آندھرا پردیش کا ایک گاؤں اونگل ان دنوں کافی سرکیوں میں ہے۔ ملکی میڈیا کے ساتھ ساتھ غیرملکی میڈیا بھی اس گاؤں کو خوب چرچے ہورہے ہیں۔ اونگل گاؤں کے اچانک چرچہ میں آنے کی وجہ وہاں کی ایک گائے ہے۔ جو اس وقت سرخیوں کی زینت بن گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اونگل گاؤن اس وقت سرخیوں میں آیا۔ جب اونگل نسل کی ایک گائے کو برازیل کے بازار میں 41 کروڑ روپے میں فروخت کیا گیا۔

آندھرا پردیش کے اونگل نسل کی یہ گائے برازیل میں ویاتینا 19 (Viatina-19) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس سال برازیل میں ہوئی نیلامی میں اس گائے کو اب تک کے سب سے زیادہ قیمت پر فروخت کیا گیا۔ فی الحال اونگل گائے کو دنیا کی سب سے مہنگی گائے بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
آندھرا پردیش کے ضلع پرکاسم، خاص طور پر گاؤں کارواڑی کی عوام نے اس گائے کی موجودہ قیمت پر فروخت ہونے کے بعد خوشی کا اظہار کیاہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اونگل گائے کا ہماری ریاست اور ہندوستان سے وابستہ ہونا بڑے فخر کی بات ہے۔
اونگل گائے قابل فخر سرمایہ:
آندھرا پردیش کا، کارواڑی گاؤں ضلع کاسم اونگل ڈویژن سے تقریباً 12 کلومیٹر دور واقع ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق "پولاوراپو چنچورمایا” نامی ایک شخص نے 1960 میں اس اونگل نسل کی گائے اور ایک بیل برازیل کے ایک شہری کو فروخت کیاتھا۔
"چنچورامیا” کو جب اس بات کی خبر ملی تو وہ مارے خوشی پھولے نہیں سمائے۔ ان کا ماننا ہے کہ بین الاقوامی بازار میں اتنی زیادہ قیمت پر ان کی گائے کا فروخت ہونا اعزاز کی بات ہے۔
گاؤں کے سابق سرپنچ "پولاورپو وینکٹ رامیا کا کہنا ہے کہ ایک گائے کی وجہ سے ہماری ریاست اور ملک کا نام دور دور تک پہنچ رہا ہے۔ یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے۔
آندھرا پردیش میں کثرت سے پائے جاتے ہیں اونگل مویشی
اونگل نسل پر تحقیق کرنے والے ہیںچنچو چیلامیا نے ایک انٹرنیشنل میڈیا ہاؤس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’1962 میں ٹیکو نامی ایک شخص نے 60 ہزار روپے میں خرید کر اسے برازیل لے گیا۔ جہاں اس نے اس کی منی (مادہ منویہ) بھی محفوظ کر لی۔ جو آج بھی برازیلی شہریوں کے پاس محفوظ ہے۔
88 سالہ چیلامیا نے مزید بتایا کہ’اس نے وہ بیل بھی دیکھا ہے۔ جس نے دہلی میں منعقدہ جانوروں کے مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ تب اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھی اس بیل کو مبارکباد دی تھی۔ وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی یہی ستائش اس بیل کے خریدنے کی وجہ بنی تھی۔
لام فارم کے چیف سائنسدان ڈاکٹر متھراؤ کے مطابق آندھرا پردیش میں اونگل نسل کے چارلاکھ سے زائد جانور ہیں۔ برازیل میں کل 220 ملین جانوروں میں 80 فیصد اونگل نسل کے مویشی پالے جاتے ہیں۔
اونگل گائے کی خاصیت کیا ہے؟
عام طور پر جانور کے سفید رنگ، سڈول جسم، سرخی مائل شکل، اونچی پیٹھ اور توانا جسم اس کی خاصیت بتاتی ہے۔ اگرچہ گائے کی بہت سی دوسری نسلیں بھی ہیں تاہم اونگل ان میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق
- اونگل گائے کا وزن تقریباً 1100 کلوگرام ہوتا ہے جو انتہائی طاقتور مانی جاتی ہے
- اونگل مویشی انتہائی گرم ماحول میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔۔
- وہ آسانی سے بیمار نہیں ہوتے۔ بہت چست اور چالاک ہوتے ہیں۔

ایک تخمینہ کے حساب سے اونگل نسل کے بیل ایک بار میں پانچ سے چھ ایکڑ پر ہل چلاسکتے ہیں۔ پرکاشن ضلع مویشیوں کی اس نسل کی جائے پیدائش مانی جاتی ہے۔
اونگل میں کسان تنظیم کے رہنما، ڈوگینی گوپی ناتھ نے کہا۔ ’عالمی شہرت یافتہ اونگل نسل کی ابتدا دو دریاؤں گنڈالکما اور پالیرو کے درمیان کے علاقے میں ہوئی ہے۔ انہوں نے اونگل نسل کی طاقت کا راز، اس علاقے کی مٹی، ماحولیات، مٹی میں نمک کی مقدار اور گھاس کو قرار دیا۔
کیا اونگل بیلوں کی تعداد کم ہو رہی ہے؟
آندھرا پردیش کے مختلف علاقوں میں، اونگل بیلوں کی جوڑیاں آج بھی آسانی سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ تاہم، کاشتکاری میں بڑھتی ہوئی ٹکنالوجی، نقد فصلوں کی بڑھتی ہوئی مانگ، اور چاول کی گرتی ہوئی پیداوار نے کسانوں کے لیے ان جانوروں کی دیکھ بھال کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ اس لیے ان کی تعداد میں تدریجاً کمی آ رہی ہے۔
منڈاوا سرینواس راؤ نامی ایک کسان کہتے ہیں کہ’وہ پچھلے چالیس سالوں سے کھیتی کرتے آرہے ہیں۔ بچپن میں وہ بیلوں سے کھیتوں میں ہل چلایا کرتے تھے۔ اب ٹریکٹروں کی آمد سے بیل کھیتوں سے غائب ہو گئے ہیں۔‘
گاؤں کے ایک دوسرے کسان ناگینی سریش نے بتایا کہ پہلے، اونگل بیل اکثر کارواڑی سے برازیل کو ایکسپورٹ کیے جاتے تھے۔ اب وہاں بھی بیل نظر نہیں آتے۔‘
چیلمیا نے بتایا کہ ’1990 کے بعد کھیتی کے کاموں میں بیل کا استعمال بند ہو گیا ہے۔ ٹریکٹر اور دوسرے ذرائع کا چلن بڑھ گیا ہے۔ اس لیے اب صرف وہی لوگ بیل پالتے ہیں جو مالی اعتبار سے مستحکم ہیں یا پھر ایسے لوگ جو بیلوں کی دوڑ کا شوق رکھتے ہیں وہ ان بیلوں کو سنبھال سکتے ہیں۔‘
لیکن اس کے بوجود بھی کچھ جگہوں پر کھتی کے لئے ابھی بھی بیل استعمال ہوتے ہیں۔ خاص طور پر تمباکو کے کھیتی کے لئے بیلوں کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔
سنگم سیٹی انکما راؤ نامی ایک کا کنہا ہے کہ وہ آج بھی بیلوں سے کھیتی کرتے ہیں۔ ایک اندانے کے مطابق وہ ایک دن چار سے پانچ ایکڑ ہل چلاتے ہیں۔
اپنے گوشت کے لیے مشہور:
بھارت میں اونگل مویشیوں کو صرف دودھ یا زراعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن چیلامیا کا کہنا ہے کہ دوسرے ممالک میں صورتحال مختلف ہے۔
ان کے مطابق ’برازیل میں 80 فیصد گائے اور بیل گوشت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ کچھ بیلوں کی پیٹھ پر پٹی نہیں ہوتی۔ ان کا وزن بھی 450 سے 500 کلو تک ہوتا ہے۔لیکن اونگل بیلوں کا وزن 1100 سے 1200 کلو تک بڑھ جاتا ہے۔ جو دوسرے نسل کے مویشیوں کے مقابلے کم خرچ میں تیار ہو جاتے ہوجاتے۔
ایک رپورٹ کہتی ہے کہ اونگل مویشی کے گوشت میں چکنائی کم ہوتی ہے۔ جس کے باعث لوگ ان بیلوں کا گوشت کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ چیلمیا کا کہنا ہے کہ اونگل بیلوں کا استعمال کرتے ہوئے نئی نسلیں بھی پیدا کی جا رہی ہیں۔
برازیل جیسے ممالک میں، جن کا انحصار مویشیوں کی کھیتی پر ہے، اونگل نسل کے حیاتیاتی جین کا استعمال کرتے ہوئے نئی نسلیں تخلیق کی جا رہی ہیں۔
ڈاکٹر چیلمیا کہتے ہیں کہ
برازیل میں 80 فیصد سے زیادہ مویشیوں کو اونگل نسل کے ساتھ کراس بریڈ کیا جاتا ہے۔ جو بنیادی طور پر گوشت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔‘
عام طور پر ایک گائے چھ بار بچے دیتی ہے۔ لیکن چیلامیا کا مزید کہنا ہے کہ حال ہی میں برازیل میں ایک نیا تجربہ شروع ہوا ہے۔
جس کے تحت اونگل گایوں اور بیلوں کے انڈے (مادہ منویہ) نکال کر مصنوعی انسا نیشن کی جاتی ہے۔ پھر جنین کو مقامی گایوں کے پیٹ میں لگایا جاتا ہے۔ اس طرح اونگل نسل کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔
حکومت سے توجہ کی اپیل:
کسان تنظیم کے رہنما ایس گوپی ناتھ نے کہا کہ بھارتی حکومت کو قومی معیشت کے لیے اونگل گائے کی ترقی کے لیےانقلابی اقدامات کرنا چاہیے۔ برازیل کی طرح انڈیا میں بھی مویشیوں پر مطالعہ اور تحقیق کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ تاکہ اونگل نسل کی پیداوار بڑھانے مدد مل سکے۔
ڈاکٹر چیلمیا نے الزام عائد کیا کہ حکومت اونگل مویشیوں کی نسل کو بچانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کر رہی ہے۔
حالانکہ لام فارم اینیمل ریسرچ سینٹر کے چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر ایم متھراؤ نے میڈیا کو بتایا کہ ’مرکزی اور ریاستی حکومتیں اونگل نسل کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے اونگل گایوں اور بیلوں کے تحفظ کے لیے تین مراکز بھی قائم کیے ہیں۔