تحریر: شفیق فیضی
وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں 232 کے مقابلے 288 ووٹوں سے پاس کردیا گیا۔ حسب توقع ایوان بالا راجیہ سبھا میں بھی پاس ہوہی جائے گا۔ فی الحال بی جے پی اور اس کے اتحادی پارٹیوں کی یہ ایک بڑی کامیابی کہی جائے گی۔ اپوزیشن کے پاس چونکہ اس بل کو روک پانے کے لئے ضروری نمبر نہیں تھے۔ اس لئے یہ پہلے ہی طے مانا جارہا تھا کہ وقف ترمیمی بل 2025 ہر حال میں پاس ہوگا۔
وقف ترمیمی بل 2025 کے قانون بننے کے بعد ملک کے حالات میں زبردست تبدیلی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ جو انتہائی تشویشناک حالات کا سبب بنے گا۔ فی الحال وقف قانون سے وقف کی املاک کے ساتھ ساتھ ملک کے حالات پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس پر ہم اس مضمون میں روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
وقف ترمیمی بل 2025: ممکنہ تحریک مخالفت
وقف ترمیمی بل 2025 کے قانون بنتے ہی بہت ممکن ہے کہ پورے ملک میں، اس قانون کے خلاف بڑے بڑے مظاہروں کا اہتمام کیا جائے۔ حکومت کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جاسکتی ہے کہ ملک کا مسلمان اس قانون سے خوش نہیں ہے۔ اس لئے اس کو واپس لیا جائے۔ مظاہرے ہوسکتے ہیں، راقم اس کی مخالفت نہیں کرتا۔ احتجاج ایک جمہوری حق ہے۔ ایک زندہ قوم اپنی غیرت کے اظہار کی خاطر احتجاج اور مظاہرے کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ حکومت اور انتظامیہ باغیرت اور حساس ہوں تو اس کے خاطرخواہ نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔
وقف ترمیمی بل 2025 کے ممکنہ اثرات:
وقف ترمیمی بل 2025 کے قانون بننے کے بعد سب سے پہلے ان املاک کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگا، جن کے کاغذات دستیاب نہیں ہیں۔ ایسی املاک میں سب سے زیادہ مساجد، مدارس، خانقاہ، اور قبرستان زد میں آئیں گے۔ چونکہ اسلامی اصولوں کے مطابق وقف کے لئے زبان یا استعمال کافی ہے۔ اس لئے بھارت میں ایسی بے شمار وقف املاک ہیں جن کو باقاعدہ درج نہیں کرایا گیا ہے۔ لہذا ایسی تمام وقف املاک یا تو متنازع قرار دے کر چھینی جائیں گی۔ یا کاغذات نہ ہونے کی صورت میں ان املاک کو وقف املاک کی فہرست سے باہر کردیا جائے گا۔
رہائشی اور تجارتی املاک:
وقف بورڈ کی رہائشی اور تجارتی املاک جو بہت ہی کم کرائے پر ضرورت مندوں کو مہیا کرائی گئیں۔ ایسی تمام املاک کو ڈیولوپمنٹ کے نام پر ان کے مکینوں سے خالی کرایا جاسکتا ہے۔ جو بعد میں بڑے تجارتی گھرانوں کے درمیان بندر بانٹ ہوسکتی ہیں۔ ممبئی عظمیٰ میں انٹیلیا ہاؤس اس کی زندہ مثال ہے۔ امبانی کا انٹیلیا ہاؤس مسلم یتیم خانہ کی زمین پر کھڑا ہے۔ جس کو مہاراشٹر حکومت کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کرکے پڑپ لیا گیا۔
ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ایسے قبرستان ہیں جن کا کوئی دستاویز مسلمانوں یا وقف بورڈ کے پاس نہیں ہیں۔ ممکن ہے ان قبرستان کے وجود خطرہ لاحق ہوجائے۔
اس کی ایک صورت یہ پیدا کی جاسکتی ہے کہ مقامی اکثریتی طبقے کے لوگ ایسی زمینوں کے خلاف لام بند ہوکر مقدمات درج کرائیں۔ جس سے ان وقف املاک کو متنازع قرار دیا جاسکے اوربعد میں ان اختلافی املاک کو جامد اور پھر اکثریتی طبقے کو الاٹ کردیا جائے۔
ممکنہ تباہی کے ذمہ دار افراد:
تاریخ شاہد ہے مسلمانوں کو جتنا نقصان اپنوں سے پہنچا ہے اتنا غیروں سے کبھی نہیں ہوا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جمہوریت میں سر گنے جاتے ہیں تولے نہیں جاتے، اس کے باوجود آزادی کے بعد مسلمانوں نے اپنی نسلوں تحفظ کے لئے کچھ نہیں کیا۔ سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کو اپاہج بنانے میں جو بھی ممکن ہوا وہ مسلمانوں کے طبقہ اشراف نے کیا۔
سیاسی بے دخلی:
تقسیم وطن کے بعد مسلمانوں کو مسلسل سیاست سے بے دخل کرنے کی پالیسی پر عمل کیا گیا۔ جس میں امت کے علماء اور سیاسی رہنماؤں کا پورا پورا ہاتھ رہا۔ مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے اپنی ایک آزاد سیاسی لیڈرشپ کے بجائے نام نہاد سیکولر طاقتوں کو مضبوط کرنے کی تلقین کی۔ اگر کسی مسلم لیڈرشپ نے سر اٹھانے کی کوشش کی تو اس کو مسلمانوں نے ہی دفن کردیا۔
آج آر ایس ایس ہندو راشٹر کے قیام کو ہرممکن یقینی بنانے میں مصروف عمل ہے۔ سیکولر پارٹیاں چاہ کر بھی ملک کے آئین کو بچا نہیں پارہی ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی پارٹی خود اس بات کو مانتی ہے کہ اس کے آدھے سے زیادہ پارٹی کارکنان آر ایس ایس سے ملے ہوئے ہیں، لیکن مسلمانوں کو آج بھی آئین، عدلیہ، اور ملک کے سیکولرزم پر پورا بھروسہ ہے۔
سیکولرزم کی اندھی تقلید:
وقف ترمیمی بل کے تعلق سے آخری وقت تک مسلمانوں کو یقین تھا کہ نتیش کمار اور چندر بابو نائیڈو پلٹی ماریں گے، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تعجب کی بات ہے کہ ابھی بھی کچھ مسلمانوں کو لگتا ہے کہ سیکولر پارٹیاں معجزاتی طور پر وقف ترمیمی بل واپس کرانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔
مظاہرے اسلامی اقدار کے محافظ نہیں ہوسکتے:
جمہوریت میں احتحاج اور مظاہر ے عوام کا آخری ہتھیار ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ہتھیار اسی وقت کام کرتا ہے جب حکومت میں انصاف پسند لوگوں کی بہتات ہو، ورنہ احتجاج اور مظاہرے فائدہ کم، نقصان دہ زیادہ ہوجاتے ہیں۔ مانا کہ کسانوں کا احتجاج مثبت نتائج لانے میں کامیاب رہا، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئےکہ سی اے اے مخالف تحریک ملت اسلامیہ ہند پر بہت بھاری پڑ گئی۔ آج بھی ان مظاہروں میں شریک مظاہرین ایک بہت بڑی تعداد جیلوں میں بند ہیں۔
مرکزی اور ریاستی بی جے پی حکومتوں نے چن چن کر ایسے مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا، جو ملک اور ملت کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ افسوس وہ صلاحیتیں آج جیلوں اپنی تباہی کے ایام گن رہی ہیں۔ سی اے اے مخالف تحریک کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ سیاسی قیادت کا فقدان بھی تھا۔
وقف ترمیمی بل 2025 مخالف تحریک:
فی الحال یہ طے مانا جارہا ہے کہ ماضی کی طرز پر وقف ترمیمی بل 2025 کے قانون بننے کے بعد ملک میں مظاہرے اور دھرنوں کا دور شروع ہوسکتا ہے۔ ماضی کی طرز پر بالفور کوئی مظاہرہ یا احتجاج فائدہ کم، نقصان دہ زیادہ ہوگا۔ چونکہ حکومت کا اپنا ایک ایجنڈہ ہے جس کو نافذ کرنا ہی اس کی حکومت کا واحد مقصد ہے۔ اس لئے حکومت نے ممکنہ ردعمل کی تیاری پہلے کر رکھی ہوگی۔ لہذا اگر ایسا کوئی منصوبہ ہے تو سب سے پہلے ملک کی سیکولر سیاسی لیڈرشپ کو متحد کیا جائے۔
سیاسی لیڈرشپ کو آگے کریں:
احتجاج اور مظاہروں میں عوام کے بجائے سیاسی لیڈوروں کو آگے کیا جائے۔ خاص کر کانگریس، اور سماجوادی پارٹی کو اس کی کمان سنبھالنی چاہئے۔ ممکنہ احتجاج، بیان بازی کے بجائے پارلیمنٹ گھیراؤ کی شکل میں ہونا چاہئے۔ اکھلیش یادو اور راہل گاندھی میں سے کسی ایک کو قیادت کی ذمہ داری لینی چاہئے۔ جب تک حکومت وقف ترمیمی ایکٹ کو واپس نہیں لیتی، اس وقت تک خاموش احتجاح جاری رہنا چاہئے۔
سیکولر پارٹیوں کی آزمائش:
وقف ترمیمی بل 2025 کے خلاف ممکنہ تحریک مخالفت میں سیکولر جماعتوں کو آگے اس لئے رکھنا ضروری ہے، کیونکہ اس طرح عام مسلمانوں کو حکومت کی زیادتی سے بچایا جا سکے گا، ساتھ ہی ان پارٹیوں کو ایک آخری بار اور پرکھنے کا موقع مل جائے گا۔ حالانکہ ان پارٹیوں سے ایسی کوئی امید تو نہیں ہے۔ لیکن پھر ملت کو اپنی ضد ایک بار اور پوری کرلینی چاہے۔ شاید دیر ہی سہی ملت کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ جمہوریت میں حقوق ملتے نہیں چھینے جاتے ہیں۔