آپ نے کبھی نہیں دیکھا یا سنا ہوگا کی عیسائیوں نے اپنے تعلیمی اداروں کی کثرت پر زور دیا ہو، عیسائی شہرمیں محض ایک یا دو تعلیمی اداروں کا ہی قیام کرتے ہیں، انتہائی قابل اعتباراور معیاری، جس میں اپنے بچوں کو پڑھانا ہر شہری کا خواب ہوتاہے۔ پہنچ کے لحاظ سے بھی یہ ادارے شہر اور قریبی گاؤں دیہات سے اس طرح مربوط ہوتے ہیں کہ کوئی بھی اپنے بچوں کو ادارے کے بھروسے چھوڑ سکتاہے، زیادہ تر عیسائی اسکولز سی بی ایس سی پیٹرن پر چلتے ہیں جہاں اردو ایک مضمون کی حیثیت سے شامل نصاب ہوتاہے، اور اسی اردو مضمون کو اسلامی تعلیم سمجھ کر مسلمانوں کا متمول طبقہ ان اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانا فخر محسوس کرتا ہے۔
اس کے برخلاف مسلمانوں کے تعلیمی نظریہ کی بات کریں تو گذشتہ دس برسوں میں کافی سدھار دیکھنے کو ملا ہے، عام مسلمان اپنے بچوں کے تعلیم کو لے کر کافی فکرمند ہے، لیکن افسوس اس بات کی ہے کہ مسلمانوں نے معیاری تعلیمی اداروں کے مقابلے اس کی کثرت پر زیادہ توجہ دی، خاص کر تعلیم نسواں کے نام پر پورے ملک میں زبردست انقلاب آیا ہے، لڑکوں کے بنسبت لڑکیوں کے لئے نئے نئے داراے قائم گئے، لڑکوں کے لئے جزوی نئے اداروں کو نظرانداز کردیا جائے تو آج وہی پرانے ادارے موجود ہیں جو پچھلے 60 70- برسوں سے چل رہے ہیں، جن کا معیار تعلیم کافی مخدوش ہوچکا ہے، جبکہ لڑکیوں کے لئے ہر گاؤں اور گلی میں جامعات کی باڑھ آچکی ہے۔
سدھارتھ نگر، بستی، گورکھپور، بلرامپور، کانپور شہر، کانپور دیہات، لکھنؤ، بارہ بنکی، گونڈہ بہرائچ، شراوستی اور سنت کبیر جیسے اضلاع جہاں میرا خود کا تجربہ ہے لڑکیوں کے لئے سینکڑوں ادارے کھل چکے ہیں، جہاں ان اداروں کے مطابق لڑکیوں کو اسلامی زیور علم سے آراستہ کیا جاتا ہے، انہیں بی بی فاطمہ اور امہات المومنین کو بطور رول ماڈل اپنانے کی تعلیم دی جاتی ہے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ ایک تعلیم یافتہ عورت کئی خاندانوں کے لئے رحمت کا سبب ہوتی ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ عورت حقیقی اعتبار سے اسلام کو اپنا منہج حیات تسلیم کرے، ورنہ محض حروف اور نقوش کی پہچان یا ان کی ادائیگی سے زندگی جنت کے بجائے جہنم میں جانے کا سبب بن جائے گی۔ مدارس اسلامیہ کے گرتے تعلیمی معیار اور جامعات کی بہتات نے ملت کی تعلیمی گتھیوں کو سلجھانے کے بجائے مزید مسائل سے دوچار کردیا ہے۔ بالخصوص جامعات سے تعلیم یافتہ لڑکیاں خود ایک مسئلہ بنتی جارہی ہیں۔ تعلیم کی آڑ میں انہوں نے ہر وہ کام کرنا شروع کردیا ہے جس کا ہم تصور بھی گناہ عظیم سمجھتے ہیں۔
جامعات کے ذمہ داروں نے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت سے زیادہ ان کے بناؤ سنگار پر دھیان دیاہے۔قال اللہ قال الرسول کی صداؤں کے بجائے فلمی گانوں اور پاکستانی ڈراموں نے ان کے دلوں میں گھر کرلیا ہے۔ باپردہ رہنے کی تعلیمات جامعات کی دہلیز پر ہی دم توڑ دیتی ہے۔ فیشن ایبل برقعہ کی نت نئی ایجاد نے معلمات اور طالبات علوم نبویہ کو حجاب میں رہتے ہوئے بھی بے پردہ کردیاہے۔ جشن ردائے قرآت و فضیلت کی باڑھ نے تکمیل نصاب کے سارے معیار بالائے طاق رکھ دئیے ہیں۔ چند سکوں کی لالچ نے جامعات کے ذمہ داروں کو اتنا مفاد پرست اور دنیادار بنا دیا کہ کورس کی تکمیل کے بغیر ہی لڑکیوں کو عالمیت، فضیلت اور قرآت کی ڈگریا ں فراہم کر رہے ہیں۔
ذاتی طور پر میں کئی ایسے جامعات سے واقف ہوں۔ جہاں رسم ردائے فضیلت کی تقاریب کو ایک ایونٹ کی طرح منعقد کیا جاتا ہے۔ جہاں لڑکیاں انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ردائے فضیلت کی تقریبات کی ویڈیوگرافی کرکے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کرتی ہیں۔ والدین اور گھر کے دوسرے افراد کو اس حرکت کی بھنک نہ لگے اس کے لئے فرضی ناموں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بات تلخ ہے لیکن انتہائی افسوسناک ہے کہ گھر کے ذمہ داروں کو بھلے ہی لڑکیوں کی ان حرکات کا علم نہ ہو لیکن ان کے سناشاؤں کو ان کی سوشل میڈیا آئی ڈی کا بخوبی علم ہوتاہے۔
آتھ دس برسوں تک جامعات میں گزارنے کے بعد بنیادی دین کی معلومات بھلے ہی نہ ہو لیکن سوشل میڈیا چیٹ ہسٹری کیسے مٹانا ہے، کیسے کس کو کب آن لائن رہنے کا سگنل دینا ہے، کب موبائل ان کے پاس اورکب موبائل پر اہل خانہ کی گرفت ہوتی ہے ۔ اس کے لئے جدید ترین ٹرک کا استعمال بہت اچھی طرح جان لیتی ہیں۔ کیسے بنا فون کال یا وہاٹس ایپ چیٹ کے بھی اسٹیٹس سے کسی کو اپنی جانب مائل کرنا ہے ، یہ انہیں کا خاصہ ہے۔
ابھی حال ہی میں ردائے فضیلت کی تقریب ایک میرج ہال میں منعقد کی گئی جہاں طالبات کے ساتھ ساتھ معلمات نے بھی جم کر ٹانڈو مچایا، شاندار اسٹیج کے ساتھ بہترین ایکو ساؤنڈ سسٹم کا اہتمام کیا گیا۔ لڑکیوں نے رسم ردائے فضیلت کے بعد جم کر سیلفیاں لیں۔ جنہیں بعد میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپلوڈ کیا گیا۔ نوخیز طالبات نے جس اینگل سے فوٹوشوٹ اور ویڈیوگرافی کرائی، اسے دیکھ کر بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کی اداکارائیں شرما جائیں۔ وکٹری نشان، لو علامت، فلائنگ کس انداز، ہاتھوں کی مہندی ڈیزائن، پیروں کی الگ الگ اینگل سے نمائش، یقین مانیں د ل شرمسار ہوگیا۔
جامعات میں لڑکیاں تعلیم کے نام پر بے حیائی پر آمادہ ہیں ۔ اس کا دس فیصدی حصہ بھی آپ کے سامنے نہیں رکھ پا رہا ہوں۔ ایک آخری بات جو انتہائی شرمناک اور قابل افسوس ہے ۔ وہ یہ ہے کہ جامعات کی فارغات بوائے فرینڈز (مرد دوست) بنانا معیوب نہیں سمجھتی۔ کئی بار یہ تجاوز حلقہ اسلام سے باہر غیرمسلموں تک پہنچ جاتا ہے۔ جنہیں ہم عالمہ فاضلہ بناکر فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ غیروں سے مراسم بنا کر نہ صرف چادر عصمت تار تار کر رہی ہیں بلکہ مرتدبھی ہورہی ہیں۔
دراصل تعلیم نسواں کے نام پر ہم نے خیانت کی ہے۔ معیاری اداروں کے بجائے ہم نے اداروں کی کثرت پر توجہ دی۔ باصلاحیت لوگوں کی عدم پذیرائی کے باعث ناہلوں نے مدارس اور جامعات قائم کرنا شروع کردیا۔ جہاں تعلیم کی آڑ میں ہر وہ کام انجام دیا جاتا ہے جس سے بچنے کے لئے ہم لڑکیوں کو تعلیم دینا چاہتے ہیں۔ نتیجہ تعلیم اور تربیت تو ہو نہیں پاتی البتہ مدرسہ جانے اور آنے کے نام پر ملی جھوٹ کا بھرپور غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
اس سے پہلے کہ پانی سر سے اوپر نکل جائے ۔ ملت اسلامیہ ہند کو اس کی جانب توجہ دینی چاہئے ۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو مروجہ طریقہ تعلیم گمراہی کے ساتھ ساتھ ارتداد کابہت بڑا طوفان کھڑا دے گا۔ ہر ایرے غیرے کے تعلیمی ادارے میں بچیوں کو بھیجنے سے بہتر ہے کہ گھر پر ہی ان کی تعلیم و تربیت پر دھیان دیا جائے ۔ جامعات کے نام پر بیوقوف نہ بنیں، جامعات کے پیچھے جہاں مالی منفعت کارفرما ہے وہیں جامعات کا قیام کچھ افراد ذہنی آوارگی کی تسکین کے لئے بھی کرنے لگے ہیں، ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔ کثرت ادارہ کے بجائے معیاری اداروں کی فکر کیجئے۔ جہاں معقول تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ بچیوں کی شرم و حیاء بھی برقرار رہے۔
[…] مدارس اسلامیہ زکاۃ کے مصارف سے خارج ہیں تو مدارس کے نام پر زکاۃ کی وصولی کہاں تک درست ہے؟ اگر زکاۃ کا […]