از: ذکی طارق بارہ بنکوی سعادت گنج، بارہ بنکی
اردو شاعری صرف جذبات کی ترجمان نہیں بلکہ تہذیبی شعور کی علمبردار بھی ہے۔ غالب کی فکری گہرائی، اقبال کا فلسفہ، میر کی سادگی اور جوش کی ولولہ انگیزی اردو ادب کی وہ روشن قندیلیں ہیں جن سے نئی نسل نے روشنی لی ہے۔ انہیں قندیلوں سے اپنی روشنی کشید کرنے والے ممتاز شعراء میں ایک اہم نام سلیم تابش کا ہے، جنہوں نے روایت کو سنبھالتے ہوئے جدت کے ساتھ ایسا شعری سفر طے کیا ہے جو قاری کے دل و دماغ دونوں کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔
جب موجودہ دور میں شاعری صرف الفاظ کی بازی گری بن کر رہ گئی، تب سلیم تابش نے اپنے اشعار میں حقیقت، درد اور شعور کی گہرائی بھر دی ہے وہ ان خوش نصیب شعراء میں سے ہیں جنہوں نے الفاظ کو صرف سجایا نہیں، بلکہ ان کے ذریعے زندگی کی ناہمواریوں کو بیان کرنے کا ہنر بھی پیدا کیا ہے۔
سچائیوں کے تلخ حوالے تلاش کر
سقراط ہے تو زہر کے پیالے تلاش کر
ان کی شاعری میں صرف جمالیات نہیں، بلکہ ایک فکری تحریک، ایک شعور انگیز درد، اور ایک عملی دعوتِ نظر بھی شامل ہے۔ سلیم تابش قاری کو صرف شعر نہیں سناتے، بلکہ اسے حالات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا حوصلہ عطا کرتے ہیں۔
اس کی ترقیوں کا سبب جان جائے گا
اس آدمی کے پاؤں کے چھالے تلاش کر
سلیم تابش کی تخلیقات بہتے ہوئے پانی کی مانند ہیں۔رواں، شفاف، اور زندگی کا استعارہ لیے ہوئے۔
مسلسل چلتے رہنا زندہ رہنے کی علامت ہے
یہی پیغام دیتا ہے ہمیں بہتا ہوا پانی
شاعر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ زندگی کی ناہمواریوں کو بیان کرتے ہوئے بھی قاری کو حوصلہ دے۔ سلیم تابش کی شاعری میں یہی توازن نمایاں ہے۔ وہ نہ مایوسی کے علمبردار ہیں اور نہ غیر حقیقی خوش فہمیوں کے، بلکہ وہ اپنی شاعری کے توسط سے ایک ایسا آئینہ پیش کرتے ہیں جس میں معاشرہ اپنا اصل چہرہ دیکھ سکے۔
شعورِ بندگی سے نابلد ہیں آج بھی کتنے
کہاں پر سر جھکانا تھا، کہاں پر سر جھکاتے ہیں
معاشرتی سچائیوں کو وہ نہایت سادہ مگر گہرے الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔ سلیم تابش نے تعلیم یافتہ معاشرے کے داخلی تضادات کو جس انداز میں اجاگر کیا ہے، وہ قابلِ توجہ ہے۔
ترقی یافتہ شہروں میں جا کر ہم نے دیکھا ہے
پڑھے لکھے اندھیری رات میں رکشہ چلاتے ہیں
وہ صرف بلند خیالی پر زور نہیں دیتے بلکہ انسان کو اپنی جڑوں سے وابستہ رہنے کا سبق بھی دیتے ہیں۔ سلیم تابش کے یہ اشعار ایک فکری فلسفے کا اعلان ہیں۔
بلندیوں پر پہنچنے والے نگاہ میں پستیاں بھی رکھنا
تجھے یہ شاید خبر نہیں ہے عروج کیا ہے، زوال کیا ہے
روحانیت کا رنگ بھی سلیم تابش کے کلام میں لطافت کے ساتھ رچا ہوا ہے۔ خدا سے قربت کا بیان ان کے اشعار میں ایک روحانی لذت لیے ہوئے ہوتا ہے۔
کسی میخوار پہ جب تیرا کرم ہوتا ہے
سوئے میخانہ نہیں، سوئے حرم ہوتا ہے
ان کے اشعار تنہائی کی اذیت، زندگی کی ٹھوکریں، اور اندرونی کرب کو بیان کرتے ہیں لیکن امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے۔ سلیم تابش اس دکھ کو بھی پُرجمال بنا دیتے ہیں۔
داغِ عصیاں کے پر دُھل جاتے ہیں رفتہ رفتہ
کس کا دامن شبِ تنہائی میں نم ہوتا ہے
سلیم تابش کی شاعری میں وہ کرب ہے جو قاری کے اندر کے خاموش زخموں کو آواز دیتا ہے۔
ہونٹوں پہ تبسم ہے مگر آنکھ ہے نم بھی
یہ سوچ کے ہنس دیتے ہیں کیا چیز ہیں ہم بھی
محبت کو وہ کسی سمجھوتے یا مجبوری کا نام نہیں دیتے، بلکہ اس کے اصل خلوص اور شدت کو سامنے رکھتے ہیں۔ سلیم تابش کا یہ انداز عشق کے پاکیزہ تصور کو نئی جان بخشتا ہے۔
شرطوں پہ محبت ہمیں منظور نہیں ہے
مجبور اگر تم ہو، تو مجبور ہیں ہم بھی
سماجی مسائل پر بھی ان کی گرفت گہری ہے۔ سلیم تابش کا یہ شعر بوڑھے والدین اور ان کی بےقدری پر ایک خاموش احتجاج ہے۔
بوڑھے شجر کو بارِ اذیت یوں بھی اٹھانا پڑتا ہے
اپنے زندہ ہونے کا احساس دلانا پڑتا ہے
خاندانی رشتوں اور قربانیوں پر سلیم تابش کی شاعری ایک ادبی عقیدت بن کر ابھرتی ہے۔
یوں ہی تو کوئی گلشن آخر ہوتا نہیں شاداب یہاں
رشتوں کی بنیاد کو اپنا خون پلانا پڑتا ہے
سلیم تابش کی شاعری میں غربت کسی حسرت یا شرمندگی کا نام نہیں بلکہ وقار کا ایک پُرامید استعارہ بن جاتی ہے۔
اپنے حصے میں وہ عیش و عشرت نہیں
پھر بھی قسمت سے کوئی شکایت نہیں
کچھ امیروں کی مجبوریاں دیکھ کر
اپنی غربت پہ ہم مسکرانے لگے
وہ اردو زبان کو صرف ایک وسیلہ اظہار نہیں بلکہ ایک تہذیبی ورثہ سمجھتے ہیں۔ سلیم تابش کے یہاں زبان کا احترام اور عشق کی لطافت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
تھوڑا سحرالبیان رہنے دے
گھر میں اردو زبان رہنے دے
واقعاتِ زمانہ لکھ تابش
عشق کی داستان رہنے دے
جہیز جیسے معاشرتی ناسور پر وہ شدید غصے اور طنز کے ساتھ حملہ کرتے ہیں۔ سلیم تابش کے الفاظ میں ایک سچائی کی گھن گرج سنائی دیتی ہے۔
خدا کی مار ہو ان پر، خدا کی لعنت ہو
جہیز مانگتے ہیں جو بھکاریوں کی طرح
سلیم تابش اردو شاعری کی اس روایت کے امین ہیں جس میں الفاظ صرف بولتے نہیں، محسوس بھی ہوتے ہیں۔ ان کے اشعار میں محض جذبات کی ترسیل نہیں بلکہ فکری بالیدگی، زندگی کا مشاہدہ، اور انسانی رشتوں کی نبض شناسی بھی نظر آتی ہے۔ وہ غزل کو محض رومانی اظہار کا وسیلہ نہیں بناتے، بلکہ اسے سماجی شعور، روحانی گہرائی، اور ذاتی تجربات کی نرمی سے نکھارتے ہیں۔
ان کی شاعری آج کے اس پرآشوب دور میں روشنی کی ایک ایسی لکیر ہے جو قاری کے اندر امید کی چنگاری جلاتی ہے، لفظوں کے ذریعے زخموں پر مرہم رکھتی ہے، اور خوابوں کو حقیقت سے جوڑنے کا ہنر سکھاتی ہے۔ سلیم تابش کا کلام صرف ادب نہیں، ایک احساس ہے۔جو دل کو چھو کر گزر جاتا ہے اور ذہن پر دیرپا اثر چھوڑ جاتا ہے۔
سلیم تابش نئی نسل کے اُن شعراء میں نمایاں ہیں جو لفظوں کے تقدس کو سمجھتے ہیں اور شاعری کو محض تالیوں کا کھیل نہیں، بلکہ ضمیر کی آواز سمجھتے ہیں۔ ایسے شعراءکا زندہ رہنا صرف اردو کے لیے نہیں، بلکہ انسانیت کے لیے بھی خوش آئند ہے۔
ان کا قلم روایت کا احترام بھی کرتا ہے اور وقت کی نبض پر بھی ہاتھ رکھتا ہے۔ سلیم تابش کی شاعری میں ایک ایسا پیغام پنہاں ہے جو نہ صرف ادبی محفلوں میں گونجتا ہے بلکہ عوام کے دلوں میں بھی رس گھولتا ہے۔
بلاشبہ، سلیم تابش اردو شاعری کی اس روشن روایت کے وارث ہیں جو دلوں کو گرما دیتی ہے، ذہنوں کو بیدار کرتی ہے اور ضمیروں کو جھنجھوڑتی ہے۔ اور یہی کسی سچے شاعر کی سب سے بڑی پہچان ہوتی ہے۔