از شفیق فیضی
حکومتی اداروں میں سنوائی نہیں ہوتی، تعصب پرستی پرمبنی احکامات صادر کئے جاتے ہیں، یہاں تک کہ عدلیہ بھی انصاف فراہم کرنے میں امتیازی سلوک کا شکار ہے، خاص کر مسلمانوں کو یہ شکایت سب سے زیادہ رہتی ہے،کہ ان کے ساتھ قانون امتیازی سلوک کرتا ہے، حالانکہ جمہوریت کی روح کسی بھی امتیازی برتاؤ کے سخت خلاف ہے، لیکن اس کے باوجود اگر حکمرانوں میں انصاف پسندی نہ ہو تو نسلی، ذاتی، علاقائی، اور مذہبی عصبیت اپنا کام کرنے لگتی ہے۔
تعصب پرستی ایک ناسور ہے جو ملکی ترقی اور شخصی آزادی دونوں کو زک پہنچانے کا کام کرتی ہے، بدقسمتی سے بھارت میں مذہبی تعصب پرستی کی جڑیں انتہائی گہرائی تک سرایت کرچکی ہیں۔ پولس تھانوں سے لے کر عدالت کے ایوانوں تک ذات اور مذہب کی بنیاد پر فیصلے سنائے جارہے ہیں، کثرت واقعات اور سوشل میڈیا کی آسان رسائی کے باعث، اب یہ بھید بھاؤ معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ نسلی امتیاز یا عدم مساوات اب بحث کا موضوع نہیں بنتے۔
مورخہ 1 ستمبر 2025 کو سدھارتھ نگر ضلع عدالت جانے کا اتفاق ہوا۔ عدالتی طریق کار اور انصاف کے تقاضوں پر ہوئی گفتگو سے پتا چلا کہ ملک میں قانون اور عدلیہ، دونوں ہی وکیلوں کی رکھیل بن کر رہ گئی ہیں، عدالت اور قانون دونوں وکلاء کی منشا کے مطابق چلنے پر مجبور ہیں، کورٹ مینویل کے بجائے بار ایسوسی ایشن طے کرتا ہے کہ کس کیس کی سنوائی ہوگی، اور کس مقدمے کی پیش رفت نہیں ہونے دینا ہے، سب کچھ بار ایسو سی ایشن طے کرتا ہے۔
گذشتہ کئی ہفتوں سے مولانا شبیر مدنی بانی الفاروق انٹر کالج امونا اٹوا بازار سدھارتھ نگر کا معاملہ کافی چرچا میں ہے، اب تک میری معلومات کے مطابق اس کیس کی 4 تاریخیں پڑچکی ہیں، لیکن کسی ایک تاریخ میں بھی سنوائی نہیں ہوپائی۔ جس کی وجوہات میں نے اپنے یوٹیوب چینل نیوز جی 24 اور فیس بک پیج پر تفصیل سے بیان کی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق سدھارتھ نگر بار ایسو سی ایشن میں کم و بیش کل 700 وکلاء رجسٹرڈ ہیں، جن میں کم یا زیادہ 50 مسلم وکیل بھی ہیں۔ دال میں نمک کی حیثیت میں ہیں اس کے باوجود مسلم وکیلوں کی اپنی کوئی یونین نہیں ہے۔ ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ان مسلم وکیلوں میں مذہبی ہمدردی اور ملی معاونت کا جذبہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
مولانا شبیر مدنی کے معاملے میں اب تک چوتھی مرتبہ سنوائی نہیں ہوئی، جس کی واحد وجہ سدھارتھ نگر بار ایسوسی ایشن کا مسلم مخالف چہرہ ہے۔ ہر بار ہندونواز وکلاء پیشگی ہڑتال کی کال دے دیتے ہیں، جس کی وجہ سے مولانا شبیر کا معاملہ آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے۔
ملک میں چودہ فیصدی کی آبادی ہونے کے باوجود ملت اسلامیہ ہند کے پاس وکیلوں کی شدید قلت ہے، اگر عدالتوں میں مسلم وکلاء کی اچھی تعداد ہوتی، تو بارایسوسی ایشن میں بھی مسلمانوں کی مناسب نمائندگی متوقع تھی، لیکن مسلم نمائندگی کی شرح کم ہونے کے سبب ہی بار ایسوسی ایشن پر فرقہ پرست وکیلوں کا قبضہ ہے، جو تعداد کی کثرت کے بل پر پورے عدالتی نظام کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں۔
تھوڑے بہت مسلم وکیل اگر عدالتوں میں پائے بھی جاتے ہیں، تو حصول زر ہی ان کی زندگی کا واحد مقصد ہے، پیسوں کے لئے ایسے وکلاء اپنے ہی لوگوں کے خلاف سازشیں کرکے فرضی معاملوں میں مسلمانوں کو پہلے جیل بھیجتے ہیں، بعد میں اسی مقدمے کی پیروی کے نام پر دلالی کرتے ہیں۔
ملت اسلامیہ کے لئے یہ انتہائی شرمناک مسئلہ ہے کہ ملت بروقت چاروں خانے چت ہوچکی ہے لیکن کسی کو اس کی فکر نہیں، کچھ کوششیں ضرور کی جارہی ہیں، لیکن وہ بھی ناکافی ہیں، خود نیوز جی 24 کی ریسرچ کے مطابق ملک میں اگر مسلمانوں کو اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرنا ہے، تو بروقت مسلمانوں کو 3 میدانوں میں ایک ساتھ کام کرنا اشد ضروری ہے
اول: معیاری تعلیم، جو مسلمانوں میں جانکاری کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت کی ضمانت دے، تعلیم کو انفرادی مفاد پرستی کے بجائے قومی اور ملی خدمات کا ذریعہ بنائے۔
دوسرا: مسلمانوں میں سیاسی بیداری لائی جائے، ایسی سیاسی قیادت کھڑی کی جائے جو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام برادران وطن کے ساتھ بھی انصاف کرے، انصاف کی فراہمی اور قانون کی بالادستی میں اپنے اور پرائے کا امتیاز نہ کرے۔
تیسری اور آخری چیز، جو دونوں میدانوں کو بھی مضبوط کرے گا، وہ ایک آزاد اور انصاف پسند میڈیا ہاؤس ہے، جو پروپیگنڈہ نیوز کے خلاف کام کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے ہر مسئلے میں انصاف پسندانہ تجزیہ پیش کرے، تاکہ گودی میڈیا کی لعنت سے مسلمانوں اور بھارتی عوام کو بچایا جاسکے۔
نیوز جی 24 کا قیام اسی مقصد کے تحت عمل میں لایا گیا ہے، جس نے مختصر سی مدت میں ہرممکن ملت کی آواز بننے کی کوشش کی ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ برس میں متعدد معاملات میں نیوز جی 24 نے بہتر کارگردگی کا مظاہرہ کیا، یہ ادارہ ملت کی مزید بہتری کے لئے کام کرے، اس کے ملت کے بہی خواہوں کو آگے آنا چاہئے ، تاکہ اس کارواں کو مزید ترقی دی جاسکے۔