از:شاہ خالد مصباحی
ہندوستان ایک جمہوری، پرامن اور اخوت پرور ملک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اپنی داخلی و خارجی پالیسیوں میں یہ ہمیشہ امن و آشتی، اور بھائی چارے کا علمبردار رہا ہے۔ عالمی جنگوں سے لے کر خطے کی پیچیدہ کشیدگیوں تک، بھارت نے ہمیشہ مصالحت، برداشت اور گفت و شنید کو ترجیح دی ہے۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً سرحدی کشیدگیوں نے سر اٹھایا، لیکن ہندوستان نے کبھی جنگ کو اپنی پالیسی کا بنیادی جزو نہیں بنایا۔ بھارت پاک کے درمیان کشیدگی آزادی کے بعد سے جاری ہے۔
چار بڑی جنگوں (1947، 1965، 1971، 1999) اور متعدد جھڑپوں نے بھارت پاک، دونوں ممالک کو بے شمار جانی و مالی نقصانات سے دوچار کیا۔ تاہم، بالآخر ہمیشہ مذاکرات، معاہدات اور درمیانی راستے پر ہی واپسی ہوئی، چاہے وہ 1966 کا تاشقند معاہدہ ہو یا 1972 کا شملہ معاہدہ۔ یہ سب اس امر کی دلیل ہیں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ نقصان دہ اور وقتی ابال ہے
کشمیر کا تنازعہ ان تمام جنگوں کا مرکزی محور رہا ہے۔ 1947 میں ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم سے جو خلاء پیدا ہوا، وہ اب تک پر نہیں ہو سکا۔ نتیجتاً کشمیر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا: ایک پاکستان کے زیر انتظام، دوسرا بھارت کے زیر انتظام۔ مگر ان دونوں حصوں میں آج بھی لاکھوں شہری بستے ہیں جن کی جان و مال کی حفاظت بھارت پاک دونوں ملکوں کی بنیادی اخلاقی و انسانی ذمہ داری ہے۔
گزشتہ دہائیوں میں سیاچن (1984)، کارگل (1999)، سرجیکل اسٹرائیکس (2016) اور بالاکوٹ حملہ (2019) جیسے واقعات نے جنگی ماحول کو دوبارہ ہوا دی، جس کی جڑیں کہیں نہ کہیں دہشت گردی اور مسئلہ کشمیر میں پیوستہ ہیں۔ ان حساس اور دیرینہ تنازعات پر دونوں ممالک کے سربراہان کو کھل کر سنجیدہ، بامقصد مکالمہ کرنا چاہیے، تاکہ عالمی سطح پر ایک پرامن اور مدبرانہ تاثر قائم ہو۔
اگرچہ مسئلہ پیچیدہ ہے، لیکن ان دونوں قوموں کے درمیان ثقافت، ادب، موسیقی، زبان، فلسفہ، مذہب اور تہذیب کی وہ قدر مشترکات موجود ہیں جنہوں نے ہمیشہ پل کا کام دیا۔ دونوں ملکوں کے دانشور، فنکار، ادیب اور صحافی ماضی میں ایک دوسرے کے جذبات و اقدار کے نہ صرف معترف رہے، بلکہ انہوں نے باہمی ہمدردی و محبت کے پیغام کو اپنے فن کے ذریعے عوام تک پہنچایا۔
ہم نے جنگوں کے دن بھی دیکھے ہیں، مگر امن کے شب و روز بھی ہمارے حافظے کا حصہ ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ شہری سطح پر علمی و ادبی تبادلے کو فروغ دیا جائے، مکالمے کے در وا ہوں، اور بین الاقوامی یا حکومتی سطح پر جو تعطل ہو، اُسے عوامی سطح پر گفت و شنید کے ذریعے پُر کیا جائے۔ مشترکہ مجالس، ڈائیلاگ سیشنز، اور امن کے حامی پلیٹ فارمز کو تقویت دی جائے۔
یہ بھی لازم ہے کہ ریاستی و جغرافیائی تنازعات کو عوامی فلاح و بہبود کے زاویے سے دیکھا جائے۔ کشمیر محض ایک خطہ نہیں، بلکہ لاکھوں انسانوں کا مسکن ہے۔ وہاں کی عوام کو سیاسی کشمکش کا ایندھن نہ بنایا جائے، بلکہ ان کے بنیادی انسانی حقوق، تعلیم، صحت، روزگار اور تحفظ کے تناظر میں حل تلاش کیے جائیں۔ ثالثی یا سفارتی سطح پر حل تلاش کرنے کے امکانات کو رد نہیں کرنا چاہیے، بشرطیکہ نیت اور نکتۂ آغاز عوامی خیر خواہی پر مبنی ہو۔
بھارت پاک دونوں قدرتی وسائل، زراعت، معدنیات، توانائی اور افرادی قوت کے اعتبار سے مالا مال ہیں۔ اگر یہ دونوں ایک دوسرے کے معاون بن جائیں تو معاشی ترقی اور علاقائی خوش حالی کی ایک نئی تاریخ رقم ہو سکتی ہے۔ واہگہ اور مظفر آباد جیسے تجارتی راستوں کو فعال بنانے، باہمی اقتصادی منصوبوں میں شرکت، اور زراعت و صنعت میں مشترکہ پیش رفت سے ان دونوں ملکوں کو بے شمار فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
ثقافتی اور تعلیمی تبادلے بھی اس عمل کا اہم حصہ ہیں۔ ادب، فن، موسیقی اور صحافت کی دنیا سرحدوں میں قید نہیں ہوتی۔ بڑے غلام علی خان، فیض احمد فیض، امرتا پریتم، نصرت فتح علی خان، احمد ندیم قاسمی، لتا منگیشکر، علامہ اقبال، اور ڈاکٹر زاکر حسین جیسی شخصیات نے دونوں طرف کے عوام کو جوڑنے کا کام کیا۔ ان کے فن کو سرحدوں نے نہیں روکا، بلکہ عوام نے یکساں طور پر سراہا۔ ان جیسے فنکاروں، ادیبوں، اور دانشوروں کی نئی نسل کو بھی باہمی تعاون کی راہ پر آگے بڑھنا ہوگا۔
آج ضرورت ہے کہ ادیب، فنکار، صحافی اور دانشور صرف مشاہدہ نہ کریں بلکہ باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے متحرک اور فعال کردار ادا کریں۔ مثبت بیانیہ، فکری ہم آہنگی، اور مشترکہ ادب و ثقافت کا فروغ وہ راستے ہیں جو جنگ کی فضا کو ختم کر کے امن کے دیپ روشن کر سکتے ہیں۔
کیونکہ جنگ صرف سرحدوں پر نہیں لڑی جاتی، بلکہ اس کا زہر دلوں میں اترتا ہے، ذہنوں کو پراگندہ کرتا ہے، اور تہذیبوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ جنگ کسی فرد، ریاست یا قوم کا مستقل حل نہیں— یہ ہمارے بھارتی نظریہ "وسودھیو کٹمبکم” (پوری دنیا ایک خاندان ہے) کے بھی خلاف ہے۔
آیئے! نفرت کے نعرے چھوڑ کر محبت کا پیغام عام کریں،
فوجی محاذوں سے نہیں، عوامی مکالموں سے مستقبل تعمیر کریں،
اور مل کر امن کا وہ چراغ روشن کریں جو آنے والی نسلوں کے لیے امید و خوش حالی کا استعارہ بنے۔