مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی کی دینی خدمات کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں: قاضئ شہر
کانپور:(محمد عثمان قریشی) یوں تو روز بروز ہمارے درمیان سے قوم کی فکر و درد رکھنے والے بزرگ صفت حضرات اپنے مالک حقیقی کی جانب کوچ کرتے جا رہے ہیں لیکن ہر شخصیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کچھ کمالات رکھے ہوتے ہیں جن کی جگہ پر کرنا ممکن نظر نہیں آتا، ابھی حال ہی میں ہمارے درمیان سے مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی اپنے مالک حقیقی سے جا ملے، جس سے پورے ملک میں غم کی لہر دوڑ گئی اور پورے ملک کے ادبی شعبہ کے ماہرین نے ان کی کمی محسوس کی اور مرحوم کیلئے ایصال ثواب کا اہتمام کیا
اسی سلسلے میں جامعہ عربیہ اشاعت العلوم قلی بازار کانپور میں بھی ایک تعزیتی نشست مولانا سید جعفر مسعود ندوی کیلئے منعقد کی گئی جس میں طلباء نے قرآن کریم کی تلاوت کر کے آپ کیلئے دعائے مغفرت کی۔ اس موقع پر قاضئ شہر کانپور حضرت الحاج حافظ و قاری عبد القدوس ہادی نائب صدر جمعیۃ علماء اتر پردیش نے اپنے ایک مختصر بیان میں کہا کہ مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی ناظر عام ندوۃ العلما لکھنو کی اچانک وفات کے حادثہ نے ملت اسلامیہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کے خانوادے کے فرد فرید تھے، آپ کی ولادت 31 /ستمبر 1965 کو تکیہ رائے بریلی، اتر پردیش میں ہوئی،
آپ کے والد ماجد ملک کے مایہ ناز مربی عربی زبان و ادب کے مشہور و معروف ادیب و صاحب قلم حضرۃ الاستاد مولاناسیدمحمد واضح رشید حسنی ندوی تھے جو حضرت مولانا علی میاں ندوی کے حقیقی بھانجے تھے۔انہوں نے مزید کہاکہ مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی کی دینی خدمات کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں،
آپ نہایت ہی شریف النفس اور باصلاحیت والی شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے ندوۃ العلماء لکھنو سے 1981 میں عالمیت اور 1983 میں فضیلت کی سند حاصل کی، اس کے بعد 1986 میں لکھنو یو نیورسٹی سے عربی زبان وادب میں ایم اے کیا بعد ازاں 1990 میں سعودی عرب کی مشہور دانش گاہ”جامعۃ الملک سعود“ کے زیر اہتمام ٹیچرز ٹریننگ کا کورس مکمل کیا۔آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز درس و تدریس سے کیا،
آپ لکھنو میں واقع دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کی معروف شاخ مدرسہ عالیہ عرفانیہ میں طویل مدت تک تدریسی فرائض انجام دئے۔ آپ کا اصل موضوع تفسیر وحدیث اور فکر اسلامی تھا، اب تک بے شمار ادبی، فکری و تاریخی مقالات و مضامین لکھ چکے تھے اور ندوۃ العلماء لکھنو سے نکلنے والے پندرہ روزہ عربی جریدہ”الرائد“ کے2019 سے مدیر اعلی (رئیس التحریر) تھے، آپ کو عربی زبان و بیان پر بڑی قدرت حاصل تھی، عربی زبان میں معیاری مضمون نگاری کے ساتھ کئی کتابوں کا اردو سے عربی میں ترجمہ بھی کیا تھا۔
اسی ضمن میں حضرت امیر معاویہؓ کے یوم وفات (22 / رجب المرجب) کے موقع پر جامعہ عربیہ اشاعت العلوم میں ایک مدح صحابہؓ کے تحت صحابی رسول کاتب وحی حضرت امیر معاویہ ؓ کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے بھی ایک تعزیتی نشست منعقد ہوئی جس میں قاضیئ شہر نے حضرت امیر معاویہ ؓ کی اسلام میں خدمات اور آپؓ کی زندگی پر مختصر روشنی ڈالنے ہوئے کہا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک بڑے صحابی تھے جنہوں نے اسلام کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا۔
آپ کا تعلق قریش کے مشہور قبیلے بنی امیہ سے تھا اور آپ کے والد حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ بھی ایک اہم شخصیت تھے جو شروع میں اسلام کے مخالف تھے مگر بعد میں مسلمان ہوگئے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ابتدائی طور پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے۔ آپ کو سب سے زیادہ شہرت شام کے گورنر کے طور پر حاصل ہوئی، جہاں آپ نے اپنی حکمت اور انتظامی صلاحیتوں کی بدولت علاقے میں امن و امان قائم کیا اور وہاں کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کئی اقدامات کئے۔
آپ کی حکومت میں معیشت میں استحکام آیا اور آپ نے اسلامی فتوحات کو بڑھایا۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ 661 عیسوی میں خلافت کا آغاز تھا جب آپ نے خود کو خلیفہ منتخب کیا اور بنی امیہ کے تحت خلافت قائم کی، جو تقریباً90 سال تک قائم رہی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں حکمت، دور اندیشی اور نظم و ضبط کی خصوصیات پائی جاتیں تھیں۔
آپ کا عہد خلافت ایک ایسا دور تھا جس میں مختلف سیاسی اور فوجی چیلنجز کا سامنا تھا، مگر آپ نے ہمیشہ دانشمندی سے ان کا مقابلہ کیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال680 عیسوی میں ہوا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے یزید بن معاویہ نے خلافت سنبھالی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور عقیدت کا متعدد تاریخی شواہد میں ذکر کیا گیا ہے۔ آپ کی شخصیت میں یہ محبت بے حد گہری تھی اور آپ نے ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور احکام کی عزت و احترام کیا۔
کچھ اہم شواہد جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ظاہر کرتے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دورِ مبارک میں ”کاتب وحی“ کے طور پر خدمت کی تھی۔ آپ ایک بہت قابل اور ذہین صحابی تھے جنہیں وحی لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ آپ کی یہ خدمت خود ایک واضح دلیل ہے کہ آپ کا تعلق اور محبت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس قدر گہرا تھا، کیونکہ نبی اکرم ؐ کی تعلیمات اور وحی کو لکھنا نہ صرف ایک اہم فریضہ تھا بلکہ اس میں خاص عقیدت اور محبت کا اظہار بھی موجود تھا۔
حضرت امیر معاویہؓ نبی ؐ کے ساتھ ایک قریبی تعلق تھا۔ آپ رسول اللہ ؐکے صحابی تھے اور آپ کی محبت میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی۔ کئی روایات میں ذکر ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ نبی کریمؐ کے بعد آپ کے اہلِ بیت سے انتہائی محبت اور احترام کا سلوک کرتے تھے۔
حضرت امیر معاویہؓ نے اپنے دور میں اسلام کی فتوحات کی جو کامیاب مہمات چلائیں، ان میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور ان کی رہنمائی سے بھرپور اثر لیا۔ آپ نے ہمیشہ اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے افعال اور فیصلوں کو منظم رکھا۔
حضرت امیر معاویہؓ اکثر نبی کریم ؐ کا ذکر انتہائی عزت و احترام کے ساتھ کرتے تھے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ جب حضرت معاویہؓ نے شام کی حکمرانی سنبھالی، تو انہوں نے مسجد میں حضور نبی کریمؐ کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ”ہمیں نبی کریم ؐ کی سنت کی پیروی کرنی چاہیے، کیونکہ آپ ؐ کی تعلیمات ہی ہمارے لئے ہدایت کا ذریعہ ہیں۔“
حضرت امیر معاویہؓ کی زبان سے نبی کریم ؐ پر درود و سلام کا ذکر بھی بہت زیادہ ملتا ہے۔ آپ ہمیشہ آقا کریمؐ کی عزت و عظمت کا اعتراف کرتے اور آپ پر درود و سلام بھیجتے تھے۔یہ تمام شواہد حضرت امیر معاویہؓ کی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور عقیدت کو ثابت کرتے ہیں۔
ان کی زندگی اور خدمات میں یہ محبت ہمیشہ ایک بنیادی عنصر رہی، اور ان کے عمل اور اقوال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ کی حبِ رسول کریمؐ میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا۔آخر میں دعائے مغرفت کی گئی۔ اس موقع پر جامعہ کے تمام اساتذہ کرام اور طلبا موجود رہے۔