عام طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے خستہ حالی کے لئے بھارت کی فرقہ پرست سیاست کو سب سے بڑا سبب مانا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات مکمل سچ نہیں ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی بدحالی کے لئے جتنا ذمہ دار ملک کی فرقہ پرست سیاست ہے۔ اس سے کہیں زیادہ غلطی ہمارے ان رہنماؤں کی ہے جنہوں نے ظاہری فرقہ پرستوں کی آڑ میں حقیقی فرقہ پرست نظریہ کو اپنے خون اور پسینوں سے سیراب کیا ہے۔ ساتھ ہی وہ دوقومی نظریہ جس کے فریب میں آکر کچھ مسلمانوں نے تقسیم ہند کے مسودہ کو قبول کیا، اور سیاسی حصہ داری سے دستبردار ہونے کا گناہ عظیم بھی کیا.
مسلمان جس کی سزا آج بھگت رہا ہے۔ اس سازش کی گہرائی تک عام مسلمان پہنچ ہی نہیں پاتا۔ اس مضمون کے ذریعہ ایک ایک کرکے اس سازش اور اس کے کرداروں کو بے نقاب کریں گے۔
منصوبہ بند ہے، مسلمانوں کی تباہی:
دراصل مسلمانوں کی تباہی کے سامان انتہائی منصوبہ بند طریقے سے انجام دئے گئے ہیں۔ ایک پورا مسٹر پلان ہے جس کی بنیاد آزادی سے پہلے ہی رکھی گئی ہے۔ جس کو آزاد ہندوستان میں اب تدریجاً نافذ کیا جارہا ہے۔ تاریخی حقائق سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہمیں لگتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہورہی لام بندی صرف بی جے پی اور آر ایس ایس کی دین ہے۔ لیکن یہ بات پورا سچ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے اصلی گنہگار کون ہیں اس کو تفصیل سے سمجھنے کے لئے تھوڑا سا پیچھے جانا پڑے گا۔
لکھنو معاہدہ (Lucknow Pact)
1916 میں انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان ایک معاہدہ کیا گیا تھا۔ جس کو لکھنو معاہدہ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد ہندو اور مسلمان رہنماؤں کو اکٹھا کرکے انگریزوں سے ہندوستانی حکومت کا مطالبہ کرنا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ اہم مقاصد یہ تھے:
- ہندو مسلم اتحاد: دونوں جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ملک کی آزادی کے لیے اکٹھا کام کریں گے۔ یہ پہلا موقع تھا جب کانگریس اور مسلم لیگ ایک مشترکہ مطالبہ لے کر سامنے آئی تھیں۔
- حکومت کا مطالبہ: اس معاہدے کے تحت انگریزوں کو اس بات پر راضی کرنا تھا کہ ہندوستانیوں کو اپنی حکومت بنانے کا حق دیا جائے۔
- مسلمانوں کے لیے علیحدہ انتخابات: کانگریس نے پہلی بار مسلم لیگ کے مطالبے کو تسلیم کیا کہ مسلمانوں کے لیے الگ نشستیں ہوں گی، تاکہ ان کی سیاسی نمائندگی یقینی ہو سکے۔
- نشستوں کی تقسیم:
- جہاں مسلمان کم تھے (جیسے تمل ناڈو، ممبئی)، انہیں آبادی سے زیادہ نشستیں دی گئیں۔ مثال کے طور پر، یوپی میں مسلمان %14 تھے، لیکن انہیں %30 نشستیں ملیں۔
- جہاں مسلمان زیادہ تھے (جیسے بنگال، پنجاب)، نشستوں کا تناسب آبادی کے مطابق رکھا گیا۔
- مشترکہ سیاسی جدوجہد: دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے مطالبات کی حمایت پر راضی ہوئیں۔
لکھنو معاہدہ (1916) ہندو مسلم اتحاد کی ایک بڑی کوشش تھی، لیکن یہ زیادہ عرصے تک نہیں چل سکا۔ اس معاہدے کے ٹوٹنے کی جو وجوہات تاریخ میں درج ہے۔ اس سے اس بات کو سمجھنے میں کافی آسانی ہوگی کہ مسلمانوں کے موجودہ حالت کی سازش کتنی گہری ہے۔
سیاسی اختلافات بڑھنا:
- وقت کے ساتھ ساتھ کانگریس اور مسلم لیگ کے بدلتے اہداف کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ کانگریس "پورنیہ سوراج” (مکمل آزادی) چاہتی تھی، جبکہ مسلم لیگ پر مسلمانوں کے حقوق پر زیادہ زور دینے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
- بال گنگا دھر تلک، لکھنؤ معاہدہ کے تحت مسلمانوں کو الگ انتخابی نشستیں دینے کے خلاف تھے۔ بعد میں کانگریس کے کچھ لیڈروں نے بھی لکھنو معاہدے کی شرائط کو "مسلمانوں کو زیادہ مراعات” دئے جانے کی بات کہہ کر معاہدے توڑنے میں اہم رول ادا کیا۔
معاہدے کے کالعدم ہونے میں دراصل وہی دوقومی نظریہ ہے۔ جس کے تحت یہ طے مانا جاتا ہے کہ پاکستان میں مسلمان اور ہندوستان میں صرف ہندو رہیں گے۔ یہ وہی دوقومی نظریہ تھا جس کے تحت بال گنگا دھر تلک اور گوپال کرشن گوکھلے یا دیگر کانگریسی لیڈروں نے مسلمانوں کے سیاسی حصے داری کی آزادی سے پہلے ہی مخالفت کی تھی۔
خلافت تحریک سے عدم تعاون:
- 1919-1922 کی خلافت تحریک کے بعد جب گاندھی جی نے تحریک واپس لی۔ تو مسلمانوں کو لگا کہ کانگریس نے ان کے مذہبی مسائل (خلافت کی حمایت) کو نظرانداز کیا ہے۔ اب موہن کرم چندگاندھی نے اتنا بڑا قدم کیوں اور کس کے مشورے سے لیا یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔
مذہبی مفادات کی ترجیحات:
1920 کے بعد محمد علی جناح اور ہندو مہاسبھا کے لیڈروں کے درمیان اتحاد کے بجائے الگ الگ مفادات نے زور پکڑنا شروع کردیا۔ ہندومہاسبھا ہندو، پر ہندوقوم پرستی، جبکہ محمد علی جناح پر مسلم مفادات کو ترجیح دینے کا الزام لگا۔
ذمہ دار افراد اور سیاسی جماعتیں:
- انگریز حکومت:
- کچھ حد تک یہ بات درست ہے کہ انگریز حکومت نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے والی پالیسیاں بنائیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ برطانیہ حکومت کی یہ پالیسیاں صرف انگریز حکومت تک محدود تھیں۔ حقیقت یہ ہےکہ کانگریس اور ہندو قوم پرست لیڈروں کی بہتات بھی یہ چاہتی تھی کہ ملک کی ایک تہائی آبادی پر مشتمل مسلمانوں کو سیاسی حصے داری سے محروم رکھا جائے، بصورت دیگر ہندوستان کی تقسیم ناگزیر ہے، ورنہ بال گنگا دھر تلک اور گوپال کرشن گوکھلے یا دیگر کانگریسی ہندوقوم پرست لیڈروں کو اقلیت میں پائے جارہے مسلمانوں سے کیا خطرہ تھا۔ جنہوں نے لکھنؤ معاہدے کے تحت دی جانے والی مسلمانوں کو الگ نشستوں کو "غیرمنصفانہ” قرار دیا اور اس کی مخالفت شروع کردی کی۔
دوقومی نظریہ:
لکھنؤ معاہدے کے ٹوٹنے کے پیچھے ایک اور بڑی وجہ مذہبی انتہاپسندی کو بھی مانا جاتا ہے۔ لیکن دونوں طرف سے اس کی شمولیت 1925 کے بعد متحقق ہوتی ہے۔ جس میں آرایس ایس اور مسلم دیوبندی قرفہ کو قصوروار گردانا جاتا ہے۔ حالانکہ دیوبندی فرقہ سے مراد یہاں ایک خاص تنظیم ہے۔ جو آج بھی مسلمانوں کے سیاسی حصے داری کو اچھا نہیں مانتی۔
ذمہ دار ہندوقوم پرست لیڈر:
مذکورہ بالا تمام تاریخی حقائق پر غور کیا جائے تو لکھنؤ معاہدہ ٹوٹنے کی سب سے بڑی وجہ کانگریس کے ہندو قوم پرست لیڈران تھے۔ جن میں بال گنگا دھر تلک اور گوپال کرشن گوکھلے کے نام سرفہرست ہیں۔ جنہوں نے سب سے زیادہ مسلمانوں کے سیاسی حصےداری کی مخالفت کی۔
انگریز حکومت سمیت کانگریس نے بھی مسلمانوں کے سیاسی حصے داری پر اعتراض جتایا۔ اس درمیان نومبر 1919 میں جمیعت علماء ہند، اور ستمبر 1925 کو ناگپور میں آر ایس ایس کا جنم ہوا۔ جمعیت علماء ہند شروع میں ایک متحدہ قومیت کی حامی تھی۔ بعد میں جمیعت کے ایک گروپ نے 1930 کے دوقومی نظریہ کے تحت پاکستان کی حمایت کی۔
دوقومی نظریہ کی حمایت:
یہ بات آج تک مبہم ہے کہ جمیعت کا ایک دھڑا جس نے تقسیم کی حمایت کی۔ اس کی یہ منشا بعد میں وجود میں آئی، یا اس کے بنیادی مقاصد میں یہ پہلے سے ہی شامل تھا۔ بہر حال 1930 سے پہلے تک مسلمانوں کی طرف سے تقسیم کی حمایت کا کوئی نظریہ نہیں تھا۔ ہاں متحدہ قومیت کے تحت جس آزاد ہندوستان کا خواب دیکھا جارہا تھا۔ اس میں مسلمانوں کے سیاسی حصے داری پر ہندو قوم پرست راضی نہیں تھے۔ جس کے عوض لکھنؤ معاہدہ کالعدم قرار پایا۔
لکھنؤ معاہدے کو کالعدم کرنے میں مسلمانوں کے سیاسی حصے داری کو نظرانداز کرنا ایک کلیدی وجہ ہے۔ آزاد بھارت میں بھی نام نہاد سیکولر پارٹیاں اسی پرانے ایجنڈے پر کار بند ہیں۔ ملک کی ہر چھوٹی بڑی پارٹی کسی بھی نظریہ کے حامل پارٹی سے اتحاد کر لیتی ہے۔ لیکن مسلم لیڈرشپ والی پارٹیوں سے کبھی ہاتھ نہیں ملاتیں۔ اس کے لئے اگر ان پارٹیوں کو چناؤ بھی ہارنا پڑے تو پرواہ نہیں کرتیں۔
آزادی کے بعد:
آزادی کے پہلے سے جاری اس مسلم مخالف ذہنیت کا مشاہدہ کرنے کے بعد اب آزادی کے بعد کے حالات کا جائزہ بھی لے لیا جائے توتصویر مزید واضح ہوجائے گی۔
آزادی کے بعد سب سے ناانصافی مسلمانوں کے ساتھ یہ ہوئی کہ انگریزی دور حکومت میں پائی جانے والی مسلمانوں کے سیاسی حصے داری والی فضا بدستور قائم ہے۔ بلکہ اس میں مسلم رہنماؤں اور ملی تنظیموں نے بھی بھر پور کانگریس کا ساتھ دیاہے۔
کانگریس کو مسیحا ثابت کیا گیا:
کانگریس ہی مسلمانوں کی مسیحا ہے۔ اس بات کو عام مسلمانون کے دل و دماغ میں بٹھانے کے لئے دارالعلوم دیوبندکے اسٹیج کو کانگریس کے حوالے کیا گیا۔ جہاں مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی ایک کامیاب کوشش ہوئی کہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنی قیادت کی ضرورت نہیں رہی۔ اب کانگریس ہی مسلمانوں کی نگہبان ہے۔ آج بھی جمیعت علماء ہند ملک میں کسی بھی مسلم سیاسی قیادت کی سخت مخالف ہے۔
جس کانگریس اور نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو مسلم علماء اور دانشور مسلمانوں کا محافظ بتاکر مسلمانوں کے سیاسی حصے داری کے راستے بند کرتے دئیے۔ ان کی کارگزاریاں بتاتی ہیں، کہ مسلم لیڈرشپ کو نہ ابھرنے دینے کے پیچھے کی کہانی، ایک تہائی مسلمانوں کے خاتمہ سے عبارت ہے۔ جو آزادی سے پہلے کی طرح بدستور جاری ہے۔
دراصل جس دوقومی نظریہ کے تحت ملک کی تقسیم کی گئی ہے۔ اس کے تحت بھارت کے ہندوقوم پرست سیاست میں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ چونکہ مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہیں بھگاپانا (Deportation) یا قتل کرپانا، ناممکن ہے۔ اس لئے دھیرے دھریے ان کے حقوق سلب کئے جارہے ہیں۔
آئینی حقوق کا سلب کیا جانا:
آرٹکل 341 میں مذہب کی قید، بابری مسجد میں مورتیاں رکھنا، سی سی اے، ممکنہ این آر سی، تین طلاق، مدرسہ ایکٹ مسترد کیا جانا( سپریم کورٹ کی حالیہ راحت برقرار ضرور ہے لیکن یہ دائمی نہیں ہے)، بابری مسجد فیصلہ، رام مندر کی تعمیر اور اب وقف بورڈ ترمیمی بل، یہ سبھی اسی دوقومی نظریہ کی تکمیل ہے۔ جس کے تحت ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں بچتی۔
دوقومی نظریہ کی تکمیل کیسے ہوگی:
اب مسلمان اس سازش کو کب اور کیسے سمجھے گا یہ تو وقت کی ہی بتا پائے گا۔ فی الحال ملک میں مسلمانوں کو جو حالات درپیش ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ بہت سارے لوگ اس بات کو تسلیم تو کرتے ہیں۔ لیکن اس کے خلاف جد وجہد کرنے کی جسارت نہیں کرتے۔ جو اس بات کا غماز ہے کہ بھلے ہی مسلمانوں کو دیش نکالا (Deportation) یا قتل کرکے ختم نہ کیا جائے۔ لیکن جینے کے نام پر سبھی مسلمانوں کو مرتد بنانے کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ جو نہ صرف برسوں پہلے طے شدہ دوقومی نظریہ کی تکمیل کرے گا بلکہ بھارت سے اسپین کی طرز مسلمانوں کا خاتمہ بھی یقینی بنائے گا۔
[…] دیا جاتا تو لوگ ساری عمر نفسانی خواہشات کی پیروی میں گناہ کرتے اور موت سے عین پہلے توبہ کر لیتے، اس لئے موت کا وقت […]
[…] ہے کہ رمضان کے اخری عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات دیگر ایام کے مقابلہ میں بڑھ جاتے تھے۔ دیگر احادیث میں […]
[…] آر ایس ایس ہندو راشٹر کے قیام کو ہرممکن یقینی بنانے میں مصروف عمل ہے۔ سیکولر […]