یہ بات دنیا کا ہر شہری جانتا ہے کہ انتہاپسندی قوموں کے زوال کا سبب بنتی ہے۔ جبکہ قومی بے راہروی اور بے حسی میں اضافہ نسلوں کے تباہی کی پہلی منزل ہے۔ بھارت کا حالیہ سیاسی منظرنامہ یکسرتبدیل ہوچکا ہے۔ ہندوانتہاپسندی نے ملک کے اکثریتی طبقے کویہ بارو کرا دیا ہے کہ ان کے ہر مسئلےکی وجہ مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کے خاتمے کے ساتھ ہی ان کے تمام مسائل خود بخودحل ہوجائیں گے۔ روزگار، تعلیم اور صحت جیسے بینادی مسائل بھی اب مذہبی منافرت کو مات نہیں دے پارہے ہیں ۔
اسلاموفوبیا کا قہر:
گذشتہ چند سالوں میں مسلمانوں کے خلاف اسلاموفوبیا میں جس قدر اضافہ ہوا ہے ۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بروقت ہندوستان کی سیاست میں ہندوانتہاپسندی کا کتنا عروج ہے۔ مسلمان کی جان جانوروں کے جان سے بھی سستی ہوچکی ہے۔ وطن عزیز کا کوئی گوشہ مسلمانوں کے لئے محفوظ نہیں رہا۔ پورے ملک میں مساجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کی مہم نے مسلمانوں پر لرزہ طاری کر دیا ہے۔
ہندوانتہاپسندی کے گہراتے بادل
ہندوانتہاپسندی نے مسلمانوں کی گردنوں پراپنا آہنی پنجہ اس قدر تنگ کردیا ہے ،کہ اس کی گرفت سے باہر نکلنے کی کوشش بھی مسلمان گناہ سمجھنے لگا ہے۔ ہندوانتہا پسندی نے مسلمانوں کے خوف خدا اور شرم نبی دونوں پر کاری ضرب لگائی ہے۔ ظلم اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد تو دور ،مسلمان عمل کے ردعمل کا اظہار بھی نہیں کرتا۔ ظالم شدت پسند بھیڑ ے مسلمانوں کو موت کے گھات اتار تے جا رہے ہیں، لیکن مسلمانوں کی طرف سے دفاعی ردعمل کا بھی اظہار نہیں ہوتا۔
آئینی اداروں کا رویہ
حکومت کے ساتھ ساتھ انتظامیہ نے بھی آئین اور قانون کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ عدلیہ ایک واحد ادارہ تھا جہاں سے مسلمانوں کو انصاف کی امید تھی، لیکن بابری مسجد کا فیصلہ اور گیان واپی میں جس طرح عبادت گاہ ایکٹ، 1991 (Places of Worship (Special Provisions) Act, 1991) کی کھلی خلاف ورزی کرکے مسجد کے تہہ خانے میں پوجا ارچنا کی اجازت دی گئی اور اب سنبھل جامع مسجد کو جس طرح متنازع قرار دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے ملک کی عدلیہ سے بھی انصاف کی آس لگانا اپنی موت آپ مرنے سے کم نہیں۔
مسلمانوں کی بے حسی
ایک منظم سازش کے تحت ہر طرف سے مسلمانوں کو گھیرا جارہا ہے۔ ہندوانتہاپسندی میں اضافے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی قوت مدافعت بھی جواب دیتی جارہی ہے۔ اب مسلمانوں کے لئے کوئی مسئلہ شاہ بانو کیس کی شکل اختیار نہیں کرتا۔ ہر مسلمان اپنی لڑائی اکیلے اپنے دم پر لڑرہاہے باقی بچے افراد اپنا نمبر کا آنے کے منتظر ہیں۔ اجتماعیت پر انفرادیت کو ترجیح دی جارہی ہے۔
اتحادی فقدان
مسلکی اختلافات نے اتحاد کے قدر مشترک کو تار تار کردیا ہے۔ قرآن و حدیث میں موجود اتحاد بین المسالک و اتحاد بین الاقوام کے سارے اصول منسوخ مان لئے گئے۔ ناموس رسالت کی چتھڑیاں اڑائی جارہی ہیں، مسلمان نسلیں ارتداد کی آغوش میں پناہ تلاش رہی ہیں۔ مسلم لڑکیوں کی کوکھ میں کفر پرورش پا رہا ہے۔ اللہ اکبر کی صدائیں جے شری رام میں تبدیل ہوگئیں۔ ملت کا ہرگھر ہندودہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔
انفرادی جد و جہد
کب کہاں کس کو ہندو انتہا پسند موت کی نیند سلا دیں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ حق اور انصاف کی آواز بلند کرنے والے اداروں نے مسلم دشمنی کو ہی اپنی ڈیوٹی مان لی ہے۔ آزادانہ طور پر مسلمانوں کی بات کرنے والے افراد حکومت اور انتظامیہ کے نشانے پر ہیں۔ کچھ گمنام شخصیتیں ہیں جن کی سماجی اعتبار سے اپنی کوئی حیثیت نہیں لیکن پھر بھی وہ بول رہے ہیں۔ ہر ممکن مسلمانوں کے مسائل اور ان کے حل کی کوششیں کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی کوئی سننے والا نہیں ہے۔ جن صاحب منصب اور بااثر افراد کو اللہ نے نوازا ہے وہ ان کی پشت پناہی کے بجائے الٹا ان کے دلوں میں ہندتوا کا خوف بھرنے کا کام کرہے ہیں۔
آخری پناہ گاہ
مسلمانوں کی موجودہ قوت مدافعت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج جو لوگ بے سروسانی اور محدود ذرائع کے ساتھ مسلمانوں کی آواز اٹھانے کا جوکھم لے رہے ہیں۔ جلد ہی انہیں بھی اپاہج بنا دیاجائے۔ شاہ فیصل اور شہلا راشد کی طرح وہ بھی سنگھ اور بی جے پی کی گود میں پناہ لے لیں گے یا اپنی موت آپ مر جائیں۔ زیادہ سخت جان ہوئے تو طاہر حسین، شفاء الرحمان ، عمر خالد ، عمر گوتم ، خالد سیفی، اور مولانا قمرغنی عثمانی کے طرح جیل کی کال کوٹھری میں عبرت کا نشان بنا دیئے جائیں گے۔
نسلی صفایا
انفرادی جد جہد کرنے سوشل ایکٹیویسٹ بھی اب اسلام دشمنوں کے رڈار پر ہیں۔مسلمانوں کی بچی کچھی اس ڈھال کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے گا، تاکہ مسلمانوں کا نسلی صفایا کیا جاسکے۔ جس کی جانکاری وقفے وقفے سے مسلمانوں کو دی جارہی ہے۔ لیکن مسلمانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتا۔ جس کا سیدھا سا نتیجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے ملک میں ہندوانتہاپسندی ترقی کررہی ہے ویسے ویسے مسلمانوں کی بے حسی بھی پروان چڑھ رہی ہے۔
ملت کے ہر فرد کی فکر اپنے وجود تک محدود ہوچکی ہے، ملی اور معاشرتی تبدیلیاں مسلمانوں کے اہداف کا حصہ نہیں رہیں۔ مسلمان آج خود شکم سیر رہنے کے لئے اپنی نسلوں کو بھوکا رکھنے کا سامان مہیا کر رہا ہے۔ اپنے ایک پیٹ کی خاطر پوری قوم کو بھوکا ننگا کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ حلال و حرام کا امتیاز کئے بغیر مال جمع کرنا ہی مسلمانوں کے زندگی کا واحد مقصد بن گیا ہے۔
اس کو لگتا ہے کہ اس کا جمع کردہ مال اس کا اور اس کے خاندان کی حفاظت کر لے گا۔ حالانکہ تاریخی شواہد اس کے برعکس ہیں۔ دولت کے بل پر سب کچھ خریدا نہیں جاسکتا ہے۔ اگر آپ کو صفحہ ہستی سے مٹا کر آپ کے حصے کا پورا مال چھینا جا سکتا ہے، تو تھوڑی سی رشوت پر بھلا کتنے دنوں تک خود کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے؟۔
غریب مسلمانوں کا کیا ہوگا
پوری ملت اسلامیہ ہند کے صف اول کے علماء دانشور اور ارباب سیاست نے یہ مان لیا ہے کہ پانی سر سے اوپر جا چکا ہے۔ لہذا اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب ملت کے متمول گھرانے خود کو بیرون ممالک منتقل کرنے لگے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ جن کے پاس خطیر رقم ہے۔ وہ کسی اور ملک میں جاکر آباد ہوجائیں گے، لیکن ان متوسط اور غریب مسلمانوں کا کیا ہوگا جو بڑی مشکل سے پیٹ کی آگ بجھا پاتے ہیں۔ کیا انہیں ان قاتل بھیڑیوں کے حوالے کردیا جائے گا۔ یا پھر انہیں مرتد ہونے پر مجبور کردیا جائے گا؟
جد و جہد جاری رہنا چاہئے
حالات چاہے جتنے خراب ہوں لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس ملک کے وسائل پر جتنا حق اکثریتی طبقے کا ہے اس سے ایک رتی برابر بھی ہمارا حق کم نہیں ہے۔ اپنے حقوق کی بحالی کے لئے ہمیں جمہوری طور طریقوں سے جد جہد جاری رکھنا ہوگا۔ ہم اپنی نسلوں کو یوں ہندوانتہاپسندی کے حوالےنہیں کر سکتے۔ اس کے لئے ہمارے علماء دانشوربالخصوص خانقاہی افراد کو اپنی انا کو قربان کرکے ملی مفاد میں کام کرنا ہوگا۔ تاکہ ملک میں مسلمانوں کے عظمۃ رفتہ کو دوبارہ بحال کیا جاسکے۔
[…] نے جب جب اپنے بھائی چارہ کا مظاہرہ کیا تب تب ہندو انتہا پسندوں کے سامنے انہیں منھ کی کھانی پڑی ہے۔ ورشپ پلیس ایکٹ 1991 […]
[…] کی حالیہ سیاست تمام تر اخلاقیات اور آئینی فرائض کو بالائے طاق رکھ کر […]
[…] یہ فیصلہ مسلمانوں کو کرنا ہے کہ ہندوانتہاپسندوں کا آئینی اعتبار سے مقابلہ کرنا ہے۔ یا پھر ہاتھ پر ہاتھ […]