از شفیق فیضی
ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کا نظام صدیوں پرانا ہے، جو نہ صرف دینی تعلیم کا مرکز رہا ہے بلکہ معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی حیثیت سے بھی اہم کردار ادا کرتا آیا ہے۔ تاہم، موجودہ دور میں یہ ادارے کئی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مدارس مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں، جبکہ دوسرے انہیں اسلامی تشخص کی بقا کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ خود میرا ماننا ہے کہ ہندوستان میں مدارس اسلامیہ مسلمانوں کے زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فسطائی طاقتیں مسلسل ان مدرسوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
مدارس کا تاریخی اور ثقافتی کردار
- دینی تعلیم کا مرکز: مدارس نے قرآن، حدیث، فقہ اور اسلامی علوم کو زندہ رکھا ہے۔
- معاشرتی تحفظ: غریب مسلم خاندانوں کے بچوں کو مفت تعلیم اور رہائش فراہم کی۔
- ثقافتی ورثہ: صوفیاء اور علماء کی روایت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
موجودہ دور کے چیلنجز
- تعلیمی جدیدیت کا فقدان: زیادہ تر مدارس میں جدید علوم (سائنس، انگریزی، کمپیوٹر) کی کمی ہے، جس کی وجہ سے طلباء روزگار کے میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
- سرکاری پابندیاں: حکومت کی جانب سے "این.آئی.اے.اس” (NIAS) جیسی اسکیمیں مدارس کو "شدت پسندی” سے جوڑ کر پیش کرتی ہیں۔
- فنڈنگ کی کمی: زیادہ تر مدارس زکوٰۃ اور عطیات پر چلتے ہیں، جو معاشی عدم استحکام کا شکار ہیں۔
- تنقید کا نشانہ: میڈیا اور بعض سیاسی جماعتیں مدارس کو "دہشت گردی” یا "فرقہ واریت” سے جوڑ کر پیش کرتی ہیں۔
کیا مدارس مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹ ہیں؟
- جدید تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے مدارس کے فارغین روزگار کے مواقع سے محروم رہتے ہیں، جبکہ بعض مدارس میں تنگ نظری پائی جاتی ہے، جو سماجی ہم آہنگی کو متاثر کرتی ہے۔
- تمام خرابیوں کے بعد بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مدارس نے غریبوں کو تعلیم دے کر انہیں جرائم سے بچایا ہے۔ مسلم بچوں کی مالی حالت میں بھلے ہی استحکام پیدا نہ کیا ہو، لیکن سماجی اعتبار سے نوجوانوں میں خود اعتمادی اور معاشرتی وقار کو بہت حد تک بحال کرنے میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔ اگر مدارس کو جدید تعلیم سے جوڑ دیا جائے، تو یہ قوم کی ترقی کا بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں
حل کے تجاویز
فی الحال ملک میں مدارس اسلامیہ کے تعلق سے حکومت نے کریک ڈاؤن مہم چھیڑ رکھی ہے۔ گذشتہ ایک ماہ میں اتراکھنڈ اور اترپردیش میں تقریباً ایک ہزار سے زائد مدارس اور مساجد کے خلاف انہدامی کارروائی، یا نوٹس جاری کیا جا چکا ہے، حکومت کسی بھی صورت مدرسوں کو بند کرنا چاہتی ہے۔ جس کے لئے یوپی کی حکومت کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔
مسلمانوں نے ان مدرسوں کو بچانے کی کوئی ترکیب نہیں نکالی تو اگلے چند برسوں میں ریاستی سطح پر مدارس اسلامیہ کا خاتمہ یقینی ہے۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اب جبکہ طوفان سروں سے تجاوز کرچکا ہے تو ان حالات میں زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکے مدارس اسلامیہ کو کیسے بچایا جا سکتا ہے؟ اس سلسلے میں کچھ تجاویز حسب ذیل ہیں اگر مسلمان اس پر سنجیدگی سے کام کرلیں تو انشاء اللہ مدرسوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
- سب سے پہلے ہر ضلع میں 20-25 لوگوں کی ایک ٹیم بنائی جائے جس میں مسلم سماج کے دانشور اور مخلص افراد کو شامل کیا جائے، افراد کی فراہمی میں مالی حیثیت کو ہرگز معیار نہ بنایا جائے، علمی لیاقت اورملکی حالات پر گرفت کو ترجیح دی جائے۔
- ہر ضلع میں انصاف پسند وکیلوں کی جماعت اکٹھا کی جائے، اس میں ایسے غیر مسلم افراد کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے جو بھارت کے آئین کی بالادستی چاہتے ہیں، ان وکیلوں کے ذریعہ ضلع جج، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مدرسوں کے خلاف جاری اس مہم کو چیلینج کیا جائے، پی آئی ایل میں یہ واضح کیا جائے کہ ریاست نے مدارس کی منظوری کو کیوں روک رکھی ہے؟ جبکہ یہ اقلیتوں کا بنیادی حق ہے۔
- بلڈوزر کارروائی کو روکنے کے لئے الگ سے دیگر پی آئی ایل داخل کی جائیں جس اس بات کا مطالبہ کیا جائے کہ اگر سرکاری زمین پر بنے مدارس کے خلاف انہدامی کارروائی کی جاتی ہے تو، ان مندروں، گرودواروں، شیوالوں اور دھرمشالاؤں کو بھی منہدم کیا جائے جو سرکاری اراضی پر تعمیر کئے گئے ہیں۔ قانون کی لاٹھی صرف ایک مخصوص مذہب کے پیروکاروں کے خلاف ہی کیوں
- ریاست کے مختلف اضلاع سے 5-10 آر ٹی آئی کارکنان بنائے جائیں جو ہر ڈی ایم دفتر سے ایسی تمام عمارتوں کی معلومات حاصل کریں جو سرکار اراضی پر تعمیر کی گئی ہیں، ساتھ ہی یہ سوال پوچھا جائے کہ ابھی تک جن عمارتوں کے خلاف کارروائی ہوئی ہے ان میں مسجد، مدرسے، مزارات، عیدگاہ، کربلا، مندر، شیوالے، دھرم شالے اور غیر منظور شدہ پرائیویٹ اسکول کتنے ہیں؟
- https://cybercrime.gov.in/Hindi/Helplinehn.aspxاگر کارروائی ایک مخصوص طبقے کی ہی عمارتیں یا مذہبی عبادت گاہ تک محدود ہے تو اس دوہرے پیمانے کی وجہ دریافت کیا جائے۔
- ابھی تک جن مساجد، مدارس اور مزارات کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ہے ان کا ڈاٹا جمع کیا جائے، اور لوکل میڈیا کے ذریعہ ان کی تشہیر کرائی جائے تاکہ عوامی رائے عامہ ہموار کرنے میں مدد ملے۔
- ایک ٹیم الگ ایسی بنائی جائے جو اس کار خیر میں مالی ضرورت کی تکممیل کرے، دھیان رہے کراؤڈ فنڈنگ بالکل نہیں کرنا ہے، انفرادی طور پر اہل ثروت اور سرمایہ داروں کو احساس دیالا جائے کہ ان اخراجات کی تکمیل ان کا ملی اور دینی فریضہ ہے۔
- میڈیا اویئرنس: مدارس کے مثبت کردار کو میڈیا کے ذریعے اجاگر کرنے کے لئے ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل نیٹ ورکنگ کے ایکسپرٹ کی مدد لی جائے۔
اگر اجتماعی طور پر ہم یہ کرنے میں دلچسپی دکھائیں تو ہم نہ صرف اپنے مدرسوں اور مسجدوں کو بچا لیں گے بلکہ ملک میں ہماری عظمت رفتہ بھی بحال ہوسکتی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ یہ کوئی مشکل کام ہے، اگر ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ مدارس اسلامیہ مسلمانوں کے زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں جو ہمارے دین و ایمان کا تحفظ کرتے ہیں، تو ہمیں یہ کرنا ہی ہوگا کیونکہ اس کے علاوہ ہمارے پاس دوسرا کوئی چارہ نہیں ہے