تحریر: آصف جمیل امجدی
اسلامی تہوار : ہندوستان مختلف تہذیب و ثقافت کا گہوارا ہے برسہا برس سے مختلف اقوام کے لوگ بنا کسی بھید و بھاؤ کے آپسی اخوت و محبت سے سکونت اختیار کئے ہوۓ تھے۔ ہمہ وقت یہاں گنگا جمنی تہذیب کی ندیاں بہتی تھیں۔
شادی بیاہ سے لے کر ایک دوسرے کی تہوار، مذہبی و غیر مذہبی تقریبات میں خلوص و محبت کے ساتھ شامل ہوتے تھے یہاں تک کہ خوشی و غم میں برابر کے شریک ہوتے۔ لیکن رفتہ رفتہ یہاں کی بے مثال گنگا جمنی تہذیب پر بھگوا آتنک وادیوں نے آتنک مچانا شروع کردیا اور جگہ جگہ مسلمانوں کو نشان زد پر لینے لگے۔ مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی تنظیم و تحریک تشکیل کرلی گئی جس سے کہ قوم مسلم کو حراساں اور ظلم و جبر کرنے میں آسانی پیدا ہو اور وقتاً فوقتاً تنظیم سےمدد بھی ملتی رہے۔
آزادئ ہند کے بعد سے کچھ سال تک یہاں کے حالات کافی حد تک بہتر تھے۔ لیکن آر ایس ایس کے زہریلے خمیر سے نکلنے والی بی جے پی، جب سے اقتدار میں آئی، مسلم دشمنی کھل کر سامنے آگئی۔ دن بدن اس کی لو تیز ہوتی جاری ہے۔ یہاں تک کہ حالات یہ بن گئے کہ مسلمانوں کی مذہبی عمارت نہ ہی ان کی ذاتی جائیداد (دوکان و مکان وغیرہ) محفوظ ہے۔
غیرمسلموں کے چھوٹے سے چھوٹے تہوارمیں بھی مسلمانوں کے جان و مال کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ مآب لینچنگ میں ہزاروں مسلمانوں کو بلا وجہ بے دردی سے قتل کرڈالا گیا۔ گئوکشی کے بے بنیاد الزام میں سیکڑوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کووڈ 19/ میں مسلمانوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا گیا، وہ بھارت کی پیشانی پر ایک بدنماداغ بن کر رہ گیا۔
یہاں کے سماجی عدل و انصاف کا توازن بالکل مسخ کردیا گیا۔ جمہوریت کا جنازہ نکال گیا، صدیوں پرانی گنگا جمنی مقدس تہذیب کو ملیا میٹ کرڈالا۔ بھارتی مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کسی سے مخفی نہیں۔ اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کی مساجد اور مدارس بھی محفوظ نہیں۔ یہ کس جمہوری ملک کی تہذیب و تمدن ہے؟ کہ تہوار و جلوس میں ننگی تلواریں دھار دار آلہ لے کر نکلا جاۓ اور ایک مخصوص مذہب کے خلاف بھڑکاؤ نعرے بازی کی جاۓ ان کی عبادت گاہوں میں توڑ پھوٹ مچایا جاۓ اور پھر اس پر اپنے مذہبی جھنڈے نصب کئے جائیں۔
حد ہوگئی کہ یہ ننگا ناچ حکومت ہند کی کھلی آنکھوں کے سامنے ہر دن ناچا جا رہا ہے پھر بھی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ لیکن اسی سرزمین پر مختلف مذاہب کے مابین ایک بڑا ہی صاف و شفاف پاکیزہ مذہب "اسلام” ہے جس کا پیغام ہرآن امن و امان کا ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس کے پیغام کو عمل میں لاتے ہیں۔
دنیا کا ہرگوشہ خاص کر بھارت ملک کا ہر ہر ذرہ گواہ ہے کہ یہاں پر صدیوں سے نکلنے والے اسلامی جلوس(ربیع الاول،محرم نیز دگر جلسے جلوس) میں مسلمانوں نے کسی خاص مذہب و کمیونٹی کو نشانہ بنایا ہو یا اپنے مذہب سے ہٹ کر نعرے بازی کیا ہو یا کسی دیگر مذہب کی عبادت گاہوں کو ٹھیس پہنچایا ہو۔
یہ تو کجا مسلمان اپنے جلوس میں ایک چینٹی جیسی مخلوق کو ایزا دینے کی بجائے اسے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اگر اس سرزمین پر کوئی سچا سپوت بن کر بودوباش اختیار کئے ہوئے ہے تو وہ یقیناً قوم مسلم ہے۔ ہرسال جمعتہ الوداع، عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقعے پر دنیا بھر میں اربوں کھربوں کی تعداد میں نماز ادا کرنے کے لیے اکٹھا ہوتے ہیں یہ نظم صرف مذہب اسلام میں ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اتنی کثیر تعداد میں مسلمان اکٹھا ہونے کے باوجود کبھی کسی مذہب، کسی خاص کمیونٹی یا کسی کی عبادت گاؤں کو کوئی ٹھیس پہنچایا ہو۔
اسی اسلامی تہوار عید الفطر کی نماز کو مثال کے طور پر لے لیجئے جو31/مارچ 2025ء بروز پیر کو ادا کی گئی اخباری رپورٹ کے مطابق خالص بھارت میں بیس کروڑ سے زاید مسلمان عید الفطر کی نماز میں شامل رہے، بغیر کسی نعرہ بازی کے، کسی مندر کی طرف آنکھ اٹھاۓ اور بغیر کوئی دھار دار آلہ لئے امن و امان، چین و سکون کے ساتھ سچے وفادار بھارتی بن کر اپنے اپنے گھروں پر واپس آگئے۔
لیکن ہندو مذہب کی حالیہ تہوار "ہولی” میں اقلیتوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی۔ اور یہ ہرسال ہوتا ہے۔ ظلم و بربریت صرف ہولی ہی میں نہیں بلکہ ہر چھوٹے بڑے تہوار میں اقلیتوں پر ہوتے ہیں۔ اب تو آواز یہ اٹھائی جا رہی ہے کہ "عید کی چھٹی” بند کی جاۓ۔ لیکن کہیں سے بھی یہ آواز نہیں اٹھی کہ پہلے یہ رپورٹ دکھائیے کہ عید میں مسلمانوں نے دنگے کتنے کئے، جانی و مالی نقصان کتنا پہنچایا، اسلامی تہوار سے ملک کی معیشت کو کون سا نقصان پہنچا۔ تب عید کی چھٹی منسوخ کرنے کی بات کیجئے۔ بہرحال پر امن اور انتہائی اخلاص کے ساتھ منائے جارہے اسلامی تہوار نفرت کے سوداگروں کے منھ پر ایک زوردار طمانچہ ہیں۔