آئین پر بھروسہ رکھنے اور حق شہریت کے استعمال کی ترغیب کے ساتھ جمعیۃ علماء شہر کانپور کا ایک روزہ مذاکراتی اجتماع اختتام پذیر
کانپور (محمد عثمان قریشی) جمعیۃ علماء ہند کی ہدایت پر جمعیۃ علماء شہر کانپور کے جملہ اراکین منتظمہ و مدعوئین خصوصی کا ایک روزہ مذاکراتی اجتماع جمعیۃ بلڈنگ رجبی روڈ میں ڈاکٹر حلیم اللہ خان کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں جمعیۃ علماء ہند کے افکار و نظریات، ماضی و حال کی خدمات اور مستقبل کے عزائم نیز موجودہ چیلنجز اور ان کے حل کے حوالہ سے تفصیلی گفتگو کی گئی۔
ریاستی نائب صدر مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے جمعیۃ علماء ہند کے قیام کے پس منظر، آزادی سے قبل کی جدوجہد، اور آزادی کے بعد سے ملک و ملت کے لیے خدمات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ تنظیم ملک کی سب سے قدیم اور مؤثر سماجی و دینی تحریکوں میں سے ایک ہے۔ آزادی سے قبل جمعیۃ نے ملک کی تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا۔ آزادی کے بعد جمعیۃ نے ملک کے دستور کی حفاظت، مسلمانوں کے تعلیمی، سماجی اور معاشی حقوق کے تحفظ، اور ملت کے مسائل حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ قومی یکجہتی، اقلیتوں کے حقوق، اور ملک کی ترقی کے لیے اپنا مشن جاری رکھا ہے، اور آج بھی یہ تنظیم ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے اور امن و انصاف کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی تنظیم سے وابستگی ہمارے لئے باعث افتخار ہے۔

جمعیۃ علماء وسطی زون کے جنرل سکریٹری مفتی ظفر احمد قاسمی نے جمعیۃ علماء ہند کے تعمیری پروگراموں اور مختلف شعبہ جات کا تفصیلی تعارف پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جمعیۃ ہمیشہ مسلمانوں کے دینی، تعلیمی اور سماجی مسائل کے حل میں پیش پیش رہی ہے۔ انہوں نے مدارس کے تحفظ اور ان کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے جمعیۃ کی تاریخی خدمات کو نمایاں کیا۔
انہوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے نہ صرف مدارس کو اسلامی تعلیمات کے مراکز کے طور پر محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ دینی تشخص اور اسلامی ورثے کے تحفظ کے لیے بھی اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھی ہیں۔ مدارس کے قیام، ان کی فعالیت، اور ان کے طلبہ کی تربیت کے حوالے سے جمعیۃ کی کاوشیں ملت اسلامیہ کے لیے مشعل راہ ہیں۔
انہوں نے کہا مختلف مذاہب اور فکر کے نمائندگان کے ساتھ ڈائیلاگ اور بات چیت کو جمعیۃ علماء ملک اور مسلمانوں کیلئے مفید تصور کرتی ہے۔
دہلی یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے ذمہ دار مولانا عبدالملک رسول پوری نے جمعیۃ علماء ہند کے اغراض و مقاصد اور خدمات پر روشنی ڈالی، جن میں مسلمانوں کے مذہبی، تعلیمی، تمدنی حقوق کا تحفظ، معاشرتی اصلاح، اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ شامل ہے۔ انہوں نے آزادی وطن کی تحریک میں جمعیۃ کے کردار، ارتداد سے بچاؤ کے لیے مکاتب کے قیام، اور نہرو رپورٹ کی مخالفت کو اجاگر کیا۔ما بعد آزادی، تعلیمی میدان میں اسلامی علوم کے ساتھ عصری تعلیم، اسکولوں اور مکاتب کا قیام، طلبہ وظائف، اور اساتذہ کی تربیت پر زور دیا۔ اقتصادی ترقی کے لیے غیر سودی بینکوں، تجارت، اور چھوٹی صنعتوں کو فروغ دینے کی تجویز دی۔ معاشرتی اصلاح کے لیے لائبریریوں، اصلاحی اجتماعات، اور سیمینارز کے ذریعے خواندگی اور ترقی کا ماحول بنانے کی سفارش کی۔
دیوبند اسلامک اکیڈمی کے ڈائریکٹر مولانا مہدی حسن عینی نے اوقاف اور نفرت انگیز جرائم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اوقاف ترمیمی بل مسلمانوں کے دینی حقوق پر حملہ ہے۔ اس کے ذریعے وقف بذریعہ استعمال کا خاتمہ، غیر مسلم نمائندوں کی لازمی شمولیت، اور مسلمانوں کی نمائندگی میں کمی جیسی ترامیم کی گئی ہیں، جو دستور ہند کی دفعہ 26 کی خلاف ورزی ہے اور اوقاف کو غیر محفوظ بنانے کی کوشش ہے۔نفرت انگیز جرائم کے حوالے سے انہوں نے جمعیۃ علماء ہند کے شعبہ "جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ فار مائنارٹیز” (جے ای ایم) کی خدمات کو سراہا، جو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور نفرت انگیز تقریر کے خلاف کام کر رہی ہے۔ انہوں نے پولیس شکایت، شواہد کی جمع آوری، اور قانونی و سماجی اقدامات پر زور دیا۔ میڈیا مانیٹرنگ، عوامی بیداری، اور سول سوسائٹی کے تعاون سے نفرت انگیز بیانیوں کا خاتمہ ممکن ہے۔
مولانا انصار احمد جامعی نے دینی تعلیمی بورڈ کے قیام کا پس منظر، کارکردگی اور عزائم کا خاکہ پیش کرتے ہوئے بتلایا کہ بورڈ کی نگرانی میں ملک بھر میں 48 ہزار سے زائد مکاتب چل رہے ہیں جن میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کی مجموعی تعداد 23 لاکھ سے متجاوز ہے۔
تمام نشستوں کا آغاز قاری محمد مجیب اللہ عرفانی کی تلاوت کلام اللہ سے ہوا۔ مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے نعت و منقبت کا نذرانہ پیش کیا۔ صبح سے شام تک چلنے والے اجتماع میں شہری جمعیۃ کے 125 سے زائد اراکین شریک ہوئے۔ مولانا نورالدین احمد قاسمی کی دعا پر پروگرام اختتام پذیر ہوا۔