اورنگزیب عالمگیر کے نام پر مسلمانوں میں خوف پیدا کرنے کی کوشش
تجزیہ: شفیق فیضی
وشو ہندو پرشد کے رہنما مسلمانوں کو حالیہ تشدد کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں، جبکہ مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتیں حکومت پر دوہرے معیار کا الزام لگا رہی ہیں۔
اورنگزیب کے نام پر مسلمان مشتعل نہیں ہوئے، تو بطور علامت اورنگزیب کا مجسمہ نذرآتش کیا گیا، جس میں جان بوجھ کر آیت قرآنی کو جلایا گیا۔
پورا معاملہ پولس کی موجودگی میں انجام دیا گیا۔ جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ناگپور تشدد میں ہندو دہشت گردوں کو پولس کی حمایت حاصل تھی۔
تفصیلی جائزہ
ملک میں سابق مسلم حکمرانوں پر سیاست کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سلسلے میں پچھلے کچھ مہینوں اور برسوں میں اورنگزیب پر سیاست نے خون کی ہولیاں کھیلنی شروع کردی ہیں۔ حال ہی میں مہاراشٹر کے ناگپور میں اورنگزیب کی قبر ہٹانے کے مطالبے پر ہوئے پر تشدد واقعات اس کی تازہ مثال ہیں۔ اس رپورٹ میں ہم معاملے کی تفصیلات، فریقین کے الزامات، اور اس کے سیاسی اور سماجی اثرات پر روشنی ڈالیں گے۔ ساتھ ہی ایک تجزیہ بھی پیش کریں گے۔ جو ثابت کرے گا کہ یہ پورا معاملہ محض ایک حادثہ کے بجائے ایک ماسٹرپلان کے تحت انجام دیا گیا۔ جس میں حکومت اور پولس انتظامیہ نے ہندو انتہاپسندوں کو کھلی حمایت کی۔
حکومتی ردعمل:
مہاراشٹر حکومت کا موقف ہے کہ اورنگزیب کی قبر محفوظ یادگار ہے۔ اس لیے اسے ہٹانا مرکزی حكومت کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جس کا سیدھا نتیجہ یہ ہے کہ فڑنویس "اورنگزیب کی اولاد” والے اپنے پرانے بیان پر قائم ہیں۔ اور وہ ہندوانتہا پسندوں کے حامی بھی ہیں۔ فڑنویس کے بیان سے یہ واضح ہوتا کہ اگر مرکزی حکومت کی منظوری مل جائے۔ تو اورنگزیب کی قبر کھودنے میں فڑنویس سب سے آگے ہوں گے۔
فلم چھاوا کی کہانی فرضی ہے:
گذشتہ تقریباً ایک سال سے اورنگزیب کو بار بار بھارت کی سیاست میں اچھالا جارہا ہے۔ گذشتہ الیکشن میں مسلمانوں کو اورنگزیب کی اولاد کہا گیا۔ اب ایک برس کے اندر ہی اورنگزیب سے متعلق ایک فلم چھاوا ریلیز کی جاتی ہے۔ جس کی کذب بیانی اور من گھڑت کہانیوں کے لئے فلم کے ڈائریکٹر لکچھمن اوٹیکر (Laxman Utekar) پہلے ہی معافی مانگ چکے ہیں۔
اورنگزیب اور چھاوا ایک سازش
فلم چھاوا میں دکھائی گئی تاریخ جھوٹ ہے یا سچ؟ یہ اتنا اہم نہیں ہے کیونکہ فلمیں عام طور خیالی اور مفروضات پر ہی مبنی ہوتی ہیں۔ البتہ فلم میں فرضی کردار کو جس انداز میں اصلی کرداروں سے متعارف کرایا گیا ہے۔ وہ درپردہ سازش کا اشارہ کرتے ہیں۔ تحقیقی جائزے کے مطابق یہ کہاجاسکتا ہے کہ بالترتیب انجام دئے گئے، یہ تمام بیانات اور واقعات، صرف اور صرف مسلمانوں کے قتل عام کے اسباب مہیا کرنے کی سازش کا حصہ ہیں۔
اورنگزیب اور چھاوا فقط مہرہ ہیں:
اس واقعے میں فلم چھاوا یا اورنگزیب فقط مہرہ ہیں۔ جبکہ اس تشدد کے بڑے کھلاڑی کے طور پر حکومت اور انتظامیہ ملک کے آئین اور قانون کے ساتھ گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ فلم چھاوا کو آگے کرنے کے پیچھے کا مقصد اس واقعہ کے بڑے کھلاڑیوں اور مجرموں کو بچانا ہے۔ جبکہ اورنگزیب کے سہارے مسلمانوں کو نشانہ بنانا واحد مقصد ہے۔
اورنگزیب کے بہانے مسلمانوں پر نشانہ:
اورنگزیب یا کسی بھی مسلم حکمران کے متعلق عام ہندوؤں میں پائی جارہی نفرت ایک سیاسی سازش کا حصہ ہے۔ چونکہ ملک میں مسلمانوں کا ایسا کوئی عمل نہیں ہے جس کے بدلے ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جاسکے۔ اس لئے وقتاً فوقتاً اس طرح کے مسائل عمداً پیدا کئے جاتے ہیں۔ تاکہ مسلمانوں میں خوف اور اکثریتی طبقے کو اس کے بنیادی مسائل سے بھٹکایا جاسکے۔ بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا بھی ایک سیاسی ایجنڈہ ہے۔ اس لئے بھی مسلمانوں کو نشانہ بنانا شرپسندوں کی مجبوری ہے۔
بھارت میں تقریباً سبھی مذاہب کے ماننے والے برہمنزم کو بآسانی قبول کرلیں گے۔ لیکن مسلمان جو اسلام کے نظریہ مساوات اور انصاف کا قائل ہے۔ شاید وہ کبھی آر ایس ایس کی اس آئیڈیالوجی کو قبول نہ کرے۔ مسلمانوں کا یہ بنیاد پرست طبقہ ہندو راشٹر کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس لئے مسلم حکمرانوں کا سہارا لے کر ان کے اندر خوف پیدا کرنے کی یہ واقعات ایک کوشش ہیں۔
انصاف کی امید بے معنی:
حکومت نے بھلے ہی وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے لیڈران کے خلاف معاملات درج کئے ہیں۔ لیکن اس سے انصاف کی امید نہیں کی جاسکتی۔ بھارت کی عدلیہ جب بابری مسجد کے قاتلوں کو بری کرسکتی ہے۔ تو ایسے میں ان ہندو انتہاپسندوں کو سزا ملے گی؟۔ اس بات پر یقین کرنا پانا بہت مشکل ہے۔
اورنگزیب کے خلاف مظاہرہ میں آیت قرآنیہ کو جلایا گیا۔
گودی میڈیا اس معاملے میں مسلمانوں کے موقف کو کمزور کرنے کے ارادے سے سچائی کو افواہ بتا رہا ہے۔ جبکہ یہ بات سچ ہے کہ مجسمہ کے طور پر دہشت گردوں نے آیت قرآنی لکھی چادر کو آگ کے حوالے کیا۔ اورنگزیب کے مجسمے تک بات ہوتی تو شاید مسلمان کبھی مشتعل نہ ہوتا۔
مسلمانوں کا مشتعل ہونا غلط:
حالانکہ ہندوانتہاپسندوں کے کسی بھی حرکت پر مسلمانوں کے اشتعال کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن اس طرح کے معاملات اس وقت زیادہ سنگین صورتحال اختیار کرلیتے ہیں۔ جب یہ سب پولس اور انتظامیہ کے سامنے انجام پاتے ہیں۔ جس کے باعث مسلمانوں کا ایک طبقہ بے بس ہوکر فرقہ پرستوں کے جال میں پھنس جاتا ہے، اور جذبات میں وہ کام بھی کر جاتا ہے۔ جو اس کو کسی صورت نہیں کرنا چاہئے۔ خیر مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے۔ اس پر کسی اور آرٹیکل میں بات ہوگی فی الحال موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔
فریقین کے الزامات
وشو ہندو پرشد کے رہنماوں نے حالیہ تشدد کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیاہے۔ جس میں مسلمانوں کو "اورنگزیب کی اولاد” کہہ کر مخاطب کیا جارہا ہے۔ ہندو انتہا پسند لیڈر راج کمار شرما نے الزام عائد کیا کہ مسلمانوں نے مساجد میں جمع ہو کر ہندوؤں کی دکانیں لوٹنے اور ان کے گھروں پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
یہ الزام انتہائی بے بنیاد اور فرسودہ ہے۔ اولاً مسلمان اپنی مساجد میں اس طرح کی سرگرمیاں کسی صورت انجام نہیں دے سکتے۔ جو مسلمان اپنے منبر و محراب سے اسلام کے لازمی جزؤ سیاست کی بات کرنا گناہ سمجھنے لگا ہو، وہ مسجد میں لوٹ پاٹ کی پلاننگ کرے گا۔ ایسا ممکن نہیں محال ہے۔ مسلمان چاہے جتنا خراب اور بد فعال کیوں نہ ہو، اس سے ایسی حرکت کی امید نہیں کی جاسکتی۔
مسجد میں سازش کی بات بے بنیاد
رہی بات مسجدمیں بھیڑ جمع ہونے کی تو بروقت رمضان کا مہینہ چل رہا جس کے باعث پورے ملک میں تمام مساجد 24 گھنٹے کھلی رہتی ہیں۔ خاص کر مہاراشٹر ریاست کی مساجد میں ملک کی دوسری ریاستوں کے مقابلے کچھ زیادہ ہی بھیڑبڑھ جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یوپی بہار اور دیگر صوبوں سے سفارت پر آئے سفراء بھی ہوتے ہیں۔ اگر باہر سے آئے مہمان علماء نہ بھی ہوں تب بھی رمضان میں مساجد 24 گھنٹے نہ صرف کھلی رہتی ہیں بلکہ بھری بھی رہتی ہیں۔ نمازیوں کی اسی بھیڑ کو وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل اپنی ڈھال کے طور استعمال کر ر ہے ہیں۔
اپوزیشن پارٹیاں
اپوزیشن پارٹیوں نے اس معاملے میں ابھی تک اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے صرف بیان بازیوں سے کام لیا ہے۔ کانگریس نے حکومت پر دوہرے معیار کا الزام لگایا۔ جبکہ نیا، نیا سیکولرزم کا چولا اوڑھنے والے شيوسينا صدر اودھو ٹھاکرے نے کہا کہ "دوہری انجن کی حکومت” ناکام ہوگئی ہے۔ لہذا اس کو استعفیٰ دینا چاہئے۔ کانگریس ایم پی پرنیت شندے نے الزام لگایا کہ بی جے پی اس مسئلے کو مہاراشتر کی اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
حکومتی ردعمل اور قانونی پہلو:
مہاراشٹر حکومت نے صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے فوری اقدامات کیےہیں۔ پولیس نے وشو ہندو پرشد اور بجرنگ دل کے کئی کارکنان کے خلاف مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں مقدمہ درج کیاہے۔ چیف منسٹر دیوندر فڈنویس نے کہا کہ تشدد "منصوبہ بند” تھا اور پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ تاہم دیوندر فڈنویس نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ منصوبہ بندی کس گروپ کی طرف کی گئی۔
چیف منسٹر دیوندر فڑنویس کو یہ بھی واضح کرنا چاہئے کہ اگر یہ معاملہ منصوبہ بند تھا تو یہ منصوبہ بندی کس نے اور کہاں کی؟ اور جب یہ منصوبہ بندی ہورہی تھی تب لوکل انٹیلیجنس محکمہ کیا کر رہا تھا، ساتھ ہی انہیں یہ بھی صاف کرنا چاہئے کہ ماضی میں اورنگزیب سے متعلق ان کے ریمارکس کا اس معاملے میں کیا رول ہے؟
اورنگزیب کی قبر ایک محفوظ یادگار ہے:
وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی مانگ کے خلاف مہاراشٹر حکومت کا موقف ہے کہ اورنگزیب کی قبر ایک محفوظ یادگار ہے، جو آرکيئولوجيکل سروے آف انڈيا (ASI) کے تحت آتی ہے۔ اسے ہٹانے یا تبدیل کرنے کا فیصلہ مرکزي حكومت کی منظوری کا محتاج ہے۔ مہاراشٹر حکومت کا حالیہ بیان صرف ایک روایتی بیان کہا جاسکتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے سابق وزیرآعظم نرسمہاراؤ نے بابری مسجد کے تحفظ کا یقین دلایا تھا۔
سماجی اور سیاسی اثرات:
یہ معاملہ صرف ایک مقامی تنازعہ نہیں، بلکہ اس نے مہاراشٹر سمیت پورے ملک کی سیاست کو متاثر کیا ہے۔ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے ہندو قوم پرستی کو تقویت دی ہے، جبکہ اپوزیشن پارٹیاں انتہائی محتاط ہیں۔ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بہت روایتی بیان دے رہی ہیں۔ وہ کھل کر مسلمانوں کی حمایت کریں گی ایسا تو سوچنا بھی حرام ہے۔ البتہ اکثریتی طبقے کے خلاف بھی یہ پارٹیاں جانا نہیں چاہتیں۔ این سی پی، جس کو مہاراشٹر میں سب سے زیادہ مسلم کمیونٹی کی حمایت حاصل ہے وہ اس معاملے سے دوری بنائے ہوئے ہے۔
تجزیاتی جدول
نیچے دیے گئے جدول میں مختلف فریقین کے موقف اور ان کے دعووں کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے:
فریق | موقف | دعوے |
---|---|---|
وشو ہندو پرشد | مسلمانوں کو تشدد کا ذمہ دار قرار دیا۔ | کہا کہ مسلمانوں نے ہندوؤں کی دکانیں لوٹنے اور گھروں پر حملہ کیا۔ |
اپوزیشن پارٹیاں | حکومت پر دوہرے معیار کا الزام، کہا کہ بی جے پی تناؤ بڑھا رہی ہے۔ | الزام لگایا کہ حکومت نے وشو ہندو پرشد کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ |
مہاراشتر حکومت | صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے اقدامات، مقدمات درج کیے۔ | چیف منسٹر نے کہا کہ تشدد منصوبہ بند تھا، ذمہ داروں کو نہیں بخشا جائے گا۔ |
ملک میں مسلمانوں کے خلاف جس تیز رفتاری سے نفرتی مہم کو بڑھاوا دیا جارہا ہے وہ اس بات کا غماز ہے کہ مسلمانوں نے اگر بہت جلد اس کے روک تھام کے لئے مثبت اقدامات نہیں کئے گئے، تو ملک کے ہرشہر، قصبے اور گاؤں میں اس طرح کے حالات بناکر مسلمانوں کا نسلی صفایا کر دیا جائے گا۔
[…] نے بھی سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلائی ہیں اس کے خلاف بھی فساد بھڑکانے کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔ فساد بھڑکانے پر کچھ […]