کانپور (محمد عثمان قریشی) مدرسہ عربیہ رزاقیہ مدینتہ العلوم پانی کی ٹنکی بانسمنڈی حضرت حافظ و قاری عبد الرحیم بہرائچی نے حضرت غوث اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی سیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ یہ مشہور ہے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیدائش کے بعد ہی زمانہ ربی زمانہ شیر خوارگی میں بھی رمضان مبارک کے دنوں میں دودھ نہیں نوش فرمایا آپ کے جدا قدس سید نا نبینا محمد مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شریعت مطہرہ کا پاس زمانہ شیر خوارگی میں بھی مذکور ہے کہ آپ اکثر دایہ کی گود جھولے سے غائب ہوجاتے دایہ وغیرہ کا اضطراب بڑھ جاتا اور تھوڑی دیر میں آپ پھر وہیں موجود پائے جاتے.
ہماری نظر سے یہ روایت بھی گزری ہے کہ آپ حسب معمول ایک دن دایہ کی گود میں آرام فرما رہے تھے کہ اچانک دایہ کی آغوش سے پرواز کر کے سورج تک پہنچ گئے وہاں آپ کے جسم کو سیماب کی طرح حرکت ہوئی دایہ اس واقعہ سے حیران ہی تھی کہ تھوڑی دیر میں آپ پھر دایہ کی گود میں آگئے دایہ نے اس واقعہ کو راز ہی میں رکھا اور جب آپ جوان ہو کر بغداد میں رونق افروز تھے تو یہ دایہ گبر و یه دایه گیلان سے بغداد پہنچی اور پوچھا اے خورشید ولایت زمانہ شیر خوارگی میں آپ میری گود سے پرواز کر کے سورج تک پہنچے تھے کیا وہی کیفیت اب بھی ہوتی ہے آپ نے فرمایا کہ اے مادر مشفق ہاں اور اب خدائے قدوس کی عنایات مجھ پر اس سے سو گنا زائد ہے عالم شیر خوارگی میں تو اپنی عمر کے تقاضے کی بنا پر اس کی تجلیات کا متحمل نہیں ہوتا تھا بے قرار ہو جاتا تھا اب رب تبارک و تعالیٰ نے مجھے وہ ظرف مرحمت فرمایا ہے کہ ویسی ہزاروں تجلیاں مجھ میں سما جاتی ہیں اور مجھے ذرا بھی جنبش نہیں ہوتی آپ بچپن ہی سے یہ شوق مدرسہ تشریف لے جاتے رجال الغیب کے حضرات آپ کے ساتھ ہوتے آپ فرماتے ہیں
کہ جب میں مدرسہ میں داخل ہوتا تو سنتا کہ وہی حضرات کہتے ہیں کہ اللہ کے ولی کو جگہ دو تھوڑی ہی مدت میں آپ نے اپنے وطن گیلان میں وہ تمام علوم حاصل کر لئے جو وہاں جاری تھے اور جب اعلیٰ علوم دینیہ کا شوق اور تیز تر ہو گیا تو آپ نے اپنی والدہ ماجدہ سے اظہار شوق فرما کر بغداد تشریف لے جانے کی اجازت طلب کی بغداد اس وقت علوم اسلامیہ کا بہت بڑا مرکز تھا
بڑے بڑے علماء ، فضلاء ، محدثین اور مشائخ طریقت بغداد میں جلوہ فرما تھے وہ وقت کتنا عبرت انگیز تھا جب سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ علوم دینیہ کے حصول کے لئے والدہ محترمہ سے اجازت طلب فرمارہے تھے آپکی والدہ ماجدہ اسلام کی ذمہ داریوں کا خیال علوم دینیہ کی اہمیت سے اچھی طرح واقف تھیں آپ نے اللہ تعالیٰ و رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی محبت کو دنیا کی پر فریب محبت پر ترجیح دی اور انتہائی صبر و شکر اور صحت مند دینی و مادری شفقت و محبت کے ساتھ اجازت مرحمت فرما کر سامان سفر درست کیا 180 دینار جو آپ کے والد ماجد کے ترکہ سے موجود تھے
ان میں سے آپ کے حصہ کے 40 دینار آپ کی گدڑی میں بغل کے نیچے اس طرح سی دیئے کہ دیناروں کی موجودگی کا تصور بھی نہ ہو سکے اور چالیس دینا ر اپنے چھوٹے شاہزادے کیلئے محفوظ رکھ لئے اور رخصت کرتے وقت نصیحت فرمادی کہ بیٹا کتنا ہی سخت موقع کیوں نہ ہو خبردار جھوٹ نہ کہنا آپ اپنی والدہ ماجدہ سے یہ عہد کہ اسے یہ عہد کر کے قافلہ کے ساتھ جیلان سے کے لئے روانہ ہو گئے جب قافلہ مقام ہمدان سے گزر کر صحرائے تر انتک میں پہنچا تو اس خطہ کے مشہور سردار ڈا کو احمد بدوی اپنے ساٹھ سوار ڈاکوؤں کے ساتھ قافلہ پر ٹوٹ پڑا خوب قتل و غارت گری کی کچھ ڈاکوؤں نے یکے بعد دیگرے آپ سے پوچھا میاں تمہارے پاس کیا ہے آپ نے بیان فرمایا کہ ہاں چالیس دینار میری گاڑی میں بغل کے نیچے سلے ہوئے ہیں وہ یہ سمجھ کر چھوڑ گئے کہ یہ لڑکا ہم پر طنز کرتا ہے ہنستا ہے جب ڈا کو قافلہ لوٹ چکے تو ایک مقام پر اکٹھے ہو کر لوٹا ہوا مال باہم تقسیم کرنے لگے ایک ڈاکو بولا کہ قافلہ میں ایک لڑکا بھی تھا جس نے باز پرس میں یہ کہا کہ میرے پاس بھی چالیس دینار ہیں
دوسرے ڈاکو نے تائید کی کہ مجھ سے بھی اس لڑکے نے یہی کہا تھا سردار ڈا کو احمد بدوی نے حیرانی سے آپ کو بلوایا اور دریافت کیا تمہارے پاس کیا ہے آپ نے پھر وہی جواب دیا کہ 40 دینار بغل کے نیچے گڈری میں سلے ہوئے ہیں سردار بولا گاڑی کھول ڈالو جب وہ کھولی گئی تو چالیس اشرفیاں نکل آئیں سردار ڈاکو نے کہا ارے میاں 40 دینار جو اتنی حفاظت سے بغل کے نیچے گدڑی میں سلے ہوئے تھے کہ کسی ڈاکو کو وہم بھی نہ ہو سکا کہ تمہارے پاس کچھ موجود ہے پھر تم نے کیسے بتا دیئے کیا تمہیں نہیں معلوم کہ ہم خوفناک ڈاکو ہیں حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میری والدہ ماجدہ نے رخصت کے وقت مجھ سے عہد لیا تھا کہ کسی حالت میں جھوٹ نہ بولوں میں اسی عہد پر قائم ہوں سردار ڈا کو احمد بدوی یہ سنتے ہی رو پڑا اور کہا کہ اے شاہزادے ایک تم ہو کہ اپنی والدہ ماجدہ کے عہد کو خوفناک سے خوفناک حالت میں بھی توڑنے کے لئے تیار نہیں اور ایک میں ہوں نہیں معلوم میرا حشر کیا ہوگا اب میں اس سے رجوع کرتا ہوں اور تمہارے ہاتھ پر تو بہ کرتا ہوں اور عہد کرتا ہوں کہ آئندہ اب کبھی یہ فعل نہ کروں گا اور میرے پاس جو کچھ ہے واپس کرتا ہوں جب اس کے ساتھی ڈاکوؤں نے یہ حال دیکھا وہ بھی رو پڑے اور کہا کہ اے سردار جب ڈاکہ زنی اور چوری میں آپ ہمارے سردار رہے اور ہم آپ کے تابع تو اب اور توبہ میں بھی آپ کی اتباع کرتے ہیں سب نے توبہ کی قافلہ کا تمام مال و رجوع اسباب واپس کیا۔