جنسی مساوات کے سب سے بڑے چیمپئن ہونے کا دعویٰ کرنے والی بھگوا تنظیم ہندو کوڈ بل کی سب سے بڑی مخالف رہی ہے۔ انہوں نے بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی پُرزور مخالفت کی اور انہیں ہندو سماج میں اصلاح کرنے سے روکا۔آئین کے معمار، ڈاکٹر امبیڈکر ہندو کوڈ بل میں انقلابی اصلاحات لانا چاہتے تھے تاکہ ہندو خواتین کو بااختیار بنایا جا سکے، مگر اس وقت بھی دائیں بازو کی لابی نے ان کی زبردست مخالفت کی۔
اس وقت کے وزیرِاعظم جواہر لال نہرو نے بھی دائیں بازو کو خوش کرنے کے لیے جنسی مساوات کے اپنے ہی وعدوں سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا۔تب سے لے کر آج تک، ہندوتوا تنظیموں کا رویہ ہندو سماج میں سماجی اصلاحات کے معاملے میں منفی رہا ہے۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ہندو خواتین کو مردوں کے برابر حقوق حاصل ہوں۔عورتوں کی آزادی اور خودمختاری کو کنٹرول کرکے، ہندوتوا طاقتیں ذات پات کے نظام کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ جیسے ہی خواتین کو برابری ملے گی، ذات پات کی دیواریں کمزور ہونے لگیں گی۔
وقت گزرنے کے ساتھ بھگوا جماعت کا موقف بھی یکساں سول کوڈ پر بدلتا گیا، اور اس نے اسے جنسی مساوات سے جوڑ دیا، وہی جماعت جو کل تک ہندو کوڈ بل کی شدید مخالف تھی۔ ایک وقت تھا جب آر ایس ایس بھی یکساں سول کوڈ کے خلاف تھی۔ مثال کے طور پر، 1972 میں آرگنائزر کو دیے گئے انٹرویو میں آر ایس ایس کے سربراہ ایم ایس گولوالکر نے یکساں سول کوڈ کی مخالفت کی تھی اور یکسانیت کے بجائے تکثیریت کی حمایت کی تھی۔
تاہم، 1980 کی دہائی میں جب شاہ بانو کا مسئلہ منظرِ عام پر آیا بی جے پی نے یہ بات بخوبی سمجھ لی کہ مسلم خواتین کی مظلومیت کا مسئلہ اٹھا کر وہ اپنی اقلیت مخالف پالیسی کو مزید آگے بڑھا سکتی ہے۔ اسی تناظر میں، اس نے یکساں سول کوڈ کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنایا اور سیکولر جماعتوں پر شدت پسند مسلم تنظیموں کے حامی ہونے اور مسلم خواتین کے حقوق کے مخالف ہونے کا پروپیگنڈہ شروع کیا۔
اس مشکل گھڑی میں مسلم تنظیموں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کو جمعیت علمائے ہند نے نینی تال ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کر کے چیلنج کیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی اتراکھنڈ یونیفارم سول کوڈ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔21 فروری کو ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے بورڈ نے کہا کہ مذکورہ قانون نہ صرف شریعت کے خلاف ہے بلکہ یہ ملک کے آئین کی متعدد دفعات سے بھی متصادم ہے۔جمعیت نے عدالت میں اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ آئین کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔
12فرووری کو کو انقلاب میں شائع ایک خبر کے مطابق، جمعیت کے صدر ارشد مدنی نے کہا کہ وہ ایسے قانون کو نہیں مانیں گے، جو شریعت کے خلاف ہو۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یکساں سول کوڈ کا مسئلہ صرف مسلم پرسنل لاء کا نہیں ہے، بلکہ ملک کے سیکولرازم کو بچانے کا بھی ہے۔ جہاں بھگوا تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ یکساں سول کوڈ ملک کے قومی اتحاد کے لیے ضروری ہے، وہیں ارشد مدنی نے کہا کہ یہ ملک کی سالمیت کے لیے نقصان دہ ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئین کے آرٹیکلز 25، 26 اور 29 شہریوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتے ہیں۔ انہوں نے شریعت ایکٹ کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یہ مسلم پرسنل لاء کو تحفظ دیتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جہاں موجودہ حکمران ملک میں تمام قوانین کو یکساں بنانے پر زور دے رہے ہیں، وہیں زمینی حقیقت یہ ہے کہ مختلف ریاستوں میں آئی پی سی اور سی آر پی سی سے متعلق قوانین بھی ایک جیسے نہیں ہیں۔انہوں نے یہاں تک کہا کہ گائے کے ذبیحہ سے متعلق قوانین بھی ہر ریاست اتراکھنڈ میں مختلف ہیں۔
یکسانیت کے بجائے تنوع کی اہمیت پر 21ویں لاء کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں زور دیا تھا، لیکن بی جے پی حکومت اسے مسلسل نظر انداز کر رہی ہے اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ پر بضد ہے۔ لا کمیشن نے اگست 2018 میں فیملی لا سے متعلق اپنی ایک اہم رپورٹ شائع کی تھی، جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ملک میں یکساں سول کوڈ کو زبردستی نافذ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اس رپورٹ میں مذہبی تنوع کی اہمیت پر زور دیا گیا اور تجویز دی گئی کہ خواتین کے خلاف غیر مساوی عائلی قوانین اور غیر منصفانہ اقتصادی نظام کے خاتمے کے لیے قانون سازی کی جانی چاہیے۔ مزید برآں، لا کمیشن نے واضح کیا کہ مسلمانوں میں کثرتِ ازواج کے واقعات بہت کم ہیں، جبکہ غیر مسلم بعض اوقات اسلام قبول کر کے ایک سے زیادہ شادیاں کر رہے ہیں۔ کمیشن نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اسلام نے خواتین کو مالی حقوق دیے ہیں اور طلاق کے ذریعے ناکام شادیوں سے نجات حاصل کرنے کا راستہ فراہم کیا ہے۔
اس رپورٹ میں عیسائی عائلی قوانین میں بہتری کی سفارش کی گئی، جبکہ پارسی عائلی قوانین میں بھی تبدیلی کی تجویز دی گئی تاکہ کسی پارسی کے غیر پارسی سے شادی کرنے پر اسے کمیونٹی سے خارج نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کی پارسی شناخت ختم ہو۔
مزید برآں، رپورٹ میں اس بات پر افسوس ظاہر کیا گیا کہ ہندو اپنے عائلی قوانین کے تحت ٹیکس میں رعایت حاصل کر لیتے ہیں، جبکہ عیسائیوں، مسلمانوں اور پارسیوں کو یہ سہولت میسر نہیں۔ رپورٹ میں ہندو کوڈ بل کی خامیوں اور اس میں اصلاحات کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ اسپیشل میرج ایکٹ میں بھی اصلاحات کی سفارش کی گئی اور شادی سے قبل دی جانے والی ایک ماہ کی نوٹس کی شرط کو کم کرنے پر زور دیا گیا تاکہ بین المذاہب اور بین الذاتی شادیوں میں حائل رکاوٹیں ختم کی جا سکیں۔
کمیشن کی 182 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں نکاح، طلاق، بچوں کی تحویل، سرپرستی، گود لینے، وراثت اور جائیداد کی تقسیم سے متعلق اصلاحات کا ذکر ہے۔ اس کا بنیادی مقصد صنفی امتیازات اور نابرابری کو ختم کرنا ہے۔ لا کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، ہندو میرج ایکٹ 1955 میں اگرچہ کچھ اصلاحات کی گئیں، مگر مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ ہندو کوڈ بل کے نفاذ کے دوران شمالی ہندوستانی اعلیٰ ذات کی اخلاقیات کو پورے ہندو سماج پر مسلط کر دیا گیا۔
رپورٹ نے اس پر افسوس ظاہر کیا ہے کہ ابھی بھی ایسے شعبے موجود ہیں جہاں مردوں اور عورتوں کے درمیان عدم مساوات برقرار ہے، اور اگر ان رویوں کو آئین کے بنیادی حقوق کی روشنی میں پرکھا جائے، تو وہ قابل قبول نہیں ہوں گے۔ مثال کے طور پر، رپورٹ واضح طور پر کہتی ہے کہ بشریاتی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ہندو سماج میں اندرونی تضادات موجود ہیں، اور اگرچہ ان کے خلاف قوانین موجود ہیں، لیکن وہ مقامی سطح پر اب بھی رائج ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وسیع تر ہندو تشخص دوسرے اقلیتوں کو ان کے اپنے پرسنل لاء بنانے کی اجازت نہیں دے رہا۔ مثال کے طور پر، سکھ برادری طویل عرصے سے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ انہیں آنند میرج ایکٹ 1909 کے تحت اپنی شادیوں کو رجسٹر کرنے کی اجازت دی جائے، مگر انہیں ہندو کوڈ بل کے دائرے میں رکھا گیا ہے۔
جب خود لا کمیشن یکساں سول کوڈ کو غیر ضروری قرار دے چکا ہے اور عائلی قوانین کو وسیع تناظر میں دیکھ رہا ہے، تو پھر اسے ہندو بنام مسلمان کے مسئلے تک محدود کرنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اب جب کہ یہ معاملہ عدالت تک پہنچ گیا ہے، تو کورٹ کا یہ فریضہ ہے کہ وہ پورے معاملے کو آئینی اقدار اور اس کی روح کو سامنے رکھ کر دیکھے۔ عدالت بخوبی جانتی ہے کہ ہندوستان اقلیتوں کو بنیادی حقوق کے تحت یہ ضمانت دیتا ہے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد پر عمل کرنے اور اپنی ثقافت کو محفوظ رکھنے میں مکمل طور پر آزاد ہیں۔
آئین سازوں کو خدشہ تھا کہ ریاست کہیں اقلیتوں کے مذہبی اور ثقافتی حقوق پر تجاوز نہ کر لے، اسی لیے انہیں آئینی تحفظ دیا گیا تاکہ مستقبل میں دائیں بازو کے حکمران اپنی طاقت کا غلط استعمال نہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ، عدالت کو فیصلہ دیتے وقت ملک کی تحریکِ آزادی اور بھارت کے کثیر المذاہب معاشرے کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے۔ اسے اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا جمہوریت اقلیتوں کے سماجی، اقتصادی اور ثقافتی حقوق کی ضمانت دیے بغیر کامیاب ہو سکتی ہے؟
بابا صاحب امبیڈکر، جنہوں نے بھارت کے آئین کو تیار کرنے میں بڑی محنت کی، ان کی بھی یہ رائے تھی کہ جمہوریت کا مطلب موبوکریسی (ہجوم کی حکمرانی) نہیں ہے۔ انہوں نے صاف طور پر کہا تھا کہ اقلیتوں کے حقوق کے بغیر جمہوریت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کے محکوم طبقات عدالت سے انصاف کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔