مقررین نے عدیل منصوری کی فنّی، تدریسی اور ادبی خدمات کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا
بارہ بنکی (ابوشحمہ انصاری)اردو ٹیچرس ویلفیئر ایسوسی ایشن اتر پردیش، کاروان انسانیت اور مانوتا پبلک اسکول کے اشتراک سے صدر جمہوریہ ہند سے اعزاز یافتہ ممتاز شاعر و استاد عدیل منصوری کے پہلے شعری مجموعہ فکر و نظر کی شاندار تقریبِ رونمائی مانوتا پبلک اسکول بنکی ٹاؤن میں منعقد ہوئی۔ اس یادگار ادبی محفل کی صدارت معروف ادیب و دانشور ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی نے فرمائی۔
اس موقع پر مہمانِ خصوصی جناب عبدالمبین، اسسٹنٹ ڈائریکٹر محکمہ بیسک تعلیم، نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدیل منصوری ہمارے محکمہ کے نمایاں اور قابل اساتذہ میں شامل ہیں۔ ان کی قابلیت کا اعتراف ہی ہے کہ انہیں صدرِ جمہوریہ ہند کی جانب سے نیشنل ٹیچر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی شاعری بھی نہایت عمدہ، سادہ اور سلیس ہے جو قاری کے دل میں اترتی ہے۔
ڈاکٹر عبیداللہ چودھری نے کہا کہ عدیل منصوری اس دور میں اردو زبان و ادب کے خاموش خدمت گار ہیں۔ شاعری انہیں وراثت میں ملی ہے کیونکہ ان کے والد مرحوم حکیم مولوی امین بیدل بارہ بنکوی، اپنے وقت کے معروف شاعر و ادیب تھے۔ کتاب کے مطالعے کے بعد ہر صاحبِ ذوق نے ان کے شعری شعور پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
ڈاکٹر انور حسین خاں نے عدیل منصوری کے تدریسی پہلو کے ساتھ ان کے ادبی ذوق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے، ان شاءاللہ مستقبل میں بھی ان کی فکری کاوشیں منظر عام پر آئیں گی۔ ان کا مستقبل نہایت تابناک ہے۔
اختر جمال عثمانی نے کہا کہ عدیل منصوری کی شخصیت کے کئی روشن پہلو ہیں؛ وہ معلم ہیں، اردو کے بے لوث خادم ہیں اور ایک عمدہ شاعر بھی۔ ان کے کلام میں قدیم و جدید دونوں رنگوں کی حسین آمیزش ہے۔
ڈاکٹر ایس ایم حیدر نے اپنے مقالے میں کہا کہ عدیل منصوری نہایت خلیق اور خوش اخلاق انسان ہیں، اسی لیے ان کی شاعری میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کی جھلک ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہے۔ مذہبی رنگ کے اشعار بھی ان کی غزلوں میں جابجا موجود ہیں۔ وہ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں اور اپنی شاعری کے ذریعے بھی زبان کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ فکر و نظر کا مطالعہ زیادہ سے زیادہ افراد کو کرنا چاہیے۔
خلیل احسن نے تمام مہمانانِ گرامی کا تعارف کراتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدیل منصوری میرے چھوٹے بھائی ہیں اور ان کے فن و شخصیت میں والد مرحوم کی تربیت کا بھرپور عکس نمایاں ہے۔ ان کے اشعار کو سن کر اور گھر کے ادبی ماحول سے متاثر ہو کر انہوں نے درس و تدریس کے ساتھ شاعری کا سفر شروع کیا۔ امین بیدل کے خانوادے سے یہ پہلا شعری مجموعہ منظر عام پر آیا ہے، جو ہم سب کے لیے باعثِ فخر و سعادت ہے۔
صدرِ جلسہ ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی نے فکر و نظر کی اشاعت پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اس مجموعہ کلام کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ آج بھی اساتذہ کی صف میں شعری فکر کرنے والے اہلِ قلم موجود ہیں۔ جس طرح بیسک تعلیم کے شعبے میں انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے ایک مقام حاصل کیا ہے، وہ وقت دور نہیں جب ان کی شاعری بھی عوام میں مقبولیت حاصل کرے گی۔
اس موقع پر ممتاز شعرا خلیل فریدی (رائے بریلی)، عزم گونڈوی، فاروق عادل (لکھنؤ)، فیض خمار، نصیر انصاری اور معید رہبر نے فکر و نظر اور عدیل منصوری کی شاعری کے حوالے سے اپنے منظوم کلام پیش کر کے سامعین سے خوب داد وصول کی۔
مہمانان کی گلپوشی اور یادگاری مومنٹو پیش کرنے کی سعادت سید ظفر اقبال، طارق جیلانی اور رام کمار مصرا ایڈوکیٹ نے حاصل کی۔
اس تقریب میں شرکت کرنے والوں میں ڈاکٹر سید صبیح احمد، معراج الحسن ندوی، ذکی طارق بارہ بنکوی، ماسٹر اسرار، ماسٹر شعیب، عبدالمجید اقبال صابری، رفیع احمد سحر ایوبی، محمد شکیل منصوری، عبید احسن، محمد فیصل، افاق علی، محمد حسنین، حافظ محمد حسان ذوالنورین، ماسٹر زبیر، صغیر احمد، شبیر احمد، فضیل احمد خان، سید ذکریا، شکیل انصاری اور دیگر کئی معزز شخصیات شامل تھیں۔
جلسے کی نظامت کے فرائض معروف ناظم شکیل گیاوی صاحب نے بخوبی انجام دیے۔