پانچویں بین الاقوامی اردو۔ہندی کانفرنس کا شاندار آغاز، غیر مسلم مفکرین کو خراجِ تحسین، عالمی سطح کے دانشوروں کی شرکت، تقی عابدی کا بصیرت افروز خطبہ
لکھنؤ (ابوشحمہ انصاری) لکھنؤ یونیورسٹی کے مسعود حسن رضوی ادیب ہال میں آج ایک تاریخی اور فکری لمحہ اس وقت رقم ہوا جب پانچویں بین الاقوامی اردو۔ہندی کانفرنس کا افتتاحی اجلاس نہایت پُرمغز اور علمی ماحول میں منعقد ہوا۔ اس کانفرنس کا موضوع تھا "اردو شعر و ادب کی ترقی میں غیر مسلموں کی خدمات” جو اپنی نوعیت کا ایک منفرد، تہذیبی ہم آہنگی کو فروغ دینے والا، اور بین الثقافتی مکالمے کی نمائندہ تھیم ہے۔
کانفرنس کے بانی، سابق وزیر اعلیٰ و ماہرِ تعلیم ڈاکٹر عمار رضوی نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ اردو اور ہندی دو بہنیں ہیں، جنہوں نے ہمیشہ ہندوستانی معاشرے کو جوڑنے کا کام کیا ہے۔ ہم اُن تمام غیر مسلم مفکرین، ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے اردو ادب کو اپنایا اور اس کی آبیاری کی۔
اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ممتاز شاعر و مفکر ڈاکٹر منیش شکلا نے کہا کہ یہ کانفرنس ہماری مشترکہ تہذیب کی تجدید ہے۔ اردو کو کسی ایک مذہب یا طبقے سے جوڑنا تاریخی طور پر ناانصافی ہوگی۔ یہ زبان محبت، اخوت اور یکجہتی کی نمائندہ ہے۔
کینیڈا سے تشریف لائے عالمی شہرت یافتہ محقق پروفیسر ڈاکٹر تقی عابدی نے کلیدی خطبے میں چکبست، منشی دیا شنکر نسیم، نول کشور، فراق گورکھپوری، گوپی چند نارنگ، آنند نارائن ملا جیسے اہم غیر مسلم ادیبوں کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اردو کی ادبی تاریخ ان عظیم شخصیات کے بغیر نامکمل ہے، جنہوں نے اردو کو بین الاقوامی سطح تک پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
مہمانِ خصوصی پروفیسر اروند موہن نے کہا اردو اور ہندی ہندوستانی ذہن کی دو آوازیں ہیں، جنہیں جوڑنے کے لیے پل درکار ہے، دیوار نہیں۔ یہ کانفرنس وہی پل فراہم کر رہی ہے۔
ڈاکٹر ریحان خان (کینیڈا) نے اردو کے عالمی امکانات، بین الثقافتی ہم آہنگی اور عصری چیلنجز پر جامع خطاب کیا۔ نظامت کی ذمہ داری پروفیسر منتظر قائمی نے نہایت عمدگی سے نبھائی۔ بھرے ہال میں موجود سامعین نے مقررین کے خیالات کو بار بار تالیوں سے سراہا۔
اجلاس کے دوران متفقہ طور پر دو قراردادیں پاس کی گئیں۔
اقوام متحدہ اردو کو بھی سرکاری زبان کے درجے میں شامل کرے، کیوں کہ یہ زبان برصغیر سے لے کر یورپ، امریکہ اور لاطینی امریکہ تک بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
ڈاکٹر تقی عابدی کا کلیدی خطبہ، جو غیر مسلم ادیبوں کی خدمات پر مشتمل تھا، کتابی شکل میں شائع کیا جائے۔
کانفرنس میں مختلف جامعات، اداروں اور ملک و بیرونِ ملک سے آئے ہوئے اسکالرز، طلبہ، اساتذہ، محققین اور صحافیوں نے بھرپور شرکت کی، جن میں نمایاں نام درج ذیل ہیں۔
پروفیسر عباس رضا نیر (شعبہ اردو لکھنؤ یونیورسٹی)، ڈاکٹر سید عاصم رضا (سابق مدیر ‘نیا دور’)، سنجے مشرا شوق، پروفیسر ریشماں پروین، ڈاکٹر ہارون رشید، ڈاکٹر جاں نثار عالم، ڈاکٹر اظہر عباس، ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق، ڈاکٹر شعبان احمد (صدر شعبہ علومِ مشرقیات)، سید کلبِ سلمان، ڈاکٹر انیس انصاری (سابق وائس چانسلر، خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی یونیورسٹی)، ڈاکٹر سید ہارون رضوی (سابق پرنسپل شیعہ پی جی کالج)، عاطف حنیف (انگریزی ادیب)، جمیل حسن نقوی، صحافی ابوشحمہ انصاری، ضیا تقوی، ڈاکٹر فرقان احمد بیگ، آصف زماں رضوی، شعیب احمد، تقی جعفر، ڈاکٹر ہاشمی فاطمہ، ڈاکٹر غلام عباس ہلوری، ڈاکٹر نزہت فاطمہ (شعبہ اردو، کرامت مسلم گرلز پی جی کالج)، ڈاکٹر مسیح الدین خان، عتیق احمد، شہاب الدین خان، جمیل رضوی، ڈاکٹر سید آل احمد (شعبہ ہندی، ممتاز پی جی کالج)، ڈاکٹر شاکیہ (سابق پرنسپل، آر ایم پی جی کالج سیتاپور)، روی کمار اور ریسرچ اسکالرز و طلبہ کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔
کانفرنس کے آئندہ اجلاسوں میں تحقیقی مقالات، مباحثے، اور مشاعرے منعقد ہوں گے جن میں اردو-ہندی کے نئے رجحانات، تدریسی امکانات اور نئی نسل میں لسانی دلچسپی جیسے موضوعات زیرِ بحث آئیں گے۔