اسپین کی طرز پر بھارت سے مسلمانوں کو مٹانے کا ماسٹرپلان تیار
اسپین کی طرز پر کیسے ہندوستان میں مسلمانوں کے انخلاء اور خاتمہ پر کام چل رہا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں تھوڑا سا تاریخی پس منظر سامنے رکھنا ہوگا۔ تاریخی حقائق اور واقعات حقیقت کو سمجھنے میں زیادہ معاون ہو سکتےہیں۔ ورنہ یہ الزام لگایا جاسکتا ہے کہ اسپین کی طرز پر ہندوستان سے مسلمانوں کے صفایا کی بات رائٹر کے دماغی ہیجان یا مالخولیاتی اپج ہے۔
اس لئے سب سے پہلے ہم کچھ حقائق قارئیں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ جہاں بیچ بیچ میں ہم ہندوستان کے موجودہ حالات کو اسپین کی صورتحال سے موازنہ کرائیں گے۔ جس سے یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ جو باتیں اس مضمون میں کہی جارہی ہیں۔ وہ میرے دماغ کی خرابی نہیں بلکہ حقائق ہیں۔
آر ایس ایس کا رول:
آر ایس ایس کے قیام کا بنیادی مقصد ہندوقوم پرستی پر مبنی بھارت کو ہندو راشٹر بنانا ہے۔ آر ایس ایس ہندو راشٹر کے تئیں کتنا پرعزم اور کس خطرناک حد تک جا سکتا ہے۔ اس کا اندازہ آر ایس ایس کے ایک قدآور لیڈر مدھوکر دتترائے دیورس (Madhukar Dattatraya Deoras) کے تاریخی بیان سے لگایا جاسکتا ہے۔ جس میں اس نے کہا تھا۔ "سنگھ سب کچھ کرے گا اور سنگھ کچھ نہیں کرے گا”۔
سنگھ کا ایجنڈہ:
مجھے نہیں پتا کہ آپ کے دماغ میں ان جملوں کے کیا معانی ہیں۔ لیکن میرے حساب سے اس کا سیدھا مطلب یہی نکالا جاسکتا ہے کہ "سنگھ کچھ نہیں کرے گا لیکن سیوم سیوک سب کچھ کریں گے۔ یہ الجھا ہوا طریقہ کار تنظیم کے مقصد اور عزم کو واضح کرتا ہے۔ دراصل آر ایس ایس ہندوستان میں صرف ایک تنظیم بن کر نہیں رہنا چاہتا۔ آر ایس ایس چاہتا ہے کہ پورا ہندوستانی معاشرہ اس کے اقدار پر چلے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہندوستان، ہندوراشٹر میں تبدیل ہوجائے۔
جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بھارت میں ہندو راشٹر کی سب سے بڑی رکاوٹ اسلام ہے۔ اسلام کو بھارت سے ختم کئے بغیر ہندوراشٹر کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ چونکہ اسلام اور مسلمان دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ اس لئے اسلام کو ختم کرنا ہے تو مسلمانوں کو بھارت سے بےدخل کیا جانا لازمی امر ہے۔
اسپین مسلم نسل کشی پر تحقیق:
بھارت سے مسلمانوں کو کیسے ختم کیا جائے۔ اس تعلق سے کچھ علمی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ "اسپین کی طرز پر آر ایس ایس نے بھارت سے مسلمانوں کے صفایا کی خاطر "اسپین سے مسلمانوں کے اخراج” پر 1930 میں ایک تحقیق بھی کرائی ہے۔ حالانکہ دستاویز کی شکل میں میرے پاس اس کا کوئی ثبوت تو نہیں ہے، لیکن حالات اورواقعات آر ایس ایس کی اس تحقیق کو تقویت بخشتے ہیں۔
آر ایس ایس کی تحقیق کے مطابق دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کا تناسب 10 فیصدی سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ 10 فیصدی سے زیادہ ہونے کی صورت میں مسلمان خود کو تسلیم کروانے کی جد جہد کرنے لگتے ہیں۔ معاشرے پر اس کے اسلامی اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں۔ اس لئے بھارت میں مسلم آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے ہی، فیملی پلاننگ پروگرام متعارف کروائے گئے۔ عمل نہ کرنے پر سرکاری نوکریوں سے محروم رکھنے، الیکشن کی اہلیت ختم کرنے، چار شادی چالیس بچے جیسی پالیسیاں، یا بے ہودہ خرافات کو بحث کا موضوع بنایا گیا۔
اسپین کی طرز پر بھارت میں حالات:
آزادی کے پہلے ہندوستان کی کل آبادی کا مسلمان تقریباً 33 فیصدی حصہ تھے۔ جو آر ایس ایس کے 10 فیصد مسلم آبادی والی ریسرچ کے مطابق ہندوراشٹر کا خواب کبھی پورا نہیں ہونے دیتا۔ لہذا وطن عزیز ہندوستان کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے مسلمانوں کو 10 فیصدی کے قریب تر کیا گیا۔ حالانکہ ابھی بھی بھارت میں مسلمانوں کی کل آبادی سرکاری سطح پر 14 فیصد، یا اس کے آس پاس بتائی جاتی ہے۔
اسپین سے مسلمانوں کا انخلاء:
فروری 1492 میں جب مسلم سیاسی قوت کے آخری گڑھ غرناطہ (قرطبہ ) کا سقوط ہوا۔ جس کے بعد اسپین میں پلاننگ کے تحت ایسے حالات پیدا کئے گئے، جس سے مسلمان انخلاء پر مجبور ہوجائیں۔ نتیجتاً منصوبہ بند طور پر 1612 عیسوی میں 120 برس بعد مسلمانوں کے آخری جتھے نے بھی اسپین کو خیر باد کہہ دیا۔ یہ اسپین کی تاریخ کا وہ آخری دن تھا جب وہاں اللہ اکبر کی صدائیں خاموش کر دی گئیں۔
اسپین میں اسلام کا احیاء:
اب اسلام کی حقانیت اور اس کے تعلیمات کی ہمہ گیریت ہے۔ جس نے دوبارہ سے اسپین میں اللہ اکبر کی صداؤں کو جنم دیا۔ 2023 کے اعداد وشمار کے مطابق بروقت اسپین کی کل آبادی میں مسلمان تقریباً 5 فیصدی پائے جاتے ہیں۔ جس میں غیر ملکی، اور تبدیلی مذہب کرکے آنے والی وہاں کی ہسپانوی قوم شامل ہیں۔
سقوط غرناطہ کے وقت اسپینی مسلمانوں کا نسلی جائزہ:
سقوط غرناطہ اسلامی نظریہ سے اسپین کی تاریخ کا بدترین دور کہلاتا ہے۔ 1444 سالہ اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کا ایسا زوال تاریخ کے کسی دور نے نہیں دیکھا۔ جہاں مسلمانوں کا نام و نشان تک مٹا ڈالا گیا ہو۔ سقوط غرناطہ کے وقت مسلمانوں کو عموماً تین مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
- اصل عربوں کی نسل
- عرب مردوں اور اسپینی ماؤں کی اولادوں پر مشتمل نسل
- عیسائیت کو ترک کر کے اسلام قبول کرنے والے ہسپانوی مسلمان
اسپین کی طرز پرہندوستان کی صورتحال:
- عرب مسلمان جن کو سادات کہاجاتا ہے۔
- عرب مسلمان مردوں اور ہندوستانی ماؤں کی اولاد پر مشتمل نسل۔
- ہندوازم سے تائب ہوکر اسلام قبول کرنے والے ہندوستانی مسلمان۔
بھارت میں عرب مسلمانوں کی نسل باقی ہے، لیکن عرب مسلمان ختم ہو چکے ہیں۔ عرب مردوں، اور ہندوستانی ماؤں کی اولاد، یہ نسل بھی کالعدم ہوچکی ہے۔ تیسری اور آخری قسم ہندوازم سے تائب ہوکر قبول اسلام کرنے والی نسل۔ بھارت میں فی الحال یہی ایک نسل ہندوستان کی مسلم آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہیں۔
اب بھارت کی موجودہ مسلم آبادی کو کیسے ختم کیا جارہا ہے اس کی تصویر بھی دیکھ لیں۔
طبقہ اشراف کا میدان سے بھاگ جانا:
تقسیم وطن کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کا طبقہ اشراف ٹھیک اسی طرح ہجرت کرکے پاکستان چلا گیا۔ جیسے سقوط غرناطہ کے بعد عرب مسلمانوں نے اسپین کو خیرآباد کہہ دیا تھا۔
باقی بچے مسلمان آج بھی بھارت میں بالکل اسی طرح اپنے وجود کو سیکولرزم کی آغوش میں محفوظ سمجھنے کی بے بنیادیقین دہانی کرا رہے ہیں۔ جیسے اسپین میں رہ گئے مسلمانوں کو اس کی بات کی یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اسپین کی نئی حکومت میں سبھی کے حقوق مساوی ہیں۔ لیکن تاریخ شاہد ہے سقوط غرناطہ کے بعد مسلمانوں کو کبھی بھی ہسپانوی شہریوں کے برابر حقوق نہیں ملے۔ یہ صورتحال بھی بعینہ ہندوستانی مسلمانوں سے میل کھاتی ہے۔
سیکولرزم اور جمہوریت کا دھوکہ:
آزادی کے بعد جو یہاں رہ گئے تھے۔ ان سے بھارت کی حکومت نے مساوی حقوق کا وعدہ ضرور کیا تھا۔ لیکن آزادی کے اتنے برسوں میں ایک بار بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ بھارت میں مسلمانوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ حکومت، انتظامیہ اور اب تو عدلیہ بھی مسلمانوں کے خلاف مسلسل فیصلے صادر کرتی ہے۔ بابری مسجد، گیان واپی، اور حالیہ سنبھل جامع مسجد کے فیصلوں کو بطور مثال لیا جاسکتا ہے۔
طبقہ اشراف کی اسلام سے دوری:
ہندوستانی مسلمانوں کے متمول گھرانے، کفر کی آغوش کی پناہ ڈھونڈھ رہے ہیں۔ شاہ فیصل، شہلا راشد، ایم جے اکبر، شہنواز حسین اور وسیم رضوی عرف جتیندر تیاگی جیسے افراد کو اس کی مثال کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔
یہ صورتحال بھی اسپین کے صورتحال سے دیگر نہیں کہی جاسکتی۔ اسپین سے سلطنت اسلامیہ کے خاتمے کے بعد وہان بچ گئےطبقہ اشراف نے بھی یہی کیا تھا۔ دوسری صورت کفر سے تائب ہوکر اسلام میں شامل ہونے والی ہسپانوی آبادی کو یہ کہہ کر مرتد بنا لیا گیا کہ اب اسلامی حکومت نہیں رہی۔ جو آپ کے تبدیلی مذہب کا سبب تھی، تو فی الحال اسلام پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ختم ہوگئی۔ لہذا اپنے پرانے آبائی مذہب عیسائیت میں واپس آجاؤ۔
آج کے ہندوستان میں بھی گھر واپسی اسی آئیڈیالوجی کا ایک ورژن ہے۔ جس ہندو قوم پرست تنظمیں مختلف حکمت عملی کے ذریعہ اقدامات عمل میں لارہی ہیں۔
سیاسی اعتبار سے نسل کشی کے اسباب:
آر ایس ایس یہ بات بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ سیاسی اعتبار سے مضبوط ہوئے بغیر معاشرے میں تبدیلی لانا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے آر ایس ایس نے تین اہم کام کئے۔
- پہلے خود کو سیاست سے دور رکھ کر بھی سیاسی سرگرمیوں میں شامل رہا۔ ہندو مہاسبھا، جن سنگھ، اور بی جے پی، آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے۔ اس کے علاوہ آر ایس ایس نے اپنے خلاف کسی بھی ممکنہ کارروائی کی پیش بندی کے لئے ملک کی دیگر نام نہاد سیکولر جماعتوں میں اپنے ہم خیال افراد کو شامل کرایا۔ جو آر ایس ایس کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔
- دوسرا سب سے اہم کام آر ایس ایس نے یہ کیا کہ مسلمانوں کی سیاسی لیڈرشپ کو ابھرنے سے روکا۔ اس کے لئے اس نے اپنے انہیں ہم خیال سیاست دانوں کا استعمال کیا۔ جن کو ملک کی متعدد پارٹیوں میں شامل کرا رکھا ہے۔
- آر ایس ایس نے مسلمانوں میں بھی اپنے ہم خیال افراد پیدا کئے۔ جو ان کے اشاروں پر مسلم سیاسی قیادتوں کے سر کچلتے رہے۔ مسلمانوں کی صفوں میں یہ کام کچھ لوگ بلاواسطہ تو کچھ سیاسی ماہرین اپنی پارٹیوں کی تابعداری کے توسط سے آر ایس ایس کے مشن کی تکمیل کرتے ہیں۔
نصاب تعلیم سے مسلمانوں کا صفایا:
ہندستانی نصاب تعلیم سے مسلمانوں کی تاریخ کو نکالا جا رہا ہے۔ ہندستان کے لیے جان دینے والے مسلمانوں کا نام تک لینے سے پرہیز کیا جارہا ہے۔ ٹیپو سلطان جیسے عظیم ہندستانی جانباز کا نام ملک کے نوجوانوں سے چھپایا جارہا ہے۔ اس کے برخلاف’ تاتیا ٹوپے ‘جنہوں نے محض اپنے وظیفے کے لیے جنگ کی تھی۔ جھانسی کی رانی لکشمی بائی‘ نے اپنے متبنّٰی بیٹے کو سلطنت کی جا نشینی دلانے کے لیے جنگ میں حصہ لیا۔ اُن کے ناموں سے ہر ہندستانی کو متعارف کروایا جارہا ہے۔
ایک اے جے پی عبدالکلام کو چھوڑ دیا جائے تو گذشتہ کئی دہائیوں سے ملک میں کسی بھی پروجیکٹ، اسمارک، تعلیمی ادارے کو مسلم مجاہدین آزادی کے نام سے معنون نہیں کیا گیا۔ جو تاریخی اعتبار سے مسلمانوں کی نسل کشی ہی کہی جاسکتی ہے۔
مسلمانوں کے خلاف سب ایک ہیں:
عام طور یہ خیال باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ملک میں سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت یقینی بنانے میں سنجیدہ ہیں۔ لیکن یہ بات سفید جھوٹ ہے۔ ملک کی کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلمانوں کے تعلق سے مثبت سوچ نہیں رکھتی۔ درپردہ ہر پارٹی آرایس ایس کے ہندوراشٹر کو سپورٹ کرتی ہے۔
سیکولرزم کا خول:
سیکولر پارٹیاں کھل کر آر ایس ایس کی حمایت اس لئے نہیں کرتی ہیں۔ کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ اگر مسلمان ان کی چال سمجھ گیا۔ تو ہندو راشٹر کا خواب دھرا ہی رہ جائے گا۔ یہی وجہ ہے نام نہاد سیکولر پارٹیاں کسی بھی پارٹی سے سمجھوتہ کر لیتی ہیں۔ لیکن مسلم قیادتوں سے اتحاد کرنے کے بجائے اس کو شکست دینے کے لئے سب ایک ساتھ مل کر مسلم امیدوار میدان میں اتار دیتی ہیں۔
اسپین کی طرز پرسیاسی کج فہمیاں:
اسپین میں بھی باقی بچے مسلمانوں نے سیاسی اعتبار سے خود کو مستحکم نہیں کیا تھا۔ جو بعد میں ان کے نسلی صفایا کا سبب بنا۔ مسلمانوں کا ہندوستان سے صفایا اس لئے بھی متوقع ہے،کیونکہ مسلمانوں کا سیاسی قبلہ درست نہیں ہے۔ مسلمان قیادت کے بجائے انفرادی لیڈر اور بی جے پی کو ہرانے کی سیاست کرتا ہے۔ جو بذات خود، ایک خودکشی ہے۔ پچھلے کچھ انتخابات سے مسلمان اس میں بھی بری طرح ناکامی سے دوچار ہے۔
اسپین کی طرز پر ہی بھارت میں خود احتسابی کا فقدان:
بھارت میں مسلمانوں کا اسپین کی طرز پر صفایا اس لئے بھی یقینی ہے کیونکہ مسلمانوں میں خوداحتسابی نہیں ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے اسپین کے مسلمانوں میں نہیں تھا۔ ہندوستانی مسلمان بھی ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے اور انہیں سدھارنے کی کوشش نہیں کرتے۔ مسلمان اتنی ذلت ورسوائی کے بعد بھی سیکولر پارٹیوں سے امید لگائے بیٹھا ہے۔ ان حالات سے نکلنے کے لئے اجتماعی یا انفرادی، کسی بھی جد جہد سے دوری بنائے ہوئے ہے۔ اگر کچھ افراد اقدامت عمل میں لانا بھی چاہتے ہیں، تو مسلمان انہیں سپورٹ نہیں کرتے۔
اسپین کی طرزخود کو حالات پر چھوڑنا غلط:
اگر مسلمانوں کا یہی نظریہ اگلے 10 سے 15 برسوں تک اور جاری رہا، تو ہندو انتہاپسند، مسلمانوں کے کھوپڑیوں میں شراب پینے سے پرہیز نہیں کریں گے۔ اور اگر ہوش کے ناخن لے لئے تو بہت ممکن ہے کہ آر ایس ایس کا ہندو راشٹر اپنی موت آپ مر جائے۔ ساتھ ہی اس ملک میں مسلمانوں کا وقار پھر بحال ہوجائے۔
احساس ذمہ داری:
فی الحال مسلمانوں کی اپنی ذمہ داریوں کے تئیں بے حسی، اور ہندوانتہاپسندی نامی عفریت، دونوں میں کمال کا عروج ہے۔ مسلمانوں کی یہی بے حسی اور ذمہ داریوں سے چشم پوشی، مسلمانوں کے قتل عام کا سبب بنے گی۔ بھارت میں اسپین کی طرز پر نسلی صفایا کرنے میں حکومت کو بذات خود کچھ کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ ہندو دہشت گردوں کی بھیڑ سب کچھ اپنے طور پر نپٹا دیں گے۔
اب یہ فیصلہ مسلمانوں کو کرنا ہے کہ ہندوانتہاپسندوں کا آئینی اعتبار سے مقابلہ کرنا ہے۔ یا پھر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسپین کی طرز پر اپنے نمبر کا انتظار کرنا ہے؟۔
[…] اسلام کا قدس کے تعلق سے اس قدر بے حس ہونا ایسے ہی نہیں ہے۔ دراصل صہیونیویوں نے اس کے لئے ایک […]
[…] اسلام کا قدس کے تعلق سے اس قدر بے حس ہونا ایسے ہی نہیں ہے۔ دراصل صہیونیویوں نے اس کے لئے ایک […]
[…] کا بھی انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف علاقوں سے آئے ہوئے ممتاز شعراء نے شرکت […]
[…] صرف مسلمانوں کی جائیدادوں پر قبضے کی کوشش ہے بلکہ اس سے اقلیتوں کی مذہبی آزادی پر بھی ضرب لگتی ہے۔ وقف املاک کی حفاظت […]