✍️آصف جمیل امجدی
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اسلام کی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے نہ صرف دین کی خدمت میں بے مثال کردار ادا کیا بلکہ امت کی وحدت اور اسلامی سلطنت کی وسعت میں بھی کلیدی حصہ لیا۔ سیدنا امیر معاویہ کا تعلق قریش کے معزز خاندان بنو امیہ سے تھا اور آپ کے والد ابو سفیان اور والدہ ہندہ بنت عتبہ بھی تاریخ اسلام کے مشہور نام ہیں۔
سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ سے قبل اسلام قبول کیا اور اس کے بعد اپنے ایمان میں مخلص اور ثابت قدم رہے۔ آپ نے حضور نبی کریم ﷺ کی صحبت میں رہتے ہوئے دین کے اصولوں کو اپنایا اور ان پر عمل کیا۔
سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺ کے قریب رہنے کا شرف حاصل تھا۔ ایک موقع پر آپ کو حضور ﷺ کے موئے مبارک کو قینچی سے تراشنے کا موقع ملا. جو آپ کی محبت اور خدمت کا واضح ثبوت ہے۔ آپ کو حضور ﷺ نے اپنے ساتھ سواری پر سوار کیا. جو آپ کے مقام و مرتبے کی نشاندہی کرتا ہے۔
سیدنا امیر معاویہ کاتب وحی
حضور نبی کریم ﷺ نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے ہادی اور مہدی جیسے القاب استعمال کیے. جو ان کی دیانت داری اور قیادت کی صلاحیتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ مزید برآں آپ کو نبی ﷺ نے اپنا کاتب مقرر کیا. جو آپ کی علمی صلاحیت اور اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
خلافت فاروقی کے دور میں سیدنا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو شام کا گورنر مقرر کیا گیا۔ آپ نے اپنی حکمت عملی سے شام کو نہ صرف ایک مضبوط صوبہ بنایا بلکہ اس علاقے کو اسلامی تہذیب و تمدن کا مرکز بھی بنایا۔
خلافت عثمانی اور علوی کے ادوار میں بھی آپ شام کے گورنر رہے. اس درمیان اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھایا۔
جب سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کی. تو آپ امت کے متفقہ خلیفہ یعنی امیر المومنین بنے۔ آپ تقریباً 19/ سال تک اس منصب پر فائز رہے اور اسلامی سلطنت کو ایک نئی وسعت دی۔ آپ کے عہد میں اسلام افریقہ وسط ایشیا اور دیگر دور دراز علاقوں تک پہنچا۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور حکومت اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ آپ کی حکمت عملی اور انتظامی صلاحیتوں نے امت مسلمہ کو انتشار سے نکال کر ایک وحدت کی شکل دی۔ آپ کے عہد میں کئی ایسی بشارتیں پوری ہوئیں جو نبی کریم ﷺ نے پہلے سے دی تھیں۔ امیر معاویہ کی شخصیت، خدمات دین اور حکومتی تدبر آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
آپ کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام میں قیادت کا معیار علم حکمت اور عدل پر مبنی ہے.
[…] سے امت کو خبردار کرنا اور ان کا تعاقب و سدباب کرنا علماء امت کا فرض منصبی ہے۔ ان فتنوں سے حفاظت کا سب سے کارگر طریقہ […]